قرض کی پیتے تھے مے

قرض کی پیتے تھے مے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) میں حکومت نے ریکارڈ2240ارب روپے کا ملکی و غیر ملکی قرض لیا،جس میں1334 ارب غیر ملکی اور906 ارب ملکی قرض شامل ہے، حکومت نے اکتوبر میں 162ارب روپے اور نومبر میں241 ارب روپے ملکی قرض لیا۔ سٹیٹ بینک کی دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اخراجات اور آمدن میں فرق میں اضافے کے ساتھ حکومت کا ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار بڑھ رہا ہے اور خدشہ ہے کہ آنے والے دِنوں میں قرضوں پر انحصار مزید بڑھے گا۔
اِن اعداد شمار میں وہ قرض شامل نہیں ہے جو دسمبر کے مہینے میں لیا گیا یا اب تک لیا جا رہا ہے،اس میں دو بڑے قرضے تو وہ ہیں جو سعودی عرب اور یو اے ای سے لئے گئے ہیں۔ اوّل الذکر نے تین ارب ڈالر کا جو وعدہ کیا تھا اس میں سے دو ارب کی دو اقساط میں رقم پاکستانی خزانے میں منتقل ہو چکی ہے، جبکہ تیسری قسط جنوری میں ملے گی، اِسی طرح یو اے ای نے بھی تین ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے،جس کی رقم ابھی منتقل نہیں ہوئی، یہ دونوں قرضے بنیادی طور پر تو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لئے حاصل کئے گئے ہیں،لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ ان میں سے بعض ادائیگیاں بھی کی جا رہی ہیں،اِس کا مطلب یہ ہے کہ کم ذخائر کی وجہ سے روپے پر جو دباؤ آیا ہوا تھا وہ ابھی جاری رہے گا اور عین ممکن ہے اس کی وجہ سے روپے کو اگلے مہینوں میں قیمت میں کمی کا ایک اور جھٹکا برداشت کرنا پڑے۔
ماضی کی حکومتیں بھی بڑے بڑے قرضے لیتی رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرض بڑھتے بڑھتے خطرے کے نشان کو چھو رہا ہے اور جی ڈی پی کے تناسب سے جتنا قرضہ ہونا چاہئے اس کی حد کو یا تو عبور کر چکا یا کرنے والا ہے،اِس لحاظ سے یہ لمحہ فکریہ ہے اور ماہرین کو کوشش کرنی چاہئے کہ قرضوں کا یہ بوجھ کسی نہ کسی طرح کم کیا جائے،لیکن اس مقصد کے لئے نہ ماضی میں کوئی کوشش کی گئی اور نہ شاید آج کی جا رہی ہے۔ایک بار ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ لگا تھا اُس وقت صورت یہ تھی کہ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے حکومت کو امریکی اور دوسرے ممالک کی پابندیوں کا سامنا تھا، اِس لئے اس مد میں ملنے والی زرِمبادلہ کی رقوم شاید قرضوں کی واپسی پر خرچ ہونے کی بجائے دوسری ضروریات پر خرچ ہو گئیں،جن لوگوں کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کئے گئے تھے، انہیں اس وقت کی شرح تبادلہ کے حساب سے روپے میں ادائیگیاں کی گئیں۔
آج کے دور میں شاید کوئی مُلک ایسا نہیں جو غیر ملکی اور ملکی قرضوں پر انحصار نہ کرتا ہو،امریکہ جیسا بڑا مُلک جو سپر پاور بھی ہے چین کا کھربوں ڈالر کا مقروض ہے اور مزید قرضے بھی لیتا رہتا ہے، کبھی سُنا نہیں گیا کہ وہاں کی حکومتوں کے مخالفوں نے قرضوں کے حصول کی اس پالیسی پر کوئی اعتراض کیا ہو، یا اگر کیا بھی ہو تو اسے سیاسی مسئلہ کبھی نہیں بنایا، جیسے ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ ہر دور کی اپوزیشن، ہر حکومت کو اس بات کا نشانہ بناتی ہے کہ اس نے بہت زیادہ قرضے حاصل کئے ہوئے ہیں۔ آج کے حکمران بھی سابق حکومتوں کی اس پالیسی پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں،لیکن اب اُنہیں احساس ہو رہا ہو گا کہ اگر ملکی وسائل محدود ہوں اور ٹیکسوں سے آمدنی بڑھ نہ رہی ہو تو قرضوں پر انحصار مجبوری بن جاتا ہے اور اس کے بغیر چارہ بھی نہیں رہتا اِس لحاظ سے اگر موجودہ حکومت اپنے آپ کو مجبور سمجھتی ہے تو سابق حکومتیں بھی ایسی ہی صورتِ حال سے دو چار رہی ہوں گی، چونکہ ہمارے لینے کے دام اور ہوتے ہیں اور دینے کے اور،اِس لئے عمومی طرزِ عمل یہ ہے کہ سابق حکومتوں نے اگر قرض لیا تو بُرا کیا، جبکہ ہم جو قرض لے رہے ہیں وہ بڑی اچھی بات ہے اور اس پر لوگوں کو نہال ہونا چاہئے اِسی لئے موجودہ حکومت کو جب کہیں سے کوئی قرض ملتا ہے تو اس پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ا ور بعض ’’ماہرین‘‘ فوری طور پر ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر حکومت کی ’’ کامیاب خارجہ پالیسی‘‘ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگتے ہیں۔اگر قرضے کا حصول ہی خارجہ پالیسی کی کامیابی کی دلیل ہے تو پھر ہماری ہر حکومت کی خارجہ پالیسی بڑی درست اور کامیاب تھی۔ کیونکہ سب حکومتوں نے قرضوں کی بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھوئے اشنان بھی کیا ،البتہ58ء سے پہلے کا دور اِس پہلو سے کوئی زیادہ خوش قسمت دور نہیں کہلا سکتا،کیونکہ اُس وقت مُلک پر کوئی قرضہ نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو بہت معمولی۔ یہی وجہ تھی کہ اُس وقت ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ تقریباً مساوی تھی۔
