قاضی حسین احمد: اِک ولولہءتاز ہ دیا جس نے دلوں کو

قاضی حسین احمد: اِک ولولہءتاز ہ دیا جس نے دلوں کو
قاضی حسین احمد: اِک ولولہءتاز ہ دیا جس نے دلوں کو

  

قاضی حسےن احمد جب تک زندہ رہے، خوب متحرک اور فعال رہے۔ عالم گواہ ہے کہ اُن کی بے قراری کو صرف اُس وقت قرارآےاجب وہ اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوگئے، جب تک اُن کا بےمار دل دھڑکتا رہااور اُن کے جسمِ خاکی کی شرےانوں مےں خون دوڑتا رہا ، وہ حاضر و موجود سے بےزار رہے ۔اےک اخبار نے اُن کے انتقال کی خبر کے ساتھ کےا خوب شعر شائع کےا ہے جو اُن کی شخصےت کا آئےنہ دار ہے:

مَیں ایک دل ہوں ، رُکوں گا تو مر ہی جاﺅں گا

مجھے سکون نہ دے ، بے قرار رہنے دے

آخر اُن کی بے چےن رُوح کو قرار آ ہی گےا۔ سبھی جانتے ہےں کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کی اِننگ بہت بھر پور طرےقے سے کھےلی۔ جب وہ جماعت اسلامی کی سےکرٹری شپ اور امارت کی ذمہ دارےو ں پر فائز ہوئے، ملکی سےاست کے اُفق پر ہمےشہ محسوس کئے جاتے رہے۔امارت سے فراغت کو اُنہوں نے اپنے مقصد سے فراغت نہ سمجھا۔ کسی بےماری کو اپنے راہ کی دےوار نہ بننے دےا۔ کبھی وہ پاکستانی اسٹےبلشمنٹ کے دلِ ےزداں مےں کانٹے کی طرح کھٹکے، کبھی اُن سے اپنے خفاءرہے، کبھی بےگانے بھی ناخوش ہوئے، لےکن اُنہوں نے جس کوزہر ہلاہل سمجھ لےا، اُسے کبھی قند کہنے کا جُرم نہ کےا۔ حالات اور وقت کے جبر کی وجہ سے اُن کو کئی بارو قتی ناکامےوں کا سامنا بھی کرنا پڑا،لےکن اُن کا عزم پختہ رہا۔

شےخوپورہ مےں جب اُن کو پہلی بار سننے کا موقع ملا تو وہ اپنے کارکنوں کو دنےا کی آلائشوں سے دُور رہنے کی تلقےن کر رہے تھے۔ ےہ وہ زمانہ تھا جب اُن کی جماعت اسلامی جنرل ضےاءالحق کی حکومت مےں وزارتےں سنبھالے ہوئے تھی۔ غالباََ بشری تقاضوں ےا کمزورےوںکے پےشِ نظر اُن کے کچھ کارکن بہتی گنگا سے ہاتھ دھو لےنے کا سوچ رہے تھے، قاضی حسےن احمد اُن کی اےسی سوچوں کو ہی روک دےنا چاہتے تھے۔ اُس وقت سے لے کر دمِ آخر تک اُنہوں نے خود کو بھی سادگی کا اعلیٰ نمونہ بنا ئے رکھا۔ منصورہ مےں اُن کا دو کمروں کا رہائشی فلےٹ اور بطور امےر جماعتِ اسلامی سخت گرمےوں مےں ائےر کنڈےشنڈ سے محروم دفتر اُن کے فقر و غنا اور سخت کوشی کی مُنہ بولتی تصوےرتھا۔ علامہ اقبال ؒکے اشعار اُنہوں نے اپنی تقاریر مےں اِس طرح سموئے اور پروئے کہ اُن اشعار کے نئے معانی سمجھ مےں آنا شروع ہوئے۔

