مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت خطرے میں!
کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھارتی فوج کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوششوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں کو اس طرح کی مداخلت سے مستثنیٰ رکھا جانا چاہیے اور طالب علموں کو اپنے کیرئیر پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ بھارت جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے اور اسے دوام بخشنے کے لئے کئی محاذوں پر سرگرمِ عمل ہے۔ اس سلسلے میں جہاں طاقت کے بے تحاشا استعمال کے ذریعے کشمیریوں کا حوصلہ توڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہیں تہذیبی جارحیت کی ایک بھرپور یلغار سے اس قوم کی دینی اور اخلاقی شناخت کو مٹانے کی سعی کی جارہی ہے۔ بھارت ہماری مسلم شناخت کو مٹاکر ایک مشرکانہ تہذیب کی چھاپ لگانے کا منصوبہ مرتب کرچکا ہے۔اس وقت مودی مقبوضہ کشمیرمیں متعصب قیادت برسرِ اقتدارلانے کی مختلف النوع سازشیں پروان چڑھانے کی سرتوڑ کوششیں کررہاہے۔اس کی پوری کوشش ہے کہ جموں، لداخ اورکارگل جہاں ہندوو¿ں اور غیر مسلموں کی تعدادزیادہ ہے، غیرمسلم امیدوار اوربالعموم وادی جہاں مسلم اکثریت ہے،مسلم امیدواروں کومیدان میں لا کر سادہ اکثریت حاصل کرکے مقبوضہ کشمیرکاآئندہ وزیراعلیٰ ہندوسامنے لایا جائے تاکہ بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کے تحت کشمیرکی خصوصی حیثیت کوتبدیل کیاجاسکے۔
بھارتی حکمرانوں نے وادی کشمیرمیں اپنے فوجی درندوں کوکھلی چھٹی دے رکھی ہے اوران کوکشمیرکے نہتے عوام پرظلم اورتشددکے پہاڑتوڑنے کے لئے پوٹا اورٹاڈاجیسے سیاہ قوانین کی چھترچھایافراہم کی ہوئی ہے، جس کے تحت بھارتی فوجی کسی بھی گھرکی تلاشی لے سکتے ہیں،کسی بھی شہری کوگرفتارکرسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوجی آئے روز کشمیرمیں دہشت گردوں کی تلاش کے بہانے چھاپے مارتے رہتے ہیں اورنوجوانوں کوگرفتارکرکے، جبکہ دوشیزاو¿ں کوبغیروجہ بتائے اٹھاکرلے جاتے ہیں۔بعدازاں گرفتارنوجوانوں کا نشان ہی نہیں ملتااورنہ ہی اغواءکی گئی دوشیزاو¿ں کا۔ بھارت میں جب سے آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے، ایک طرف انڈیا کی مختلف ریاستوں میں مسلم کش فسادات ، مساجدومدارس کونشانہ بنانے اور طلباءپر بلاجواز تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، نیز مقبوضہ کشمیر میں بھی نہتے کشمیریوں کے قتل عام، فرضی جھڑپوں، سرگرم حریت رہنماو¿ں و کارکنان کو جیلوں میں ڈالنے اور دفعہ 370جس کی وجہ سے کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ اسے ختم کرنے کی سازشیں تیز کر دی گئی ہیں۔ بی جے پی حکومت اصل میں اس دفعہ کی بچی کھچی صورت کو ختم کرکے غیر ریاستی باشندوں کو بڑے پیمانے پر یہاں لاکر بسانا چاہتی ہے تاکہ یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیاجائے اور اسرائیلی طرز پر کشمیری مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے ایک خطرناک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں حائل آخری رکاوٹ کو ختم کیاجاسکے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالا ت میں جب ہندو انتہا پسندنریندر مودی کی حکومت کی جانب سے بھارتی وکشمیری مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور دفعہ 370کے خاتمے کی باتیں کی جارہی ہیں، ہماری طرف سے پرُزور احتجاج سے انشاءاللہ پوری دنیاتک مظلوم کشمیریوں کی آواز پہنچے گی اور بھارت سرکارکے کشمیریوں کی جدوجہدآزادی کونقصان پہنچانے کی خوفناک سازشیںبری طرح ناکام ہوں گی۔کشمیر کشمیریوں کا ہے اور اس کا حل بھی کشمیریوں کی امنگوں کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کو کشمیریوں کی پشت پناہی کرنا ہو گی۔ کشمیر کے بغیر بھارت سے کوئی مذاکرات نہ کئے جائیں۔ کشمیر اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو پاک بھارت تعلقات کی بنیاد ہے۔ کشمیری پاکستان سے توقعات رکھتے ہیں اور اسے اپنا وکیل سمجھتے ہیں۔ ہندوستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں سازش کے تحت ایک ہی لابی کی حکومت بنائی گئی ہے جو پاکستان دشمن ایجنڈے پر متحد ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