سیکنڈ ائیر تک یہی عادت رہی گھر سے سکول یا کالج ،شام کو گھر سے گراؤنڈ اور گراؤنڈ سے مکمل گراؤنڈ، گرمیوں کی چھٹیوں کا ابا جی پروگرام بنا کردیتے 

سیکنڈ ائیر تک یہی عادت رہی گھر سے سکول یا کالج ،شام کو گھر سے گراؤنڈ اور ...
سیکنڈ ائیر تک یہی عادت رہی گھر سے سکول یا کالج ،شام کو گھر سے گراؤنڈ اور گراؤنڈ سے مکمل گراؤنڈ، گرمیوں کی چھٹیوں کا ابا جی پروگرام بنا کردیتے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:75
مغرب کے بعد گراؤنڈ؛
مغرب کی اذان کے بعد گھر سے باہر رہنے یا جانے کی اجازت ہر گز نہ تھی۔ مجھے یاد ہے ایک روز مجھے بی بلاک مارکیٹ سے کچھ سودا لینے جانا پڑا، سوچا خرم کو بھی ساتھ لیتا جاتا ہوں۔ اس کے گھر گیا تو اس کے نانا جو اوکاڑہ کسی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے) اسے پڑھا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے”خرم گھر پر نہیں ہے۔“ میں شرمندہ ہو کر چلا گیا۔ اس دور میں نہ بزرگوں کی بات کا کوئی برا مناتا تھا اور نہ کسی کے گھر کوئی بچہ مغرب کی اذان کے بعد جاتا تھا۔ اذان کے بعد آنے پر سخت سزا ملتی لہٰذا اس کی خلاف ورزی ہوتی ہی نہیں تھی۔ ایک بار کچھ دیر ہو گئی تو ابا جی انتظار میں ہی بیٹھے تھے۔ کہنے لگے؛”کہاں سے آ رہے ہو۔“ جواب دیا وہ خرم اور سیلم کے ساتھ گپ لگا رہا تھا۔“ غصے سے بولے؛”تو جاؤ ان کے گھر ہی رہو۔“ امی جی کی مداخلت سے ہی جان چھوٹی تھی۔سیکنڈ ائیر تک یہی عادت رہی کہ گھر سے سکول یا کالج اور وہاں سے سیدھے گھر۔ شام کو گھر سے گراؤنڈ اور گراؤنڈ سے مکمل گراؤنڈ۔ گرمیوں کی چھٹیوں کا بھی ابا جی پروگرام بنا کردیتے اور اس شیڈول کی حکم عدولی پر سزا ملتی جو شام کے کھیل پر پابندی کی صورت ہوتی اور مجھے تو یہ بہت ناگوار گزرتی تھی۔ گرمی کی دوپہر سونے کا وقت ہوتا اور کبھی دوپہر کو باہر نکلنے کا پروگرام ہوتا تو دوست گھر کے باہر لگے کھمبے پر پتھر مارتے یہ اشارہ ہوتا کہ باہر انتظار ہو رہا ہے۔ داؤ لگا کر باہر آ جاتا اور کم کم ہی پکڑائی ہوتی تھی۔ بعد میں امی جی کو اس اشارے کا پتہ چل گیا تو مجھ سمیت سبھی کا باہر نکلنا بند ہو گیا کہ امی جی کی ڈانٹ سے سبھی کی جان جاتی تھی۔گرمی کی شام ”شکر اور ستو“ کا شربت پئے بغیر امی جی گھر سے نکلنے نہیں دیتی تھیں کہ گرمی سے بچنے کا یہ اکسیر نسخہ سمجھا جاتا تھا۔   
محرم کا بھائی چارہ؛   
 محرم کا مہینہ ادب و احترام والا اور اپنے ساتھ عجیب سی اداسی بھی لاتا ہے۔ کر بلا کے شہداء کی یاد میں مسلمان اداس نظر آ تے اور یہ سلسلہ شام غریباں تک جاری رہتا ہے۔مولانا طالب جوہری اور رشید جان کے شام غریباں کی مجلس اور سلام آ خر کا انتظار ہو تا تھا۔محلوں میں پانی کی سبیلیں لگائی جاتی تھیں اور نیاز تقسیم کی جاتی۔ مرد و زن قبرستان کا رخ کرتے اور اپنے پیاروں کی قبروں کو نئی مٹی کا لیپ کرتے، پھول چڑھاتے، اگر بتیاں سلگھاتے اور قبرستان کی خاموش فضاء کو اگر بتی اور لوبان کی کی خوشبو سے رچا دیتے۔ ٹھلیوں کوپانی اور دال مسور سے بھر جاتے قبروں پر تازہ گلاب کی پتیاں بکھیر جاتے تھے۔ آج بھی سب پرانے جیسا ہی ہے۔ 
 سارے ماڈل ٹاؤن میں ہی نہیں پورے ملک میں محرم کا بھائی چارہ عروج پر نظر آتا تھا۔ دسویں محرم کو ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن سے ذوالجناح کا جلوس برآمد ہوتا اور ماڈل ٹاؤن کا چکر لگا کر ای بلاک میں ختم ہوتا تھا۔ جلوس تقریباً دن 11بجے میرے گھر کے قریب پہنچتا تو ہم سب دوست اس کے ساتھ سی بلاک تک جاتے۔بی بلاک مارکیٹ میں ماتم اور زور دار زنجیر زنی ہوتی۔ ہم بھی جلوس کے ساتھ چلتے اور یہ سب دیکھتے۔ راستے میں پانی اور شربت کی سبیلیں ہوتی تھیں۔بی بلاک مارکیٹ میں رش کی وجہ سے پیر رکھنے کی جگہ نہ ملتی تھی۔ اب تو راستے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ غیر متعلقہ افرد جلوس میں شامل تو کیا جلوس کے راستے کے قریب بھی پھٹک نہیں سکتے ہیں۔اب تو پورا ماڈل ٹاؤن ہی 2 دن سیل رہتا ہے۔ نہ جانے پرانا بھائی چارہ وقت کی رفتار میں کہاں گم ہو گیا ہے۔ نہ جانے کس دشمن کی کی نظر لگی ہے۔
( جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -