غداری کیس کا چلتا رہنا اور مصلحت کا تقاضا

غداری کیس کا چلتا رہنا اور مصلحت کا تقاضا
غداری کیس کا چلتا رہنا اور مصلحت کا تقاضا
کیپشن: CH GHULAM HUSSAIN ADIL

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پرویز مشرف پر غداری کیس چلتا رہنا چاہئے یا نہیں؟ میری رائے میں اس مسئلے کا فیصلہ مصلحت بینی کی بنا پر ہونا چاہئے، یعنی اس کے چلتے رہنے کے فوائد و نقصانات اور نہ چلتے رہنے کے فوائد و نقصانات کے توازن کی بنا پر ہونا چاہئے۔ عدالت تو اپنا فیصلہ کرتے وقت صرف قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔ اس کو فیصلہ کرنا پڑے، تو وہ مصلحت نہیں دیکھ سکتی، کیونکہ عرصہ ¿ قدیم سے چلے آ رہے، اصول کے مطابق ”انصاف اندھا ہوتا ہے“ اور قانون کسی کا لحاظ نہیں کرتا، خواہ وہ سیزر(قیصر ِ روم) کی بیوی ہی کیوں نہ ہو۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انصاف ہونا چاہئے ،خواہ آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے، لیکن حکومت اپنا کردار ادا کرتے وقت، یعنی اپنی قانونی صوابدید استعمال کرتے وقت مصلحت بینی اور دور اندیشی سے کام لے سکتی ہے اور اسے لازماً ان سے کام لینا چاہئے، میری اس رائے کی تائید نیچے لکھی ہوئی باتوں سے ہوتی ہے....متعلقہ قانون کے اپنے اندر یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ سنگین غداری کا مقدمہ بنانا یا نہ بنانا وفاقی حکومت کی صوابدید پرمنحصر ہے۔ وہ چاہے تو مقدمہ بنائے اور اس کے لئے پراسیکیوٹر مقرر کرے اور نہ چاہے تو مقدمے کی داغ بیل ڈالے ہی نہ۔ ظاہر ہے کہ حکومت ایسی صوابدید استعمال کرنے سے پہلے مصلحت بینی اور دور اندیشی سے کام لے گی۔
1973ءکی آئین سازی کرنے اور اس میں غداری سے متعلق آرٹیکل 6شامل کرنے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ اس آرٹیکل کے خوف کی وجہ سے آئندہ کوئی طالع آزما آئین شکنی نہیں کرے گا۔ اس بیان سے آرٹیکل6کا جو بنیادی مقصد ظاہر ہوتا ہے ،وہ یہ ہے کہ طالع آزماﺅں کو آئین شکنی سے باز رکھنے کی خاطر اُن پر اس آرٹیکل کا خوف طاری رکھا جائے۔ جیسے ایٹم بم بنانے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ بیرونی حملہ آوروں کو لشکر کشی سے باز رکھنے کے لئے اُن پر ایٹم بم کا خوف طاری رکھا جاتا ہے۔ ایٹم بم چلایا بھی جا سکتا ہے اور غداری کا مقدمہ بنایا بھی جا سکتا ہے، لیکن یہ دونوں کام صرف ناگزیر حالات میں ہونے چاہئیں۔ بھٹو نے خود بھی آئین سازی کے بعد اس آرٹیکل کو صرف ڈراوے کے لئے ہی استعمال کیا۔ کسی پرانے یا نئے آئین شکن کے خلاف اس آرٹیکل کے تحت مقدمہ نہیں بنایا۔آئین بنانے والی اسمبلی کے کسی رکن نے یا کسی دیگر سیاست دان یا دانشور نے بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کسی پر ایسا مقدمہ بنایا جائے۔بھٹو کے کسی جانشین وزیراعظم (ماسوائے موجودہ وزیراعظم) نے بھی ایسا مقدمہ بنانے کا اقدام نہیں کیا، حتیٰ کہ موجودہ وزیراعظم نے بھی اپنے موجودہ دورِ حکومت سے پہلے کے عہدِ حکمرانی میں ایسے مقدمے کا نام تک نہیں لیا۔

