ایک بہادر بچہ جس نے جان دے کر سینکڑوں بچوں کی جان بچائی

ایک بہادر بچہ جس نے جان دے کر سینکڑوں بچوں کی جان بچائی
ایک بہادر بچہ جس نے جان دے کر سینکڑوں بچوں کی جان بچائی
کیپشن: brave boy

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہنگو(مانیٹرنگ ڈیسک)وہ بچہ اپنے گھر سے سکول جانے کے لئے نکلا تھا لیکن راستے میں ایک مشکوک نوجوان جو سکول یونیفارم میں ملبوس تھا نے اس سے سرکاری ہائی سکول ابراہیم زئی کا پتہ دریافت کیا۔اس لڑکے کو اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا اس لئے اسے شک ہوا کہ شاید یہ کوئی دہشت گرد ہے اور اس کا شک درست نکلا جب اس نے مشکوک نوجوان کو روکنے کی کوشش کی ۔اسی وقت اس نے تخریب کار کو قابو کر لیا لیکن اس مشتبہ شخص نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا ،دھماکے میں وہ بچہ بھی شہید ہو گیا لیکن اس نے ان سینکڑوں بچوں کی جان بچا لی جن کو مارنے وہ دہشت گرد سکول جا رہا تھا۔اس بچے کا نام اعتزاز حسن تھا اور وہ ہنگو کا رہائشی تھا۔ نویں جماعت کے طالب علم اعتزاز حسن کے خاندان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اعتزاز کو تمغہ شجاعت سے نوازے۔اعتزاز حسن کے کزن مدثر بنگش ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کی صبح اعتزاز سکول جا رہا تھالیکن راستے میں سکول یونیفارم پہنے ہوئے ایک نوجوان نے اس سے سرکاری ہائی سکول ابراہیم زئی کا پتہ دریافت کیا۔’اعتزاز نے اسے کہا کہ آپ تو ہمارے سکول کے نہیں ہو، جس پر لڑکے نے کہا کہ وہ اسی سکول کا طالب علم ہے۔‘اعتزاز نے شاید یہ بھانپ لیا تھا کہ یہ کوئی تخریب کار ہے، اس کے دوستوں نے اسے خبردار کیا کہ یہ خودکش بمبار ہو سکتا ہے تم پیچھے ہٹو، لیکن اس نے انھیں کہا کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں اور میں اس کو قابو کرنے کی کوشش کرتا ہوں ورنہ یہ سکول کے اندر جا کر تباہی مچا دے گا۔سڑک پر جب 15 سالہ اعتزاز بمبار کو روکنے جا رہا تھا، اس وقت سکول میں اسمبلی جاری تھی، جس میں ایک ہزار کے قریب بچے موجود تھے۔
مدثر بنگش کے مطابق بمبار کا ٹارگٹ اسمبلی تھی لیکن اعتزاز نے اسے روک لیا ورنہ کئی اعتزازوں کے جنازے پڑے ہوئے ہوتے، اس قربانی پر بنگش قبیلے، بنگش وادی اور خیبر پختونخوا کو اس پر فخر ہے۔اعتزاز حسن کے والد ابوظہبی میں مزدوری کرتے ہیں اور ان کا اعتزاز کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔مدثر بنگش کا کہنا ہے کہ اعتزاز کے والد لوگوں کو کہتے ہیں کہ ان سے کوئی تعزیت کے لیے نہیں بلکہ ’شہادت‘ کی مبارک باد دینے آئے۔مدثر بنگش کا کہنا ہے کہ ’اگر عوام حوصلہ دکھائیں اور اعتزاز جیسے حوصلے کا مظاہرے کریں گے تبھی کچھ ہو سکے گا، ±مردوں کی طرح پڑے رہیں گے تو کچھ نہیں ہوگا۔ایڈووکیٹ مدثر بنگش کے مطابق خاندان اور علاقے کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ہائی سکول کا نام اعتزاز حسن بنگش کے نام سے منسوب کیا جائے اور اسے تمغہ شجاعت سے نوازا جائے تاہم لیکن حکومت کی جانب سے ایک بیان بھی سامنے نہیں آیا۔’اگر ہم اپنے ہیرو کی تشہیر نہیں کریں گے کہ تو ہماری نسل کو یہ پیغام کیسے جائےگا کہ ایک ہیرو کیا ہوتا ہے؟ شہادت کیا ہوتی ہے آج کا بچہ اور نوجوان کیسے پہچانے گا، یہ شناخت ہمیں دینی ہے۔‘

مزید :

ڈیلی بائیٹس -