گلابو کی ہجرت اور آگ۔۔۔(مختصر افسانہ)

تحریر :نیلما ناھید درانی
عشق نہ پچھے ذات
امرتسر سےمسلمان گھرانے ہجرت کرنے لگے۔۔۔تو ایک مسلمان گھرانے میں ڈاکٹر کمار بھی تھا۔۔۔ڈاکٹر کمار ہندو تھا۔۔۔نوجوانی میں اسے ایک مسلمان لڑکی سے محبت ہو گئی۔۔۔دونوں اپنا اپنا مذہب نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔۔۔لڑکی کی شادی اپنے خالہ زاد سے ہوگئی۔۔۔اور وہ شادی کے بعد بھی اسی محلے میں رہی۔۔
لڑکی کے بچے پیدا ہوئے۔۔۔پھر بچوں کی شادیاں ہوئیں۔۔۔جب پاکستان بنا تو وہ دادی نانی بن چکی تھی۔۔۔مگر ڈاکٹر کمار نے شادی نہیں کی تھی۔۔۔سب رشتے دار اور محلے دار اس کی خاموش اور پاک محبت سے آگاہ تھے۔۔۔ڈاکٹر کمار کا یہ کہنا تھا۔۔۔"میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ گلابو میری نظروں کے سامنے ہے۔"
جب گلابو کے خاندان نے ہجرت کا فیصلہ کیا تو اس نے درخواست کی مجھے بھی پاکستان ساتھ لے چلیں۔۔۔سب کو اس کے اس فیصلے پر حیرت ہوئی۔۔۔مگر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔۔۔ان کا بچپن اور جوانی بے داغ تھی۔۔۔
ڈاکٹر کمار ان کے ساتھ ہجرت کرکے۔۔۔لاہور آگیا۔۔۔اور گوالمنڈی کے علاقے گندہ انجن میں ایک گھر میں رہنے لگا۔۔۔
گلابو گھر کی دوسری منزل پر اپنے بیٹے بہو اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتی تھی۔۔۔پہلی منزل پر اس کی بیٹی داماد اور نواسے نواسیاں تھیں۔
ڈاکٹر کمار کے لیے کوئی کمرہ تو نہیں تھا۔۔۔مگر اس نے اپنی چارپائی برآمدے کے چھجے پر بچھا لی تھی۔۔۔جہاں بیٹھ کر وہ بازار میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھ سکتا تھا۔۔۔ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھےکہ وہ شدید بیمار ہوگیا۔۔۔اسے اپنی صحت سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ وہ مر گیا تو اس کی ارتھی کو آگ کون دکھائے گا۔
ایک دن گھر کے سب افراد کہیں گئے ہوئے تھے۔۔۔۔اس روز دیوالی بھی تھی۔۔۔اچانک گھر میں آگ بھڑک اٹھی۔۔۔۔آگ صرف چھجے کو لگی تھی جو لکڑی کا بنا ہوا تھا۔۔۔گھر والے واپس آئے تو ڈاکٹر کمار کی لاش راکھ بن چکی تھی۔