سیاسی شعور کا فقدان

ایک کمپنی کے مالک سے اسکے ماتحت نے سوال کیا کہ سر آپ کے خیال میں ہمارے ملک کا مستقبل کیا ہے اور کیا ہمارے ملکی مسائل کا کوئی حل نکل سکتا ہے تو کمپنی کے سی ای او نے کہا کہ اس ملک میں ترقی کا خواب صرف دیکھا جا سکتا ہے لیکن عملی طور پر کچھ کرنا مشکل تو کیا ناممکن دکھائی دے رہا ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ سوال کرنے والے کو مطمئن کرنا بھی ضروری تھا اس لئے مالک نے کہا کہ میں تمھیں اسکا عملی ثبوت پیش کرتا ہوں ۔ یہ کہہ کر مالک نے راہ چلتے ایک آدمی کو روکا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تمھارے خیال میں ملکی مسائل کا کیا حل ہے ؟ تو اس نے کہا مجھے کیا معلوم کہ کون ایسا نجات دہندہ ہے جو ان مسائل کو چٹکی بجاتے حل کر دے ۔ سوال پوچھنے والے نے اس راہ گیر سے کہا کہ ملک کی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام عوام کو پکڑ کر جیلیں بھر دی جائیں اور ان کے ساتھ ایک گدھا بھی بند کر دیا جائے ۔
وہ شخص حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا کہ گدھے کو بھلا کیوں جیل میں بند کیا جائے َ ؟ اسکا کیا قصور ہے ۔ راہ چلتا آدمی یہ جواب دے کر چلتا بنا تو اس ماتحت کو اپنے سوال کا جواب مل گیا کہ لوگوں کو عوام کی تو فکر ہی نہیں ہے کہ پورے عوام کو قید کیوں کیا جا رہا ہے ؟ بلکہ انھوں نے بھی گدھے کا ہی خیال کیا ہے عوام کی سوچ بھی یعنی گدھے کی تکلیف تک ہی محدود ہے ۔
اب اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگوں کے پاس سیاسی شعور ہی نہ ہو تو وہاں مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں اب چاہے وہ شہری نوعیت کے ہوں یا ملکی نوعیت کے ۔
ہمارے ہاں بھی یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ووٹ کے لالچ میں عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور بعد میں ان سے بے نیازی برتی جاتی ہے لیکن میرے خیال کے مطابق عوام بے وقوف نہیں ہوتے بلکہ وہ زمینی حقائق جانتے ہوئے بھی غلط امیدوار کا انتخاب محض برادری ، تعلق داری اور ہوش کی بجائے جوشیلے نعروں سے کرتے ہیں ہاں البتہ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ غریب آدمی کو تو سورج میں بھی روٹی نظر آتی ہے اور آج کل کے اس مہنگائی کے دور میں ہر کوئی ایک وقت کی روٹی کے لئے خوار ہو رہا ہے ایسے میں جب عوام کا پیٹ ہی بھرا نہیں ہوگا تو ملک کی سیاست میں کیا خاک دلچسپی لیں گے ؟
لیکن افسوس کہ نچلی سطح پر بھی عوام ہاتھ پر ہاتھ دھر کر ہی بیٹھے ہوئے ہیں مثال کے طور پر آج کل ہر کسی کے علم میں ہے کہ گندگی سے بیماریاں پھیلتی ہیں لیکن کوڑا کرکٹ ہر جگہ دکھائی دیتا ہے ۔ اس طرح سب جانتے ہیں کہ درخت نہ لگانے سے آلودگی پیدا ہوتی ہے لیکن پھر بھی سب لوگ درختوں کی کٹائی پر لگے ہوئے ہیں ۔ نچلی سطح پر عوام کو اتنا شعور نہیں یا وہ جان بوجھ کر اپنے فرائض کی انجام دہی سے پہلو تہی کر رہے ہیں تو پھر ملکی سطح کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے کا مرحلہ تو بہت بعد میں آتا ہے ۔
ہم میں سے ہر شخص دیرپا نتائج کے بارے میں نہیں بلکہ وقتی فائدے کے بارے میں سوچتا ہے جبکہ شہری اور ملکی مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کی نوعیت طویل المدت ہوتی ہے اسی لئے تو کسی بھی حکومت کو ۵ سال اقتدار کے لئے دئیے جاتے ہیں ۔ ان حکومتوں میں اگر خداخوفی ہو اور وہ منصوبہ جات پر کام بھی کریں تو ہر وقت ان کے سر پر برطرفی کی تلوار لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور عوامی نمائندے عوام کے لئے باعث آزار بن جاتے ہیں ۔ عوام کے بغیر یہ سیاست دان کچھ بھی نہیں لیکن عوام اپنے بجائے گدھے کے بارے میں متفکر ہیں ۔ اگر چاہتے نہ چاہتے گدھے کو ہی فائدہ پہنچایا جائے گا تو عوام تک ترقی کے ثمرات کیسے پہنچ سکتے ہیں ۔
بالغ النظر افراد ایک مختلف نظریے سے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں وہ سب سے پہلے اپنے اور اپنے ملک کے بارے میں سوچتے ہیں اس وقت پاکستانی قوم کو بھی اپنی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنا ہو گا حکمرانوں کا احتساب کرنا اور انھیں عوامی خدمت پر آمادہ کرنا ہو گا ۔۔۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