بھٹو کے پہلے عہد ِ حکومت میں مارشل لاءاُٹھ جانے کے اگلے روز عدلیہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئندہ مارشل لاءلگنے کی روک تھام یوں ہو سکتی ہے کہ جب مارشل لاءلگانے والا بے بس ہو جائے، تو اس پر آرٹیکل6کے تحت مقدمہ بنا دیا جائے۔ یہ جملہ محض تبصرے کی صورت میں تھا، حکم کی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ دیکھنا حکومت کا کام ہی سمجھا گیا تھا کہ آیا آئین توڑنے والا شخص پورے کا پورا بے بس ہو گیا ہے یا نہیں، کیونکہ طالع آزماً اپنا ذاتی اقتدار کھو چکنے کے باوجود بھی اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کی حمایت کا حامل رہ سکتا ہے۔اس عدالتی فیصلے کا سہارا مل جانے کے بعد بھی نہ بھٹو، نہ کوئی دوسرا سیاست دان ٹس سے مس ہوا۔ اُن سب کے خاموش رہنے کی وجہ صرف مصلحت بینی ہی ہو سکتی تھی۔
اب اس طرف آتے ہیں کہ آیا آرٹیکل6کا وجود اور اس کی خلاف ورزی کی سزا مقرر ہونا اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں؟ چونکہ ان کے باوجود مارشل لاءلگتا رہا ہے، اس لئے یہ ماننا پڑتا ہے کہ ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا۔ ان کا خوف واقعی پیدا ہوا، لیکن اس کا توڑ یہ بنا لیا گیا کہ مارشل لاءاٹھانے سے پہلے عدلیہ سے اور قومی اسمبلی سے آئین شکنی کی سزا کے خلاف تحفظ حاصل کر لیا گیا۔ اگر ایسا تحفظ نہ دیا جاتا تو مارشل لاءاٹھایا ہی نہ جاتا۔ پرویز مشرف کو دگر گوں حالات نے ایسا تحفظ حاصل کرنے کا موقع دیئے بغیر اقتدار سے علیحدہ ہو جا نے پر مجبور کر دیا۔ اِس لئے اُس پر مقدمات چلنے کا سوال پیدا ہو گیا۔ اس تجربے سے طالع آزما یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ مارشل لاءمرتے دم تک نہ اٹھائیں اور اگر اٹھانا ہی پڑے تو پہلے سزا کے خلاف تحفظ حاصل کر لیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مارشل لاءطویل ہو جا نے کی صورت میں حکمران طبقے میں پھوٹ پڑ جانا لازم ہو جا تا ہے، چنانچہ کون نہیں جانتا کہ ایوب خاں سے اقتدار یحییٰ خاں کو منتقل ہو جانے میں یحییٰ خاں کا ہاتھ بھی شامل تھا ،پھر یحییٰ خاں سے اقتدار بھٹو کو منتقل ہو جانے میں جنرل گل حسن اور ائر مارشل اے آر خاں کا ہاتھ تھا۔ ضیاءالحق کا انجام بھی غور طلب ہے۔
ویسے بھی تاریخی تجربہ یہ ہے کہ سزا کا خوف عارضی ہوتا ہے۔ ضیاءالحق نے پپو نامی بچے کے اغوا کنندہ کو سرعام پھانسی کی سزا دی تھی، لیکن اس کے باوجود اغوا کے کیس گھٹنے کی بجائے بڑھے ہیں۔ جب لوگوں کے سامنے مجرموں کو کوڑے مارے گئے تو لوگوں کو مجرموں سے ہمدردی ہو گئی۔ ماضی میں انگلستان میں70 جرائم کی سزا موت مقرر کی تھی اور سزا سر ِعام دی جا تی تھی۔ ان جرائم میں ایک پونڈ مالیت کے مال کی چوری بھی شامل تھی۔ اس کے باوجود موت کا منظر دیکھنے والوں کی اپنی جیبیں موقع پر کٹ جاتی تھیں۔ سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ڈرائیور اچانک دیکھتے ہیں کہ کوئی دوسری گاڑی تیز رفتاری کی وجہ سے الٹی ہوئی ہے اور پاس لاشیں بھی پڑی ہیں۔ دیکھنے و الے ڈرائیور کانوں کو ہاتھ لگا کر کچھ دور تک رفتار سست رکھتے ہیں ،پھر پہلے کی طرح تیز رفتار ہو جاتے ہیں۔
جرم کے ارتکاب سے ڈرنے اور اس کی سزا سے خوف کھانے کا انحصار لوگوں کی اپنی اپنی طبیعت پر بھی ہوتا ہے۔ سابق چیف جسٹس پاکستان انوار الحق نے ضیاءالحق کی آئین شکنی کو جائز قرار دینے کے وقت، بلکہ اپنے ریٹائر ہو جانے کے بعد تک بھی یہ پڑھنا گوارا نہیں کیا تھا کہ آرٹیکل6 کی خلاف ورزی کی سزا مقرر ہے یا نہیں۔ دوسری طرف مَیں نے غیر آئینی حلف اٹھانے یا نہ اٹھانے کا موقع آنے سے پہلے ہی بوجہ خوف اس قانون کا مکمل جائزہ لے ر کھا تھا۔ چیف جسٹس کا بیان روزنامہ ”جنگ“ کی اشاعت مورخہ 7جون1985ءمیں چھپا کہ ایسا قانون سزا بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ دوسرے روز مَیں نے روزنامہ ”نوائے وقت“ کی اشاعت مورخہ 8جون 1985ءمیں اپنا بیان چھپوا دیا کہ ایسا قانون غداری کی سزا کا ایکٹ مجریہ 1973ءفلاں تاریخ کو بنا کر فلاں تاریخ کے (26ستمبر1973ئ) کے گزٹ میں چھپوا دیا گیا تھا ، پھر فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی اپنے فلاں تاریخ کے فیصلے میں قرار دے دیا تھا کہ یہ قانون اسلام کے منافی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مَیں نے اس قانون کا پورا متن بھی چھپوا دیا۔ اس پر چیف جسٹس نے درستی کرنے والے کا شکریہ تو اخباری نمائندوں کے سامنے ادا کر دیا، لیکن اپنے کئے پر پچھتاوا ظاہر نہیں کیا۔ مجھے اعلیٰ افسران نے کہا کہ آئین شکن کی اعانت کرنے والے لوگوں کی تعداد اتنی کثیر ہے کہ اُن پر مقدمہ بنانا ممکن نہیں ہو گا، نیز انہوں نے جنوبی امریکہ کے ایک ملک کی مثال دی، جہاں مارشل لاءاٹھایا گیا تھا، لیکن غداری کی اعانت کرنے کا مقدمہ کسی پر بھی نہیں بنا تھا۔ تاہم مَیں نے احتیاط (یا بزدلی) کی وجہ سے اپنے بیوی بچوں کے اس مشورے پر عمل کیا کہ اگر ذرا سا بھی خطرہ ہے تو سیشن ججی پر اکتفا کیا جائے اور ہائی کورٹ کا جج بن کر غیر آئینی حلف نہ اٹھایا جائے۔

