پارلیمانی نظام سے چھیڑ چھاڑ درست نہیں ہوگی
تحریک انصاف کی حکومت ابھی بمشکل پانچویں ماہ میں داخل ہوئی ہے، مگر اس سارے عرصے میں ایک ہیجانی کیفیت، بے یقینی اور افراتفری مچی رہی ہے۔ اس ہنگامہ خیزی سے اہل وطن میں اضطراب، بے چینی اور فکرمندی پائی جاتی ہے۔عام لوگوں کی اکثریت پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، گیس، بجلی کے بحران انتہا پسندی اور معاشی عدم تحفظ سے پریشان ہیں۔
یہ تو سچ ہے کہ جہاں لوگوں کی امیدیں ٹوٹی ، خواب بکھرے اور تواقعات کو دھچکا لگا ہے وہیں تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کو بھی نئے اور تلخ تجربات ہوئے ہوں گے۔ یہ احساس بھی ضرور ہوا ہوگا کہ اپوزیشن اور حکومت کے معاملات کس قدر مختلف ہوتے ہیں۔ حکومت کے سو دن کا ہنگام ابھی تھما نہیں تھا کہ وزیراعظم نے سینئر اینکرز پرسنز سے ملاقات میں دوبارا عام انتخابات کے انعقاد کی بات کر دی۔ اسی دوران سابق صدرِ پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی بیان دے دیا کہ وقت سے پہلے انتخابات کا اشارہ ملا ہے نااہل حکومت سے جلد عوام کی جان چھڑائیں گے اور پیپلز پارٹی کی حکومت لائیں گے۔
چنانچہ ہر طرف ’’مڈٹرم‘‘ انتخابات کی باتیں، تجزیئے اور تبصرے شروع ہوگئے، جبکہ مڈ ٹرم کا مطلب ہے وسطی مدت انتخابات، یعنی جب حکومت اپنی آدھی مدت پوری کر لے،مگر ہم نے چار ماہ بعد ہی یہ بحثیں چھیڑ دیں جیسا کہ کوئی کھیل تماشا ہو۔ ان سب سے ابھی توجہ پوری طرح سے ہٹی نہ تھی کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے ’’مِشن امپوسیبل‘‘ کا آغاز کر دیا گیا،جو فی الوقت تو کامیابی حاصل نہیں کر سکا،لیکن سیاسی کشیدگی کا باعث بن گیا۔
تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد سے کوئی دن نہیں جاتا جب کوئی ہنگامہ برپا نہ ہو، لیکن اس میں تشویش ناک پہلو جو سنجیدہ غور وفکر کا متقاضی ہے وہ یہ ہے کہ آئے روز مُلک کے آئینی ڈھانچے اور طرزِ حکومت کو بدلنے کی کوئی نہ کوئی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔
عوام الناس کے لئے بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی، بہتری، تعمیر وترقی اور آسودگی کے لئے نہ تو وسائل مہیا ہو پا رہے ہیں اور نہ ہی ان مقاصد کے حصول کے لئے کوئی مربوط،فعال اور توانا کوششیں نظر آ رہی ہیں،مگر دوسری طرف آئے روز ہمارے رائے عامہ کے اداروں، دانشوروں، صحافیوں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے ذریعے کبھی تین سال کے لئے بنگلہ دیش ماڈل کو آزمانے کی بات کی جاتی ہے جو وہاں آزمایا گیا مگر ناکام ٹھہرا لیکن شاید ہم اس ناکام تجربے کو دہرانا چاہتے ہیں تو کبھی ٹیکنوکریٹس اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو حکومت دیکر تمام تر مسائل سے نکلنے کا نسخۂ کیمیا پیش کیا جاتا ہے۔
کبھی اٹھارویں ترمیم میں کیڑے نکالے جاتے ہیں اور اس کو سب برائیوں کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ آ ج کل پارلیمانی طرز جمہوریت کو چھوڑ کر صدارتی نظام حکومت لانے کی تجویز قومی منظر نامے پر بہت ’’ان‘‘جارہی ہے۔ اس کے دفاع میں دلیل کے طور پر کچھ حلقے معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط مستحکم اور طویل جدوجہد، قربانیوں، تجربات اور کئی سو سال کی سیاسی تاریخ کے حامل ممالک کی مثال دیتے ہیں تو کچھ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ذاتی ڈائری کے حوالوں سے صدارتی طرز حکومت کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ذاتی ڈائری کس نے کہاں سے دریافت کی اس کا کوئی جواب نہیں دیاجارہا۔تجویز یہ سوچے سمجھے بغیر دی جارہی ہے کہ امریکہ سمیت جن ترقی یافتہ ممالک میں صدارتی طرز حکومت رائج ہے ان کے حالات ہم سے کس قدر مختلف ہیں،حالانکہ وہاں بھی صدر کو مطلق العنان حیثیت حاصل نہیں ہوتی،بلکہ وہ مکمل جمہوری نظام حکومت ہے۔
دیکھنے اور سمجھنے والی بات تو یہ ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت کو ہم نے کتنا وقت اور موقع دیا کہ وہ اپنی جڑیں مضبوط کرکے ہم تک اپنے ثمرات پہنچا سکے؟ کیا کبھی پارلیمانی نظام حکومت کو اس کی حقیقی روح، سچائی اور تمام تر لوازمات کے ساتھ رائج کر پائے ہیں ؟اس کا سادہ، سیدھا اور سچا جواب ہے ’’نہیں‘‘ 1956ء میں پہلی بار پارلیمانی آئین نافذ ہو ا۔