پاکستان کی پہلی فوجی حکومت نے غیر ملکی قرضے حاصل کرنے شروع کئے جو ترقیاتی اور غیر ترقیاتی مدوں میں خرچ ہوئے، دفاعی سازو سامان بھی شاید اِن قرضوں سے خریدا گیا تاہم ایوب خان اور یحییٰ خان کی فوجی حکومتوں میں بھی غیر ملکی قرضوں میں اضافے کے باوجود روپے کی شرح تبادلہ غالباً ایک اور تین ساڑھے تین تک تھی، سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے روپے کی قیمت میں یک دم130فیصد کے قریب کمی کر دی تو ملک پر قرضوں کا بوجھ بھی اتنا ہی بڑھ گیا اور روپے کی قدر بھی کم ہو گئی۔ جنرل ضیا الحق کے دور کے اختتام تک بھی ایک ڈالر 19روپے کے مساوی تھا، بعد کے ادوار میں البتہ وقتاً فوقتاً اس میں اتنی زیادہ کمی ہوتی رہی کہ بیٹھے بٹھائے قرضوں کا بوجھ بڑھنا شروع ہو گیا۔ اگر ڈالر کی قیمت ایک روپیہ بڑھی تو قرضے اتنے ہی ارب بڑھ گئے، اِس لحاظ سے ذرا حساب لگائیں کہ اگر آج ڈالر140روپے کے لگ بھگ ہے تو کتنا قرضہ ایسا ہے جو صرف روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے چڑھا اور کتنا ایسا ہے، جو حقیقی طور پر حاصل شدہ قرض ہے؟ لیکن حکومتیں اس طرح کا حساب کتاب نہیں کرتیں وہ اپنے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کو ترجیح دیتی ہیں اس کے لئے ٹیکس لگانے پڑیں یا قرض لینا پڑے۔انہیں چنداں پروا نہیں ہوتی ۔
موجودہ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ سادگی اختیار کر رہے ہیں، سرکاری اخراجات کم کئے جا رہے ہیں اس کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں اور سابق حکمرانوں سے موازنہ بھی کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کا استعمال بھی وزیراعظم نے اِسی لئے ترک کیا ہے کہ اس کے اخراجات زیادہ تھے اور وہ سادگی سے رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس سادگی کے بعض پہلو بھی خاصے گراں ہیں اِسی طرح وزراء بھی سادگی کے دعوے کرتے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ سادگی کے دعوؤں کے علی الرغم پانچ ماہ میں ریکارڈ ملکی اور غیر ملکی قرض کیوں لیا گیا ہے،جو قرض پیداواری مقاصد کے لئے لیا جاتا ہے اگر اس سے کسی شعبے کی کارکردگی بڑھتی ہے یا اس کی بنیاد پر کسی شعبے میں ترقی ہوتی ہے تو ایسا قرض زحمت نہیں بنتا، لیکن غیر پیداواری مقاصد کے لئے جو قرض لئے جاتے ہیں وہ معیشت پر بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔
قرضوں پر انحصار کم کرنا ہے تو یہ کام محض نعروں اور نیک خواہشات کے اظہار یا سابق حکمرانوں کو رگیدنے سے نہیں ہو گا اس کے لئے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے اور ملکی وسائل میں اضافہ کرنا ہو گا، نئے ٹیکس گزار تلاش کرنے ہوں گے اور ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کی کارکردگی بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں بدعنوانی اور ٹیکس چوری کو روکنا ہو گا۔ آج ہی کی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں غلط اعداد و شمار ظاہر کر کے ٹیکسوں میں 45ارب روپے کی بدعنوانی کا ارتکاب کیا گیا۔ یہ انکشاف آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایف بی آر میں ٹیکس چوری کا کلچر کس حد تک جڑ پکڑ چکا ہے۔ یہ سرکاری ادارہ ہے اور بظاہر لگتا ہے کوئی بھی حکومت اس ادارے کا قبلہ درست نہیں کر سکی، کیا موجودہ حکمران اِس جانب توجہ دیں گے؟ اُنہیں شاید دوسرے کاموں سے فرصت نہیں مل رہی،اِس لئے اس جانب ان کی توجہ نہیں ہے،لیکن قرضوں سے نجات کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ملکی وسائل بڑھائے جائیں اور ٹیکس چوری روکی جائے، سابق حکومتوں کو مطعون کرنے کا حربہ نہ کبھی پہلے کامیاب ہوا ہے نہ اب ہو گا۔ سابق حکمران بھی قرض کی مے پینے پر یقین رکھتے تھے اور نئے حکمران بھی اس راہ پرپوری رفتار سے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -