شکلوں پر تنقید کیوں؟

شکلوں پر تنقید کیوں؟
شکلوں پر تنقید کیوں؟

  

 تحریر :سائرہ حمید تشنہ(لاہور)

      شکلیں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہیں۔ ان کے بنانے میں انسانی کاوشوں کا بالکل بھی عمل دخل نہیں ہوتا لیکن اندرونی شکل( سیرت) بنانے میں خالق انسان نے اپنی مرضی  کے ساتھ ساتھ انسان کو بھی کافی اختیار دے  رکھا ہے کہ وہ اپنے باطنی خیالات کو  جس رخ چاہے موڑ سکتا ہے۔ حالات و  واقعات  کے زیر اثر خیالات کی کافی اصلاح بھی دیکھی گئی ہے لیکن ظاہری شکلیں عمر کے ساتھ ساتھ خود ہی تبدیل ہوتی رہتی ہیں جن کا انسان کے کردار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی انہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

    شکلیں خالق کل جہانوں نے بنائی ہیں  اور ان پر تنقید کرنا سخت گناہ ہے۔ رب تعالیٰ کا فرمان ہے

ترجمہ " اور ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھالا ہے"۔( القرآن)

 لیکن بد قسمتی سے انسان اللہ کی بنائی شکلوں پر نہ صرف تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے  بلکہ  بسا اوقات  (استغفرُللہ) حقارت بھری تنقید سے بھی گریز نہیں کرتا اور ایک انسان کی شکل  کا دوسرے انسانوں سے مقابلہ کرتا نہیں تھکتا۔ دوسرے  ملکوں کا تو پتہ نہیں البتہ ہمارے ملک میں تو اس کا کافی رواج ہے  مثلاً

ارے، فلاں کی ناک تو بالکل پکوڑے جیسی ہے۔۔۔۔۔۔اگر کسی کی تیکھی ہے تو طوطے کی چونچ جیسی۔۔۔۔۔۔ دیکھو دیکھو اس کا رنگ کوے کو بھی مات کر رہا ہے، "اوئے کالے".....  اگر کسی کی آنکھوں کا مسئلہ ہے تو۔۔۔۔۔۔۔بھینگا، بھینگی کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

کسی کی ٹانگ پولیو وغیرہ سے مسئلہ بن گئی اور اسے لنگڑا کر چلنا پڑتا ہے تو ۔۔۔۔اچھا، وہ لنگا، ۔۔۔۔۔۔/ساری عمر  کسی کو اس کے نام سے پکارتے رہے، لیکن کسی وجہ سے اس کی کمر پر کب یا کوب نکل آیا اور وہ جھک کر چلنے پر مجبور ہو گیا/ گئی، لیکن ہم   اس کا اصلی نام بھول کر" نئے " نام سے  پکارنے لگے،  "اوئے، کبیا"۔۔۔۔۔

کتنا اندھیر ہے۔ بے رحمی کی انتہا ہے۔ کوئی شرم و حیانہیں کہ  دوسرے کے دل پر کیا قیامت گزرتی ہو گی۔ ایک تو اچھا بھلا سیدھا چلتا انسان بوجوہ گھٹنوں کی طرف جھک گیا، دکھ تکلیف کے علاوہ  جسمانی ہئیت بدل گئی، لوگوں کے لئے تماشا بن گیا  اور اوپر سے بے رحم لوگوں نے اصل نام ہی بدل دیا اور  پھر "تماش بینوں" کے ٹھٹھے۔۔۔۔

ترجمہ " اے لوگو! کوئی مرد مردوں کی ہنسی نہ اڑائے، ممکن ہے وہ لوگ اچھے ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کی، کیا عجب کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور نہ ایک دوسرے کا   برا  نام  دھروایمان لانے کے بعد ۔ برا نام رکھنا برا ہے اور جو لوگ باز نہ آئیں تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں"۔( الحجرات 11)

 ایک اور ظلم کی انتہا کہ پرچون کی دکان پر  دو میاں  بیوی باری باری دکان داری کرتے ہیں۔  وہ مشہور کر دئے گئے، گھوڑے/ گھوڑی کو پنجابی میں کیسے کہتے ہیں، ہاں بس وہی

 "اوئے،دیکھو کوڑے دی دکان کھلی آ ؟

"کوڑی "دکان پر بیٹھی ہے.

     جب میں نے خاتون دکاندار سے پوچھا کہ لوگ آپ کا اصلی نام کیوں نہیں لیتے تو کتنے دکھ سے  اس نے کہا، 

یہ تو لوگ ہی بتا سکتے ہیں، میں کیا کہہ سکتی ہوں؟

کیا ہمارے ملک سے کبھی یہ جہالتیں  ختم ہو سکیں گی؟

    چند ایک واقعات ذہن میں آ رہے ہیں، لیجئے، آپ بھی جانیے۔۔۔۔

     دو بہنیں میرے پاس عربی پڑھنے آیا کرتی تھیں۔ ایک دن ( ان کے گھر میں کوئی تازہ تازہ بات ہوئی ہو گی)۔