اس لولی لنگڑی حکومت اور ایوب خان کے مارشل لا آنے تک کا عرصہ ہماری سیاسی تاریخ کا ناخوشگوار باب ہے۔ محلاتی سازشوں کے جال بنے گئے، وفا داریاں بدلی گئیں، نئے دھو کے اور انحراف ہوئے، گھوڑوں کے بازار سجے اور نرخ لگے، کنگز پارٹی کھڑی کی گئی۔
طویل آمریت کے بعد 1973ء کے آئین کے تحت پارلیمانی نظام دوبارا رائج ہوا، لیکن 5جولائی 1977ء کو جمہوریت کی بساط ایک بار پھر لپیٹ دی گئی۔ 17 اگست 1988ء جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد غلام اسحاق خان کے صدر پاکستان ہوتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں تو پارلیمانی نظام کو ایک بار پھر پٹری پہ چڑھانے کی سعی کی گئی۔ 1988ء تا 1999ء بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی چار وزارتوں نے جن حالات میں کام کیا ان سے بہتر ی کی کوئی توقع رکھنا غیر مناسب ہے۔ ان حکومتوں کے سر پر 58 (2) بی کی تلوار لٹکی ہوئی تھی اور اسی تلوار سے صدر غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے ان جمہوری حکومتوں کے سر قلم کئے۔
1999ء تا 2007ء ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف نے پارلیمانی نظام کو آرام کا موقع دیا۔ 2008ء میں بینظیر بھٹو کی قربانی کے صلے پارلیمانی جمہوریت واپس ملی۔ اس بار یہ انتظام کیا گیا کہ مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومتیں قائم ہوئیں مرکز میں پی پی کے ساتھ مسلم لیگ(ن) اور پنجاب مسلم لیگ(ن) کے ساتھ پیپلز پارٹی نے شراکت داری کی۔ بعد میں پیپلز پارٹی پنجاب اور مسلم لیگ(ن)مرکزی حکومت سے علیحدہ ہو گئیں۔
جمہوری وقفوں میں موجود وقفہ سب سے طویل ہے۔ دو جمہوری حکومتوں کی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر چکیں اور تیسری شروعات کر چکی ہے۔ خطے کے حالات ،بین الاقوامی سیاسی صورتِ حال اور دیگر وجوہات کی بنا پر بظاہر ٹہراؤ کی کیفیت ہے اور اس کے مستقبل میں بھی جوں کے توں رہنے کے روشن امکانات ہیں۔
ماورائے آ ئین اور مہم جوئی کا رواج اور زمانے اب لد گئے۔قومی سیاسی جماعتوں اور لیڈر شپ کو تحمل، بالغ نظری، بردباری، دوراندیشی، وقت اور حالات کی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی مدبرانہ طور پر قوم کی قیادت کے فرائض انجام دینے پڑیں گے۔ قوم سے بھی ملکی معاملات میں شعور اور دانائی کی توقع رکھنی چاہئے،مگر عوام کی اکثریت روزی روٹی بنیادی ضروریات زندگی کے حصول اور دیگر مسائل میں بری طرح اُلجھی ہوئی ہے۔ رہنماؤں کو ہی آ گے آ کر مثالی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ملکی معاملات میں کلیدی اور فیصلہ ساز کردار کی حیثیت حاصل کرنا ہمارے سیاستدانوں کا امتحان ہے۔
نت نئے تجربات سے گریز کرتے ہوئے دستیاب پارلیمانی نظام جو عوامی امنگوں کا ترجمان اور ہماری روایات کا آ ئینہ دار ہے اسے چلنے دیں اور اس کے تحت اپنی ساری توجہ، توانائیاں اور صلاحتیں عملی اقدامات کرنے، کارکردگی بہتر بنانے اور عوام کے روز مرہ زندگی کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے استعمال کریں آج پاکستانی حکومت اور نظام کی اولین ترجیح عام آدمی کو سکھی اور خوشحال بنا کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔
جیسا بھی برا بھلا ہے یہ وقت اس سسٹم سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا نہیں ہے۔ نئی آیئن سازی کے پیچھے پوشیدہ خطرات کا ہمیں احساس ہونا چاہئے۔ اسی وجہ سے 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی 1973ء کے آئین کو یکسر ختم کرنے کی ہمت نہیں کی،بلکہ اسے التواء میں رکھ کر اپنے معاملات چلانے پر اکتفا کیا تھا۔
ابھی معیشت کو بحران سے نکالئے، جمہوریت کو توانا کیجئے، اداروں کو مضبوط بنائیں پھر ضرورت محسوس ہو تو قوم کی تائید سے ترکی کی طرح صدارتی طرز حکومت لے آئیں، لیکن حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو خرابی ان طرزِ حکومتوں یا نظاموں میں نہیں،بلکہ ہم میں ہے۔ ہمارے طرزِ حکمرانی میں ہے۔
ناکام نظام نہیں، ناکام ہم ہیں، جب تک ہم خود کو اور اپنے طور طریقوں کو درست نہیں کریں گے، ہم کوئی سا بھی فارم آ ف گورنمنٹ لے آ ہیں ہم استحکام، ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کر سکیں گے۔