دوزخ میں گنہگارعورتوں کوان کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے( مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر )

دوزخ میں گنہگارعورتوں کوان کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے( ...
 دوزخ میں گنہگارعورتوں کوان کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے( مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر )

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم دادکے خواہاں ہیں نہ انصاف کے طالب۔ کچھ تواس اندیشے سے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ جن سے خستگی کی داد پانے کی توقع ہے وہ ہم سے زیادہ خستہ تیغ ستم نکلیں۔ اورکچھ اس ڈرسے کہ، 
ہم الزام ان کودیتے تھے قصوراپنانکل آیا 
مقصد سردست ان خانساماؤں کاتعارف کرانا ہے جن کی دامے درمے خدمت کرنے کاشرف ہمیں حاصل ہوچکاہے۔ اگرہمارے لہجے میں کہیں تلخی کی جھلک آئے تواسے تلخی کام ودہن پرمحمول کرتے ہوئے، خانساماؤں کو معاف فرمائیں۔ 
خانساماں سے عہد وفا استوارکرنے اوراسے ہمیشہ کے لیے اپناغلام بنانے کا ڈھنگ کوئی مرزاعبدالودود بیگ سے سیکھے۔ یوں توان کی صورت ہی ایسی ہے کہ ہرکس وناکس کابے اختیارنصیحت کرنے کوجی چاہتاہے لیکن ایک دن ہم نے دیکھا کہ ان کا دیرینہ باورچی بھی ان سے ابے تبے کرکے باتیں کررہاہے۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی، کیوںکہ شرفا ءمیں اندازگفتگو محض مخلص دوستوں کی ساتھ رواہے۔ جہلاءسے ہمیشہ سنجیدہ گفتگوکی جاتی ہے۔ ہم نے مرزاکی توجہ اس امرکی طرف دلائی توانھوں نے جواب دیاکہ میں نے جان بوجھ کراس کواتنا منہ زوراوربدتمیزکردیا ہے کہ اب میرے گھرکے سوا اس کی کہیں اورگزرنہیں ہوسکتی۔ 
کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آنکلا اورآتے ہی ہمارا نام اورپیشہ پوچھا۔ پھرسابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیزیہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہرمدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آوازسے ہمارے اعصاب اوراخلاق پرکیا اثرمرتب ہوتاہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگرآپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑپرجائیں گے توپہلے”عوضی مالک“ پیش کرناپڑے گا۔ 
کافی ردوکد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کررہے ہیں جوہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اورکام کے اوقات کا سوال آیا توہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح 5بجے سے رات کے 10 بجے تک گھرکے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔ کہنے لگے، ”صاحب! ان کی بات چھوڑئیے۔ وہ گھرکی مالک ہیں۔ میں تونوکرہوں!“ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کردی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑونہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میزنہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔ 
ہم نے گھبراکرپوچھا، ”پھرکیاکروگے؟“ 
”یہ توآپ بتائیے۔ کام آپ کولیناہے۔ میں توتابع دارہوں۔“ 
جب سب باتیں حسب منشاءضرورت (ضرورت ہماری، منشا ان کی) طے ہو گئیں توہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا سلف لانے کے لیے فی الحال کوئی علیٰحدہ نوکرنہیں ہے۔ اس لیے کچھ دن تمیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کرلو۔ 
فرمایا، ”جناب! تنخواہ کی فکرنہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔“ 
”پھربھی؟“ 
کہنے لگے، ”75روپے ماہوارہوگی۔لیکن اگرسودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو 40 روپے ہوگی!“ 
ان کے بعد ایک ڈھنگ کاخانساماں آیا مگربے حد دماغ دارمعلوم ہوتا تھا۔ ہم نے اس کا پانی اتارنے کی غرض سے پوچھا، ”مغلئی اورانگریزی کھانے آتے ہیں؟“ 
”ہرقسم کا کھانا پکا سکتا ہوں۔ حضورکا کس علاقے سے تعلق تھا؟“ 
ہم نے صحیح صحیح بتادیا۔ جھوم ہی توگئے۔ کہنے لگے، ”میں بھی ایک سال ادھرکاٹ چکاہوں۔ وہاں کے باجرے کی کھچڑی کی تودوردوردھوم ہے۔“ 
مزیدجرح کی ہم میں تاب نہ تھی۔ لہٰذا انھوں نے اپنے آپ کوہمارے ہاں ملازم رکھ لیا۔ دوسرے دن پڈنگ بناتے ہوئے انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ میں نے 12 سال انگریزوں کی جوتیاں سیدھی کی ہیں، اس لیے بیٹھ کرچولہا نہیں جھونکوں گا۔ مجبورا ًکھڑے ہوکرپکانے کا چولہا بنوایا۔ 
ان کے بعدجوخانساماں آیا، اس نے کہا کہ میں چپاتیاں بیٹھ کرپکاو¿ں گا۔ مگربرادے کی انگیٹھی پر۔ چنانچہ لوہے کی انگیٹھی بنوائی۔ تیسرے کے لیے چکنی مٹی کا چولھا بنوانا پڑا۔ چوتھے کے مطالبے پرمٹی کے تیل سے جلنے والاچولھاخریدا۔ اورپانچواں خانساماں اتنے سارے چولھے دیکھ کرہی بھاگ گیا۔ 
اس ظالم کانام یاد نہیں آرہا۔ البتہ صورت اورخدوخال اب تک یادہیں۔ ابتدائے ملازمت سے ہم دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ کا پکاہوا کھانا نہیں کھاتا، بلکہ پابندی سے ملاگری ہوٹل میں اکڑوں بیٹھ کر2پیسے کی چٹ پٹی دال اور1 آنے کی تنوری روٹی کھاتاہے۔ آخرایک دن ہم سے نہ رہاگیا اور ہم نے ذرا سختی سے ٹوکا کہ، ”گھرکاکھاناکیوں نہیں کھاتے؟“ 
تنک کربولا، ”صاحب! ہاتھ بیچاہے، زبان نہیں بیچی!“ 
اس نے نہایت مختصرمگرغیرمبہم الفاظ میں یہ واضح کردیا کہ اگراسے اپنے ہاتھ کا پکا کھانا کھانے پرمجبورکیا گیا تووہ فورا استعفیٰ دے دے گا۔ اس کے رویے سے ہمیں بھی شبہ ہونے لگا کہ وہ واقعی خراب کھانا پکاتاہے۔ نیزہم اس منطقی نتیجے پرپہنچے کہ دوزخ میں گنہگارعورتوں کوان کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے۔ اسی طرح ریڈیووالوں کوفرشتے آتشیں گرز مارمار کر بار بار ان ہی کے نشرکیے ہوئے پروگراموں کے ریکارڈ سنائیں گے۔ (جاری ہے )

نوٹ :مشتاق احمد یوسفی کے مضمون "جنونِ لطیفہ " سے اقتباس