دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کل جماعتی کانفرنس

دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کل جماعتی کانفرنس
دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کل جماعتی کانفرنس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 وطن عزیز میں حالیہ دہشت گردی نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ علاقائی امن کیلئے بھی خطرہ ہے۔ گزشتہ 8 سال میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اس قدر شدت سے نہیں دیکھے گئے جس طرح گزشتہ چند دنوں میں دیکھے گئے۔تحریک طالبان نے جنگ بندی ختم کر کے مسلح دہشت گردی کی کارروائیوں کا اعلان کیا۔ پشاور مسجد میں خود کش حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان واقعات سے پاکستان میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہو چکی ہے۔
وزیر اعظم نے پشاور کی دہشت گردی کے بعد اس لعنت سے مل کر لڑنے کے لیے تمام صوبوں کے درمیان اتحاد پر زور دیا۔ وقت کی ضرورت ہے کہ سیاسی، مذہبی رہنما اورقومی ادارے دہشت گردی کے خلاف متحد ہوں۔ ماضی میں ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز میں عظیم قربانیاں دی گئیں۔ افواج پاکستان نے دلیری اور بہادری سے دہشتگردی کامقابلہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دیں۔ قوم ان کی قربانیوں کو سنہری حروف میں یاد رکھے گی۔ 
اس ضمن میں وزیر اعظم نے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائی ہے تاکہ موجودہ قومی چیلنجز پر قابو پانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ حکومت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو میز پر لانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ موجودہ صورت حال سے نکلنے کے راستے تلاش کر سکیں۔ اِس حوالے سے وفاقی وزراء نے مختلف جماعتوں کے اعلیٰ رہنماؤں بشمول سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
ملک میں جاری سیاسی کشیدگی اور الزام تراشی سے آلودہ ماحول میں اے پی سی کو اہم سیاسی پیش رفت قرار دیا جا رہا  ہے۔ مگر تحریک انصاف نے اے پی سی میں شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ جب حکومت میں تھی تب بھی اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہوتی تھی۔ گذشتہ آٹھ ماہ سے جاری بیانات کی گولہ باری نے تلخی مزید بڑھا دی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد کے موقف میں واضح فرق ہے جس کا اظہار سول لائنز پشاور میں حالیہ ہونے والی دہشت گردی کے بعد دونوں جانب کی قیادت کے بیانات سے ہوتا ہے۔ 


قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ اِس وقت تمام سیاسی قیادت اپنی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کو درپیش دہشت گردی کے خلاف ایک موقف اپنائے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام قومی قیادت کو آواز دی جس کا جواب پی ٹی آئی نے نفی میں دیا ہے تاہم  تحریک انصاف کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور حکومت کو بھی پی ٹی آئی رہنماؤں سے رابطے جاری رکھنے چاہئیں اور اسے اے پی سی میں شرکت پر آمادہ کیا جانا چاہئے۔ 
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان کی سالمیت اور مضبوطی اول ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ یہ دھرتی  قائم و دائم ہے تو ہمارا اقتدار ہے۔ماضی میں کئی مواقع پر سیاست دانوں نے ریاست کو فوقیت دی ہے،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے برسوں کی سیاسی لڑائی پس پشت ڈال کر میثاق جمہوریت کیا، بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، سانحہ اے پی ایس کے بعد عمران خان نے دھرنا ختم کر دیا تھا، تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا۔اب بھی وطن عزیز کو قوم کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ 


کسی بھی صحت مند جمہوری معاشرے میں حزبِ اختلاف کی جانب سے حکومتی اقدامات پر تنقید سے اصلاح کے پہلو نکلتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اختلاف برائے اختلاف اور تنقید برائے تنقید کی روایت مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے، سیاسی عدم برداشت کے بڑھتے رجحان سے مسائل حل کرنے میں مشکلات بڑھ تو سکتی ہیں کم کسی طور نہیں ہوں گی۔ قومی سلامتی کا تقاضا ہو یا معاشی تباہی کے خدشات،اِس وقت قوم سیاسی قیادت سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ تمام اختلافات پس پشت ڈال کر سر جوڑ کے بیٹھے،ماضی میں ہونے والی غلطیوں،کوتاہیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے، ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے ہر کوئی اپنی اپنی غلطیوں کو بڑے دِل سے قبول کرے اور اس راستے کی نشاندہی کرے جس پر چل کر پاکستان ایک محفوظ خوشحال ملک بن سکے۔
یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ برس میں ساڑھے چار لاکھ افغانی پاکستان میں داخل ہوئے جو اب تک واپس نہیں گئے۔ افغانستان نے دوحہ معاہدے میں لکھ کر دیا ہوا ہے کہ ان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی لیکن اِس کے باوجود افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔ سوال تو بہت سے ہیں لیکن اْن کے جواب بھی تو کوئی دے، کوئی یہ بھی تو بتائے کہ صرف نظر کون کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ 


پشاور خودکش حملے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی سوال اٹھایا کہ دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟ ان سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ دو، وہ دو، کبھی کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرو،اِس دوران ریاست کہاں (چلی جاتی) ہے؟ اب بھی پشاور حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے خراسانی گروپ نے قبول کر لی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ انتہاء پسندوں کی گرفتاری کا ردعمل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب گھر کے اندر لڑائی جھگڑے ہوں،ایک دوسرے پر اعتماد نہ ہو تونقب لگانے والوں کو آسانی ہو جاتی ہے۔
وزیر اعظم نے آل پارٹیز کانفرنس ایسے وقت میں طلب کی ہے جب ملک  ایک بار پھر بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔  پاکستان کو اس  صورت حال سے نکالنا کسی ایک سیاسی جماعت یا ادارے کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوں گی۔ 

مزید :

رائے -کالم -