پریشر گروپ اصلاحات میں بڑی رکاوٹ
سابق صدر آصف علی زرداری اور چودھری اعتزاز احسن نے اپنے بیانات میں افواج پاکستان کی قیادت کے خلاف سخت تلخی کا اظہار کیا ہے۔ سابق صدر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کوئی ادارہ جمہوریت کو ختم کر کے ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قبضہ کر لے گا، لیکن وہ جمہوریت کا دفاع کریں گے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے واضح طور پر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع نہ دی جائے۔ دراصل فوج کے خلاف سابق صدر کی تلخی کا سبب رینجرز کے ہاتھوں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ہے،جنہیں اپنے ہسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کرنے اور بھاری مالی کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو زیادہ اہمیت دینے کی بجائے اپنے ذاتی دوستوں کی ایک فوج کو حکومت میں شامل کر لیا تھا، ان میں سرفہرست ڈاکٹر عاصم تھے۔ سابق صدر کے یہ دوست اپنی نجی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ ان کی کرپشن کا شیئر ان کے ہاتھ میں بہت کم آتا ہے، بڑا حصہ تو اوپر چلا جاتا ہے۔ پاکستانی میڈیا بھی سابق صدر کے دور میں کرپشن کی داستانیں بیان کرتا رہا، لیکن سابق صدر نے کرپشن اور عوامی مسائل کے بارے میں نوٹس نہ لینے کی ’’اچھی عادت‘‘ برقرار رکھی۔
سابق صدر کے دور میں بھی کراچی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، گینگ وار، ڈکیتیوں اور ہر قسم کے جرائم کا مرکز رہا، لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ملازمت میں تین برس کی توسیع بھی دی تاکہ سابق صدر آصف علی زرداری اطمینان سے حکومت چلاتے رہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف اور جمہوری نظام کی بھرپور حمایت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ماضی میں کی جانے والی کرپشن کو نہ چھیڑا جائے اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے معاملات میں بھی کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے، لیکن قدرت کا قانون ہے کہ ایسا ہوتا نہیں ہے ،جیسا انسان سوچتا ہے۔ مُلک کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی درحقیقت فوج کے کنٹرول میں ہے ،اس لئے ہر فوجی قیادت کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیاست دان کیا کیا کر چکے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ چند ماہ قبل موجودہ فوجی قیادت نے تین سابق جرنیلوں کو بھی کرپشن کے الزام میں مختلف نوعیت کی سزائیں دی تھیں۔مُلک کرپٹ سرکاری افسروں اور سیاست دانوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن ڈاکٹر عاصم حسین کو شاید مثال بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن ایسا کرنا درست نہیں۔ اگر کرپشن کے خلاف عزم موجود ہے تو پھر تمام کرپٹ عناصر پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سندھ میں شاید کرپٹ وزراء پر اِسی لئے ہاتھ نہیں ڈالا گیا کہ اس طرح سیاسی حکومت غیر مستحکم ہونے کا خدشہ تھا۔
موجودہ دور میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنی ذاتی حیثیت میں کرپشن کے سخت مخالف ہیں، لیکن ایک منتخب جمہوری حکومت کے سربراہان کی حیثیت سے وہ قاعدے و قانون سے ہٹ کر کوئی ایسا اقدام نہیں کر سکتے کہ طاقتور کرپٹ عناصر کو چند ماہ میں ہی کچل دیا جائے۔ پاکستان میں جمہوری ادوار سے زیادہ فوجی ادوار رہے ہیں، لیکن فوجی حکومتیں بھی کرپٹ عناصر کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ اس وقت پاکستان پر جتنے غیر ملکی قرضے ہیں ،اس سے زیادہ رقوم کرپٹ عناصر کے پاس ہیں۔ آج کل ترقی یافتہ دُنیا میں جن دولت مندوں کا دولت کے لحاظ سے اعلان کیا جاتا ہے ،ان میں کسی پاکستانی کا نام نہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ کئی پاکستانی ان کے برابر یا ان سے زیادہ دولت مند نہیں۔
اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس دینے کا کلچر نہیں ،تھوڑا بہت انکم ٹیکس بھی بمشکل ادا کیا جاتا ہے اور ایسے انتظامات کئے جاتے ہیں کہ ان کی دولت حکومت کی نظر میں نہ آ سکے۔ اس کالے دھن کو چھپانے کے معاملے میں کرپٹ افسران بھرپور تعاون کرتے ہیں جب کبھی حکومت نے کاروباری حضرات کی آمدنی کی ڈاکومنٹیشن کرنے کی کوشش کی تو حکومت کو تاجر حضرات کی جانب سے سخت مزاحمت اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں تاجروں، زمینداروں، سیاسی جماعتوں، وکلاء اور قومی اداروں کے پریشر گروپ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ ،معاشرتی و ملکی اصلاحات کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اگر یہ رکاوٹیں نہ ہوں تو زرعی پیداوار پانچ گنا بڑھ جائے اور محصولات کی وصولی میں دس گنا اضافہ ہو جائے۔ کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں 90 فیصد کمی واقع ہو جائے ،پھر نہ صرف ہم قرض سے چھٹکارا حاصل کر لیں، بلکہ تیز رفتار ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائیں۔ اس کے بعد ہمارا سفر جمہوری فلاحی ریاست کی منزل کی جانب بھی تیزی سے شروع ہو جائے۔ پھر ایسا پاکستان وجود میں آ جائے، جس کا خواب حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے دیکھا تھا۔
کرپشن کی صورت میں جاری معاشی دہشت گردی کسی طرح بھی جانی دہشت گردی سے کم نہیں۔ جنرل راحیل شریف نے جانی دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور پاکستانی عوام بے وقت ہلاکت کے خوف سے باہر نکل آئے ہیں، لیکن اس کے خاتمے کے محاذ پر یا اقتصادی دہشت گردی کے معاملے میں رینجرز نے صرف ڈاکٹر عاصم حسین پر ہاتھ ڈالا ہے۔ سینکڑوں کرپٹ اپنی دولت کو مُلک سے باہر نکالنے کے بعد خود بھی فرار ہو چکے ہیں۔ ان کو کون واپس لائے گا اور کون ان سے لوٹی ہوئی دولت برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے گا؟ کہا جا رہا ہے کہ اس وقت نوازشریف حکومت اور فوج ایک ہی صفحہ پر ہیں، اگر یہ درست ہے تو ہمارے سیاسی جغادریوں کو آرمی چیف کی ایکٹنیشن کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ نواز شریف آرمی چیف کو خود بخود ملازمت میں توسیع دے دیں گے۔ ویسے بھی دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک موجودہ آرمی چیف کا اپنے عہدے پر برقرار رہنا ضروری ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور اعتزازاحسن کو ایک قومی ادارے کے خلاف بیان بازی سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ماضی سے بہت کچھ سیکھ چکی ہیں اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کے معاملے میں ان کا عہد اتنا مضبوط ہے کہ اب جمہوری نظام کو ڈی ریل کرنا آسان نہیں۔