آتے ہی مجھے دیکھ کر  بڑی بچی خوشی خوشی ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی تو  چھوٹی کو بھی مجبوراً کھڑا ہونا پڑا۔ سلام کے بعد وہی بڑی لڑکی بڑا چہک کر بولی

     "باجی، ساڈے دوناں چوں  زیادہ سونا کیڑا  یا"؟

( باجی، ہم دونوں میں سے زیادہ پیارا کون ہے؟)

 دونوں کھڑی ہیں اور اس کی بات سن کر میں سوچوں میں گم ہو گئی کہ ان کے خاندان میں بھی ہمارے خاندان کی طرح  ضرور شکلوں پر تبصرے ہوتے ہوں گے۔ آہ، بیچارے بچے! جواب کے لئے جو  بے چین  تھی، اس کی ناک پتلی لیکن آنکھیں قدرے چھوٹی تھیں جبکہ دوسری کی ناک  ذرا  پھیلی ہوئی لیکن آنکھیں  نسبتاً بڑی تھیں۔ اب میں سوچوں میں گم کہ اگر بڑی کو خوبصورت کہوں تو چھوٹی مزید احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گی اور اگر چھوٹی کو پیاری کہوں تو بڑی کی توہین ہو گی جو پہلے ہی بڑی تیز  ہے اور بہن سے لڑنے کو ہر وقت تیار رہتی ہے اب اور اس کے خلاف ہو جائے گی۔ رنگ دونوں کے گورے کہہ سکتے ہیں۔

    "باجی، بتائیں نا"۔

   بڑی، سراپا اشتیاق بنی کھڑی تھی جبکہ چھوٹی خاموش تھی۔ آخر میں نے بڑے نپے تلے انداز میں کہنا شروع کیا۔

   "دیکھو، شکلیں تو اللہ میاں کی بنائی ہوتی ہیں، ان پر تنقید نہیں کرنی چاہئے"۔

   "نہیں باجی، پھر بھی آپ بتائیں"۔ 

پہلی نے اصرار کیا تو مجھے کہنا پڑا ایک کا غرور توڑنے اور دوسری کو احساسِ کمتری سے  نکالنے کے لئے۔ معلوم نہیں  کس کس نے بڑی بچی کے ناک کی تعریفیں کر کر کے   اسے "حسینۂ عالم"  بنا دیا  تھا اور کس کس نے چھوٹی کو احساسِ کمتری کی دنیا میں پہنچایا تھا۔ بہر حال، دونوں کو ان کی تباہ کرنے والی  دنیاؤں سے نکالنے کی کوشش کی۔

   "بھئی، بات یہ ہے کہ   پیارے اللہ میاں نے بڑی بیٹی کی ناک دوسری سے ذرا پتلی لیکن آنکھیں چھوٹی  بنا دی ہیں جبکہ چھوٹی بیٹی کی ناک ذرا پھیلی ہوئی ہے  لیکن آنکھیں تم سے ذرا بڑی ہیں۔ اللہ پاک نے بالکل صحیح حساب رکھا ہے"۔

  میں دیکھ رہی تھی کہ بڑی کی پر شوق آنکھیں ایک دم  بجھ سی گئی ہیں جبکہ چھوٹی کی آنکھوں اور چہرے پر طمانیت پھیل گئی۔ بظاہر تو  بات یہاں ختم ہو جاتی ہے لیکن کسی کو احساسِ برتری اور کسی کو احساسِ کمتری میں دھکیلنے کا نتیجہ کچھ عرصے بعد دیکھنے کو ملا۔ 

چند سال بعد بڑی کی شادی اسی محلے میں رہنے والے عزیزوں میں ہو گئی جو کہ خاصے گہرے رنگ کا تھا۔ لیکن تھوڑے ہی ماہ  بعد مشہوری ہو گئی کہ  بڑی نے شوہر کو کچھ دودھ میں ملا کر دے دیا ہے اور وہ آئی سی یو میں ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی خبریں ملنے لگیں کہ بڑی کے فلاں لڑکے کے ساتھ "تعلقات" تھے. گھر کی بہؤوں کو پتہ بھی چل گیا تھا کہ کوئی آدھی رات کو  باہر کی چھوٹی دیوار پھلانگ کر جاتا ہے لیکن وہ  خاموش رہیں کہ ان کی اتنی بڑی بات کو تسلیم تو کسی نے کرنا نہیں الٹا ان کی شامت آ سکتی ہے۔ لیکن بات  سچ نکلی تھی،  اللہ اللہ کر کے  شوہر کو ماں باپ کی دعاؤں سے نئی زندگی ملی اور  پھر اس نے بیوی کو طلاق دے دی۔

    حیران ہوں کہ ہم اللہ کے قانون کو کیوں ہاتھ میں لیتے ہیں۔ صورت بنانا  اللہ کا کام ہے۔   اور سیرت بنانے میں  انسان کی کوششوں کو بہت زیادہ دخل ہے ۔ 

   قارئین کرام، اولاد کی سیرت پر توجہ دیجئے، وہ  پڑھیں یا نہ پڑھیں، انہیں با کردار بنائیے جس کی دنیا و آخرت میں  پوچھ گچھ  ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ 

نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں  

مزید :

بلاگ -