وہ اپنی جماعت کے جب تک امےر رہے، اہلِ اےمان کے سردار کی طرح صورت ِ خورشےد جےتے رہے، اُدھر ڈوبے ،اِدھر نکلے اور ےہ بھی اُمےد ہے کہ محشر مےں بھی اُن کا جنوں فارغ نہےں بےٹھے گا۔ مولانا سےّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ اور علّامہ اقبال ؒ کووہ اپنا فکری اور رُوحانی مُرشد مانتے تھے۔ مولانا مودودی ؒکے ”آئندہ سےاسی لائحہ عمل“کو عملی طور پر ثابت کرنے کے لئے اُنہوں نے اپنی جان کھپا دی۔ لاہور کے سرحدی علاقوں کر باٹھ وغےرہ مےں وہ الےکشن لڑ رہے ہوں، ےا اسلام آباد کا دھرنا ہو، وہ آنسو گےس اور لاٹھی چارج کا خود سامنا کرتے رہے، قےدو بند کی صعوبتےں برداشت کرتے رہے۔ اپنے مو¿قف پر ڈٹے رہے ،اپنے قدموں مےں لڑکھڑاہٹ ےا لغزش پےدا نہےں ہونے دی ۔ کمٹمنٹ اور وابستگی کی اس سے بڑی مثال اور کےا ہو گی کہ دورِ طالب علمی مےں جس نظرےے سے وابستہ ہوئے ،تا دمِ آخر اُسی سے وابستہ رہے۔ اُن کی منزل اےک ہی رہی، سےدھی راہ چلتے رہے، ہاں اپنی منزل کو پانے کے لئے راستے ضرور بدلتے رہے۔ عام لوگوں مےں رہنے ، اُن کے مسائل و تکالےف جاننے اور اُن کے حق مےں آواز اٹھانے کا بہت وافر جذبہ اُن مےں موجود تھا۔ اپنی جماعت کو بھی وہ مخصوص خول سے نکال کر عوام مےں لانے کی کوشش کرتے رہے،اِسی لئے کسی خفےہ سازش ےا گورےلاجنگ کی بجائے رائے عامہ کی طاقت کا سہارا لےتے رہے۔ ووٹ کے ذرےعے تبدےلی لانے پر ےقےن رکھتے تھے، اِس لئے قومی اسمبلی اور سےنٹ کا الےکشن لڑ کر منتخب ہوتے رہے ،جمہورےت پر ےقےن کامل رکھتے تھے، تبھی نگران وزےر اعظم کے لئے کچھ حلقوں کی جانب سے نامزدگی کو ٹھکرا دےا کہ منتخب اسمبلی سے ہی اےسا کوئی عہدہ پانے پر ےقےن رکھتے تھے۔ کوئی شارٹ کٹ راستہ اختےار نہ کےا۔

اےک پرائےوےٹ ٹی وی چےنل کوغالباََ آخری انٹروےو دےتے ہوئے بھی اُنہوں نے کہا کہ مَےں ملک کے تمام مسائل کا حل اب بھی صاف شفاف اور غےر جانبدارانہ الےکشن مےں سمجھتا ہوں، آئندہ بھی الےکشن لڑنا چاہتے ہےں۔ چونکہ اُنہوں نے الےکشن مےںدندھالی کی مختلف اقسام کو قرےب سے دےکھا تھا ،لہٰذا اِس حوالے سے وہ ہمےشہ شاکی اور معترض رہے۔ نادےدہ ہاتھوں کی پاکستان کے نظام پر گہری گرفت پر وہ کبھی اعلانےہ اور کبھی دبے لفظوں مےں تنقےد ضرور کرتے رہے۔ شدےد سےاسی اختلافات کے باوجود اُنہوں نے ذاتی طور پر ہر شخص سے اپنا تعلق اور رابطہ ضرور قائم رکھا۔ گفتگو اور مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہ کےا۔ ِاِسی طرح ملک مےں موجود تمام مذہبی مسالک کو اتحاد اور اتفاق کی لڑی مےں پرونے کے لئے بھی انہوں نے بہت محنت کی اور بہت قربانےاں دےں۔ بےرونی ممالک مےں بھی وہ نےل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر تمام مسلمانوں کو حرم کی پاسبانی کے لئے متحد کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ افغانستان سے لے کر مصر، سوڈان ، سعودی عرب اور تمام اسلامی ممالک مےں قاضی حسےن احمد کا گہرا اثرونفوذ تھا۔

اُن کے لبوں اور چہرے پر ہمےشہ تبسم رہتا۔ شدےد علالت کے باوجود اُن کا چہرہ تروتازہ نظر آتا۔ اپنے آخری اےّام مےں بھی وہ قبائلی علاقوں مےں جلسہ کرتے اور پھر اپنے دےرےنہ رفےق پروفےسر غفور احمدؒ مرحوم کے جنازے کو کندھا دےتے نظر آئے۔ اِس لئے ہزاروں سوگوار اور سبھی سےاسی جماعتوں کے رہنما شدےد سردی کے باوجود اُن کو کندھا دےنے کے لئے پہنچے۔ مبےنہ طالبان کے ہاتھوں اپنے اُوپر ہونے والے حالےہ خودکش حملے کے بعد جس عزم اور حوصلے کا ثبوت اُنہوں نے دےا، وہ مثالی تھا، تاہم اِس حملے نے اُن جےسے حساس آدمی کو اندرونی طور پر توڑ پھوڑ کا شکار کر دےا تھا، غالباََ ےہی وہ ناگہاں صدمہ تھا جو ہم سے قاضی حسےن احمد جےسے عالم ِ اسلام کے حقےقی رہنما کو چھےن کے لے گےا۔اِس کے ساتھ ہی پاکستانی سےاست مےں اےک تہذےب ، شائستگی، تحمل، بُردباری اور وسےع القلبی کا اےک باب بند ہو گےا۔ خدا اُن کی قبر کو نُور سے بھر دے (آمےن)

مزید :

کالم -