تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی خدمت کرے
2002ئے عام انتخابات میں عمران خان اپنے آبائی شہر میانوالی سے ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ ملک بھر سے تحریکِ انصاف کی واحد نشست تھی حالانکہ انہیں جنرل پرویز مشرف اور خفیہ اداروں کی اشیرباد بھی حاصل تھی۔ وہ بعد میں پرویز مشرف کی مخالفت کرنے لگے۔ یہ وہ وقت تھا جب نوازشریف (اور شہبازشریف) جلاوطن تھے۔ اس کے باوجود عمران خاں سیاست میں ان کا متبادل نہ بن سکے۔2008 کے عام انتخابات کا تحریکِ انصاف نے بائیکاٹ کیا۔ اکتوبر 2011 میں ایک ”نئی تحریک انصاف“ نے مینارِ پاکستان پر جنم لیا جو 2013 کے عام انتخابات میں پارلیمانی لحاظ سے ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ ووٹوں کے لحاظ سے یہ مسلم لیگ (ن) کے بعد دوسرے نمبر پر اور پی پی پی تیسرے نمبر پر تھی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں تحریکِ انصاف نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی۔
2011ءکے بعد تحریکِ انصاف کی صورت میں تیسری سیاسی قوت اُبھری تو بعض لوگوں نے اس سے اُمیدیں باندھیں۔ 2013ءمیں خیبر پختونخوا میں وہ سنگل لارجسٹ پارٹی بن گئی جسے نوازشریف نے وہاں حکومت بنانے کا موقع دیا۔ یہ تحریکِ انصاف کے لیے اپنے انتخابی وعدوں پر عملدرآمد کا سنہرا موقع تھا لیکن جس”سٹیٹس کو“ کو عمران خاں توڑنے کے دعویدار تھے، اسکی سب سے بڑی علامت پرویز خٹک کو (جو پہلے پیپلز پارٹی کے وزیر رہے پھر عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت میں وزارت کے مزے لیتے رہے، مشرف دور میں نوشہرہ کے ضلع ناظم رہے)خیبر پختونخوامیں وزیراعلیٰ بنادیا۔ تحریکِ انصاف کے پرانے رہنماو¿ں کو بھول کر دوسری پارٹیوں سے آنے والے موقع پرستوں کو وزارتیں بانٹ دی گئیں۔
تعلیمی اور ہیلتھ ایمرجنسی کے نعرے لگانے والوں کا یہ حال ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان کے اپنے علاقے مردان میں بچے قبرستانوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔ وہی گھسا پٹا پولیس کا نظام، وہی بھتہ خوری، وہی اغواءبرائے تاوان جیسے جرائم جو روز بروز بڑھ رہے ہیں ، خان صاحب کو تحریکِ انصاف کو تیسری سیاسی قوت ثابت کرنے کے لیے خیبر پختونخوا میسر ہے۔ وہ اپنا اور قوم کا مزید وقت ضائع کئے بغیر پشاور جا کر بیٹھیں وہاں تعلیمی ، ترقیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی جیسی اصلاحات پر توجہ دیں۔ خیبر والوں نے آپ پر اعتماد کیا ، ان کے اعتماد پورا اُتریں اور خود کو صحیح معنوں میں تبدیلی کی علامت اور تیسری سیاسی قوت ثابت کریں۔