بلبل پاکستان ملک عدم رخصت ہوئی
ادب تہذیبوں کا پاسدار اور زبانوں کا امین ہوتا ہے اور ادیب نہ صرف اپنے عہد کا آئینہ ہے جسکی تحریروں میں ہم اسکے معاشرے کا عکس دیکھتے ہیں بلکہ ایک شاعر ادیب کا وجدان آنے والے وقتوں کا ادراک کرتا ہے ایک ادیب کی ادبی خدمات ہر عہد کے لئے ہوتی ہیں کہ شاعر ادیب کسی ایک عہد کا نہیں ہوتا بلکہ ہر عہد اسکا عہد ہوتا ہے کیونکہ شعراء ادباء کرام نے اپنی تخلیق کے ایسے پختہ نقش چھوڑے ہوتے ہیں جنہیں زمانے کا تغیر بھی مٹا نہیں پاتا البتہ زمانے کی فراموشی الگ بات ہے ایسی ہی ایک ادیبہ بشری رحمن تھیں جن سے میری ملاقات ڈاکٹر اجمل نیازی کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب میں ہوئی یہ مشرف دور تھا پرویز الہی اس وقت پنجاب کے وزیر اعلی تھے جو شادی کی اس تقریب میں شامل ہوئے یہ وہ دور تھا کہ الیکٹرانک میڈیا نے ابھی اخبارات کا طلسم نہیں توڑا تھا اگرچہ موقر روزنامے آج بھی اپنا وقار اور معیار سلامت رکھے ہوئے ہیں لیکن اس وقت کی بات ہی کچھ اور تھی بشری رحمن سے پہلی ملاقات میں ہی اپنائیت کا ایسا احساس ہوا کہ گویا برسوں کی شناسائی ہے انکی مسکراہٹ سے تتلیوں کے پروں کے رنگ بکھر بکھر جاتے اور انکی گفتگو سے ماحول تمام تر ادب سمیٹ لاتا اپنی تحریروں کے متعلق بات چیت کرتے کہنے لگی کہ میں جب لکھتی ہوں تو جیسے پانی بہہ نکلتا ہے ایسے میں لکھتے ہوئے لکھتی ہی جاتی ہوں ان سے فون پر دیر تک باتیں ہوتیں اور اس بات کا احتمال بھی نہیں رہتا کہ باتیں کرتے وقت کتنا گذرا گیا ہے ڈاکٹر بشریٰ رحمن 29 اگست 1944ء بہاولپور میں پیدا ہوئی بہاول پور بڑا ذرخیز خطہ ہے جسکے خمیر میں کیسے کیسے انمول نگینے گوندھے گئے بشری رحمن نے متعدد کتابیں لکھیں۔2007ء میں انہیں صدارتی اعزاز ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔
انہوں نے جامعہ پنجاب سے صحافت کی ماسٹر ڈگری حاصل کی بشری رحمان صرف ادب ہی نہیں بلکہ سیاست کی گم گشتہ گلیوں میں بھی کھو گئی تھیں ان کا سیاسی سفر 1983ء میں شروع ہوا تھا،اور پھر 1985ء اور 1988ء میں پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں، 2002ء اور 2008ء میں رکن قومی اسمبلی بنیں۔پاکستان ٹیلی ویژن اور پرائیویٹ پروڈکشن کے لئے کئی ڈرامے بھی لکھے، خواتین میں ان کے ناول ااور افسانے بہت مقبول ہوئے انہوں نے ماہیا نگاری کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی۔انکا ادب کئی نسلوں کی علمی ادبی تشنگی دور کرتا رہے گا۔بشری رحمان کے معروف ناولز میں اللہ میاں جی، بہشت، براہ راست، بت شکن چاند سے نہ کھیلو اور چارہ گر شامل ہیں۔ چادر چاردیواری اور چاندنی کے نام سے کالم بھی لکھتی رہیں انکا کالم اخبار کے جس صفحہ پر شائع ہوتا گویا اسکی زینت بڑھ جاتی نوائے وقت کے ایک صفحہ پر بشری رحمان تو ایک پر ڈاکٹر اجمل نیازی شائع ہوتے تو رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہوتا وقت کا دریا بھی کیا کیا بہا کر کے گیا ہے جناب مجید نظامی فن کے شناسا اور قدردان سخن تھے یہ دور خالصتاً کالم نگاروں کا دور تھا اس دور میں اینکرز کا بے ہنگم شور شامل نہیں تھا اگرچہ کچھ اینکرز کی بات چیت میں تخلیق اور تحقیق کا عنصر شامل ہوتا ہے لیکن پھر بھی سوندھی مٹی کی خوشبو جیسا وہ دور نہیں رہا مجید نظامی صاحب کی نگاہ بینا لکھنے والوں کے تخلیقی جوہر تلاش کر لیتی مجید نظامی صاحب ایک نظریاتی شخصیت تھے اور بشری رحمان بھی،
اور یہ نظریہ پاکستا ن کے بڑے داعی تھے کچھ لوگ بول سکتے ہیں لیکن لکھ نہیں سکتے اور کچھ لکھ سکتے ہیں لیکن بول نہیں سکتے اور بشری رحمان کی یہ خوبی تھی کہ لکھنے اور بولنے میں انہیں یکساں ملکہ حاصل تھا غالباً محبتوں کے امین مجید نظامی صاحب انہیں بلبل پاکستان کہتے پھر کئی لوگ انہیں بلبل پاکستان پکارنے لگے خواتین کے حق میں انکے قلم نے بہت کچھ لکھا وہ بڑی بہادر خاتون تھں اپنی بات پر ڈٹ جانے والی خاتون ایسے مقرر بہت کم ہوتے ہیں وہ سٹیج پر گرجنے برسنے والی تھی انکی زبان اور تحریر میں تا ثیر تھی کالم کی طرح تقریر میں بھی جملے ایسے جیسے آمدہو ایک زمانہ تھا کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بشری رحمان بہت پڑھی جاتی تھیں کتاب کے دور میں وہ بہت معتبر لکھنے والوں میں شامل تھیں کتابی دور تو جیسے کوئی گلابی دور تھا انکا ایک اشاعتی ادارہ بھی تھا و’طن دوست‘ یہ تو اشاعتی ادارہ کی بات ہے وہ خود بھی بڑی وطن دوست تھیں بشری رحمان کالمسٹ، ناولسٹ، ڈرامہ نویس، افسانہ نگار اور سیاسی قد کاٹھ کی خاتون تھی انکی تحریروں کا اپنا ہی اسلوب تھا۔
بشریٰ رحمان کورونا کی ہلاکت انگیزی کا شکار ہوئی انکی رحلت سے علم و ادب ایک بڑے خسارے کا شکار ہوا بھارت میں لتا کے انتقال سے ہمارا الیکٹرانک میڈیا بڑا تڑپا بلاشبہ لتا بڑی گلوکارہ تھی لیکن بشری رحمان بھی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھی جنکی رحلت پر الیکٹرانک میڈیا نے وہ جگہ نہ دی جو انہیں ملنی چاہئے اللہ انکے درجات بلند فرمائے آمین