سٹریٹ کرائم بڑھ گیا، پوش علاقے ٹارگٹ

سٹریٹ کرائم بڑھ گیا، پوش علاقے ٹارگٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں ایک مرتبہ پھر عروج پر پہنچ گئی ہیں ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی گئی کارروائیوں کے نتیجے میں ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ،اغواء برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کی وارداتوں میں تو نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن اسٹریٹ کرائم ایک ایسا ’’جن‘‘ بن گیا ہے جس کو ’’بوتل‘‘ میں ڈالنا کسی کے بس کی بات نظر نہیں آرہی ہے ۔شہر کے پوش علاقے ہوں یا متوسط طبقے کے علاقے ہر جگہ پر شہریوں کو روزانہ کی بنیاد پر ان کی قیمتی اشیاء سے محروم کردیا جاتا ہے ۔شہر میں ہونے والی زیادہ تر وارداتوں کی شہری تھانوں میں رپورٹ ہی درج نہیں کراتے ہیں اس وجہ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کے مکمل اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں ۔اگر سی پی ایل سی کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ہر مہینے ہزاروں کی تعداد میں موبائل فونز اور موٹرسائیکل اور گاڑیاں چھیننے و چوری کی وارداتیں ہورہی ہیں ۔موبائل فون چھن جانے کی صورت میں اگر شہری سی پی ایل سی سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ موبائل فون کا آئی ایم ای آئی نمبر طلب کرتے ہیں جو اکثر شہریوں کے پاس موجود نہیں ہوتا ہے ۔دنیا میں اب اتنی جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے کہ چند لمحے میں ہی چوری شدہ موبائل فونز کا سراغ لگالیا جاتا ہے لیکن ہمارے ادارے آج بھی اس ہی پرانے طریقہ کار پر گامزن ہیں جس کی وجہ سے شہری اپنے قیمتی موبائل فونز سے محروم ہونے کے بعد اس پر ’’فاتحہ‘‘ پڑھ لیتے ہیں ۔اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ملوث ملزمان کی بات جائے تو اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کی عمریں 18سے 25سال کے درمیان ہوتی ہیں ۔جرائم پیشہ عناصر ان نوجوانوں کو پہلے نشہ کی لت میں مبتلا کرتے ہیں اور پھر یہ ملزمان اپنے نشے اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وارداتیں شروع کردیتے ہیں ۔مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اسٹریٹ کرائم کے ذریعہ ہی اپنی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور ان کو اپنی جماعتوں کی بھرپور سرپرستی حاصل ہوتی ہے ۔اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں سے شہریوں کا صرف مالی نقصان نہیں ہوتا ہے بلکہ اس طرح کی کئی وارداتوں میں شہری اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ،لٹنے والے شہریوں کو جو ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی ہے وہ ان کو نفسیاتی مسائل میں مبتلا کررہی ہے ۔اسٹریٹ کرائم کا شکار بننے والے اکثر افراد ایک مستقل خوف کی صورت میں زندگی بسر کرنے لگتے ہیں اور باہر سفر کے دوران ان کو ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نجانے کب کون کہاں سے آکر ایک مرتبہ پھر ان کو لوٹ نہ لے ۔ سی پی ایل سی کی رپورٹ کے مطابق اس سال 1391گاڑیاں چھینی و چوری کی گئیں، 25ہزار5سو34موٹرسائیکلیں چھینی و چوری کی گئیں جبکہ 29ہزار8سو69موبائل فونز سے شہری ہاتھ دھو بیٹھے ،جنوری میں 143گاڑیاں ، 1848موٹر سائیکلیں جبکہ 2622موبائل فون چھینے و چوری کیے گئے۔فروری میں 111 گاڑیاں، 17 سو 96 موٹر سائیکلیں اور 23سو29موبائل فون چھینے و چوری کیے گئے، مارچ کے مہینے میں 1 سو 4 گاڑیاں، 2 ہزار 90 موٹر سائیکلیں اور 24سو36موبائل چھینے و چوری کیے گئے، اپریل میں 124 گاڑیاں، 2 ہزار 61 موٹرسائیکلیں اور 2 ہزار 6سو50 موبائل فون، مئی میں 131 گاڑیاں، 2 ہزار 2 سو 2 موٹر سائیکلیں، 2 ہزار 3 سو 34 موبائل فون، جون میں 126 گاڑیاں، 2 ہزار 4 سو 9 موٹر سائیکلیں اور 2 ہزار 1 سو 31 موبائل فون، جولائی کے مہینے میں 139 گاڑیاں، 2 ہزار 5 سو 62 موٹر سائیکلیں اور 2 ہزار 8 سو 20 موبائل فون، اگست میں 138 گاڑیاں، 2 ہزار 6 سو 8 موٹر سائیکلیں اور 2 ہزار 975 موبائل فون ،ستمبر کے مہینے میں 90 گاڑیاں، 2 ہزار 2 سو 64 موٹر سائیکلیں اور 2 ہزار 4 سو 73 موبائل فون، اکتوبر میں 120 گاڑیاں، 2 ہزار 3 سو 52 موٹر سائیکلیں، 2 ہزار 7 سو 30 موبائل فون، نومبر میں 105 گاڑیاں، 1 ہزار 9 سو 62 موٹر سائیکلیں اور 2 ہزار 5 سو 49 موبائل فون جبکہ یکم دسمبر سے 21 دسمبر تک 60 گاڑیاں، 1 ہزار 3 سو 80 موٹر سائیکلیں اور 1 ہزار 7 سو 80 موبائل فون چھینے و چوری کیے گئے ہیں، اس میں ابھی وہ تمام سامان اور رقم شامل نہیں جو ملزمان سارا سال لوٹتے رہے اور نہ ہی لوٹ مارکے اعداد و شمار مکمل ہیں کیوں کہ اکثر شہری رپورٹ درج کراتے ہیں اور نہ ہی مقدمہ درج کرواتے ہیں ،پولیس کی رپورٹ اور سی پی ایل سی کی رپورٹ میں بھی واضح فرق نظرآتا ہے اے ٹی ایم کے زریعے کیش نکال کر گھر جاتے ہوئے لٹنے والے شہریوں کی بھی تعداد ہزاروں میں ہے ،ایک اندازے کے مطابق شہری 15ارب سے زائدروپے شہریوں سے لوٹ لیے گئے،پولیس نے جب سے مارکیٹوں میں ایسیموبائل فون کی فروخت پر سختی کی ہے تب سے موبائل چوری اور چھینے ہوئے موبائل فونز مختلف اتوار بازاروں میں سر عام بیچے جارہے ہیں،نئی کراچی ،بنارس پل ،اور رنچھوڑ لائن میں پنکھا مرکیٹ میں ایسے موبائل بڑی تعداد میں کڑیدے اور بیچے جارہے ہیں۔ شہر میں قتل و غارت ،بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی یقیناً خوش آئند بات ہے لیکن اسٹریٹ کرائم کے سدباب کے لیے اب ٹھوس اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہوگئے ہیں ۔ اسی سلسلے میں سندھ ایپیکس کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ ایسے ملزمان جو اسٹریٹ کرائم کی ایسی وارداتوں میں ملوث ہوں جن میں دوران ڈکیتی مزاحمت کی وجہ سے کسی بھی شہری کے قتل یا آتشی اسلحے کے زریعے زخمی ہونے کا واقعہ ہو ان کے مقدمات کا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلانے پر غور کیا جائے ،یہ تجویز ابھی حکومت سندھ کی متعلقہ وزارت کے زیر غور ہے اور اس کی عملداری پر حتمی فیصلہ صرف حکومت سندھ کی ہی صوابدید پر ہے، کراچی شہر کا تقریباً ہر دوسرا شہری ان اسٹریٹ کریمنلز کا نشانہ بن چکا ہے ۔اسٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لیے محکمہ پولیس اور سی پی ایل سی کو باہمی تعاون سے حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے ۔اس ضمن میں پولیس کو جدید قسم لوکیٹر فراہم کیے جائیں جو بغیر آئی ایم ای آئی نمبر کے چھینے گئے یا چوری شدہ موبائل فونز کو ٹریس کرسکتے ہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ آئی جی سندھ شہریوں کو اسٹریٹ کرمنلزکے چنگل سے چھڑانے کے لیے پولیس میں ’’اینٹی اسٹریٹ کرائم فورس‘‘ تشکیل دیں اور اس فورس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا جائے ۔اس فورس کے اہلکاروں کی ٹریننگ کے لیے باہر سے ماہرین کو بلایا جائے جو ان کو جدید خطوط پر اسٹریٹ کرائم کے سدباب کی تربیت فراہم کریں ۔اس کے علاوہ دنیا کے ان شہروں کے حالات کا بھی مطالعہ کیا جائے جہاں اسٹریٹ کرائم ایک وقت میں انتہائی عروج پر تھے لیکن وہاں کی سکیورٹی فورسز نے ان پر قابو پالیا ۔ان ممالک کی حکمت عملی کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ایک واضح پلان تشکیل دیا جاسکتا ہے ۔محکمہ
سندھ حکومت اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام کو اب اس بات کی سمجھ آجانی چاہیے کہ محض دعوؤں سے کام نہیں چلے گا کیونکہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے ۔شہریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان رینجرز نے ایپیکس کمیٹی میں جو تجاویز پیش کی ہیں سندھ حکومت کو فوری طور پر ان تجاویز کو قانونی شکل دے دینی چاہیے اور ایسے اسٹریٹ کرمنل کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے چاہیے، شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرمنلز کے دل اتنے کھل چکے ہیں کہ واردات کرکے اپنے گھر والوں کو ایک مخصوص رقم اس لیے دیتے ہیں کہ جب بھی جرم کرتے ہوئے پکڑے جائیں تو گھر والے وکیل کی فیس اور ضمانت کے اخراجات اس رقم سے آسانی سے ادا کرسکیں ، زرائع کا کہنا ہے کہ ا کثر ملزمان پیسے خرچ کرکے ضمانتوں پر واپس آکر دوبارہ سے اسٹریٹ کرائم شروع کردیتے ہیں شہری اب حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے کیے گئے عملی اقدامات کے منتظر ہیں ۔سندھ حکومت اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام کو اب اس بات کی سمجھ آجانی چاہیے کہ محض دعوؤں سے کام نہیں چلے گا کیونکہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے ۔شہریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان رینجرز نے ایپیکس کمیٹی میں جو تجاویز پیش کی ہیں سندھ حکومت کو فوری طور پر ان تجاویز کو قانونی شکل دے دینی چاہیے اور ایسے اسٹریٹ کرمنل کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے چاہیے، شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرمنلز کے دل اتنے کھل چکے ہیں کہ واردات کرکے اپنے گھر والوں کو ایک مخصوص رقم اس لیے دیتے ہیں کہ جب بھی جرم کرتے ہوئے پکڑے جائیں تو گھر والے وکیل کی فیس اور ضمانت کے اخراجات اس رقم سے آسانی سے ادا کرسکیں ، زرائع کا کہنا ہے کہ ا کثر ملزمان پیسے خرچ کرکے ضمانتوں پر واپس آکر دوبارہ سے اسٹریٹ کرائم شروع کردیتے ہیں شہری اب حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے کیے گئے عملی اقدامات کے منتظر ہیں ۔

مزید :

ایڈیشن 1 -