ہٹ دھرم پڑوسی

ہٹ دھرم پڑوسی
ہٹ دھرم پڑوسی
کیپشن: YOUSAF ALAMGIR

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دنیا کو اپنے سیکولرازم کی پٹی پڑھانے والا بھارت عالمی ثالثی عدالت کے سامنے اس وقت ڈٹ گیا،جب اس نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو کشن گنگا ڈیم کے ایڈونچر سے باز رہنے کا فیصلہ سنا دیا۔ بھارت نے موقف اختیار کیا ہے کہ اسے اس منصوبے پر تعمیری کام جاری رکھنے کا پورا پورا حق ہے۔ساتھ ہی بھارت نے عالمی ثالثی عدالت کے اس فیصلے کہ کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیل کرنے کو بھی تسلیم کرنے سے صریحاً انکار کردیا ہے۔بھارتی حکام کایہ کہنا ہے کہ پاکستان کا کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے موقف درست نہیں ہے۔بھارت نے جس انداز سے عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا، وہ اس کے ان عزائم اور ہٹ دھرمی کی نشاندہی کرتے ہیں، جن کا اعادہ بھارت کی جانب سے عرصہ دراز سے کیا جاتا رہا ہے۔
مسئلہ کشمیر جسے 1948ءمیں بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو خود اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے،لیکن جب اس حوالے سے اقوام متحدہ نے قراردادیں پاس کردیں تو خود بھارتی وزیراعظم لیت و لعل سے کام لینے لگے اور آج کئی برس گزرجانے کے بعد بھی بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اُلٹا بھارت نے اپنی آٹھ لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں داخل کر رکھی ہے، جو کشمیری مسلمان عورتوں اور مردوں پر ظلم و ستم کے ایسے باب رقم کررہی ہے، جن کے زخم آئندہ آنے والی کئی نسلیں بھی محسوس کرتی رہیں گی۔بھارت کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔سیاچن کا محاز جو کبھی امن کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا، بھارت کے ایڈونچر ازم کی بناءپر گزشتہ کئی دہائیوں سے آگ اور خون کی وادی میں تبدیل ہو چکا ہے اور دونوں جانب کی افواج کے بیسیوں اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
انہی حالات کا ادراک کرتے ہوئے سانحہ گیاری کے فوری بعد پاک فوج کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دونوں ممالک کی افواج کو سیاچن سے ہٹانے کی پیشکش کی تھی اور افواج پر خرچ ہونے والے وسائل کو ان ممالک کے غریب عوام پر خرچ کرنے کا مشورہ دیا تھا، جس کو بھارتی سیاسی قیادت نے تو کسی حد تک شاید پذیرائی بخشی، لیکن بھارتی فوج کی جانب سے اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا گیا،جس سے واضح ہوتا ہے کہ خطے میں امن کی کاوش کوئی بھی کیوں کامیاب نہیں ہو پاتی....بھارت نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں الجھا ہوا دیکھ کر اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔اس نے صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں جس طرح سے تخریب کار اور دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی کرکے اپنی خفت مٹائی ہے،اس پر حکومت پاکستان بھی متعدد بارنشاندہی کرچکی ہے۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تو شرم الشیخ میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے صوبہ بلوچستان میں ”ہتھ ہولا“ رکھنے کی استدعا کی تھی، جس پر من موہن سنگھ نے غور کرنے کا عندیہ دیا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ بھارت کے اپوزیشن رہنماﺅں نے من موہن سنگھ کی جانب سے غور کرنے کی حامی بھرنے پر ان کے خوب لَتے لئے کہ انہیں شرم الشیخ میں یہ سب تسلیم کرنے کی ضرورت کیا تھی۔آنجہانی اندرا گاندھی کے دور میں ایک بھارتی صدر ہوا کرتے تھے، جن کا نام گیانی ذیل سنگھ تھا،جب وہ صدارتی مہم چلا رہے تھے تو میڈیا نے پوچھا کہ کیا آپ صدر بن جائیں گے تو اس پر ذیل سنگھ نے معصومیت سے کہا جی بالکل ، کیونکہ ”اندراجی“ نے مجھے اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔گویا ذیل سنگھ ہوں یا من موہن سنگھ، اپنے اندر کا سچ چھپانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پاتے، لیکن کانگریس کی ”ہائی جینٹری“ میں پھنسے ہوئے ہونے کی وجہ سے ذرا ڈپلومیٹک رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔من موہن سنگھ آج بھی بھارت کے وزیراعظم ہیں، وہ اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اپنی پارٹی کو اس امر پر تو آمادہ کر سکتے ہیں کہ اگر کبھی کوئی عالمی عدالت غلطی سے کوئی صحیح فیصلہ صادر کر ہی دے تو کم از کم اس کی تو پاسداری کی جانی چاہیے۔ ٭

مزید :

کالم -