 بھٹو کا عدالتی قتل کرنے والے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے بھی بے دھڑک من مرضی کر لی، لیکن جسٹس ملک سعید حسن نے بطور احتجاج ہائی کورٹ کی ججی سے استعفا دے دیا۔ بھٹو کے جیالے مارشل لاءکے کوڑے کھا کھا کر بھی اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھتے رہے اور اُن میں سے ایک (جسے مَیں نے بطور سیشن جج میانوالی وہاں کی جیل کا معائنہ کرتے ہوئے ہسپتال میں مُنہ کے بل لیٹا دیکھا تھا) ہر کوڑا پہلے سے زور سے پڑنے پر پہلے سے زیادہ زور سے حکمران کو گالیاں دیتا رہا تھا۔ ان سب کی اس طرح کی بے خوفی کی وجہ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کو سزا مل جانا بھی طالع آزماﺅں کو آئین شکنی سے باز رکھنے کے لئے ناکافی ہے۔ایسے ارتکابِ جرم کی حوصلہ شکنی صرف اجتماعی ضمیر کے جاگنے اور رائے عامہ کے مضبوط ہو جانے ہی سے ہو سکتی ہے۔ اسی حربے کے بل بوتے پر انگریزوں نے اپنے بادشاہ سے اپنی آزادیوں کا ضامن میگنا کارٹا حاصل کیا تھا اور اسی کے زور سے کرامویل (غدار) کی نعش کو قبر سے پارلیمنٹ میں لا کر مقدمہ چلایا گیا اور سزا دی گئی تھی۔
دوسرا عنصر جو ایسی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے، وہ یہ تاریخی تجربہ ہے کہ پنجاب پر سکھ حکومت کا خاتمہ سکھ فوج (خالصہ) کی سیاست میں مداخلت نے کیا تھا۔ فوج نے حکمران اور اس کے اہل ِ دربار کے ناک میں دم کیا اور انہوں نے فوج کا یہ حشر کیا کہ اسے پہلے انگریزوں سے شکست دلائی اور پھر پیچھے بھاگتی ہوئی کو دیہاتیوں سے مروایا۔ درباریوں نے نابالغ راجہ کو ساتھ لے جا کر انگریز فوج کا استقبال للیانی کے مقام پر کیا اور اپنے آپ کو اپنی فوج کے آگے بے بس ظاہر کر کے اپنے آپ کو اور پنجاب کو انگریز فوج کے سپرد کر دیا تاکہ وہ ان کی خالصہ فوج سے حفاظت کرے۔ مزید برآں سابق مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں پاک فوج اور مکنی باہنی کا باہمی مقابلہ بھی سب کے سامنے ہے۔

بحالات ِ بالا پرویز مشرف پر مقدمے کا مثبت نتیجہ نکلنا محال ہے، البتہ منفی نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ مقدمے کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکنے کی صورت میں طالع آزماﺅں کی جھجک نکل سکتی ہے اور سزا مل جانے کی صورت میں یا اس سے پہلے ہی فوج اور عوامی حکومت کے تعلقات بگڑ سکتے ہیں، نیز وہ خطرناک نتیجہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ سب متعلقین ذاتی، جماعتی اور طبقاتی مفادات کو پس ِ پشت ڈال کر اور پس ِ پردہ سر جوڑ کر کوئی ایسا حل ڈھونڈیں جو سرا سر ملکی مفاد میں ہو۔ ایسا ممکن ہے یا نہیں اور ایسا ہو گا یا نہیں؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔ سرِ دست یہ لگتا ہے کہ پرویز مشرف کے فوجی ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد سیاست دانوں نے بھی ہوا کا رُخ دیکھنا شروع کر دیا تاکہ چلیں ”وہ“ اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ ٭

مزید :

کالم -