اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 109
ہمارے مٹھ سے کوئی نوکوس کے فاصلے پر ایک ندی بہتی تھی۔ اس ندی کے پارس ایک شاہی رقاصہ کا شاندار محل تھا جس کی سنگ مرمر کی سیڑھیاں ایک جانب سے ندی کے پانی میں اترگئی تھیں۔ اس محل کے ستونوں کو ترناری کے نیلے پھولوں والی بیلوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ جس زمانے میں راجہ بکراجیت نے جوگ دھارن نہیں کیا تھا اور وہ دوسرے راجاؤں کی طرح عیش و عشرت سے دن گزارتا تھا تو یہ رقاصہ اس کے دربار کی شاہی رقاصہ اور مغنیہ تھی۔ اس کا نام رامائینی تھا۔ راجہ کے لوگ دھارن کرنے کے بعد اس رقاصہ سے شاہی محل چھٹ گیا تھا۔ اب وہ ندی کنارے والے اپنے محل میں ہی رہتی تھی۔ کبھی کبھی وہ اپنی شاندار کشتی میں سوار ہوکر اجین شہر کے امراء کے محلوں اور حویلیوں میں جاکر ان سے ملتی اور تجدید ملاقات کرتی اور رات بھر اپنے مذہبی رقص کا مظاہرہ کرتی۔ رقاصہ رامائینی کے حسن کی بڑی شہرت تھی۔ اگرچہ اس کی عمر چالیس برس کے قریب تھی مگر لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی اتنی حسین ہے کہ جو کوئی اسے دیکھتا ہے بس دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 108 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک روز ایسا ہو اکہ صبح کے اپدیش میں ایک چیلا موجود نہیں تھا۔ گرودیو کمار گری نے مجمع پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا کہ جوگی مراری نظر نہیں آرہا۔ وہ کہاں ہے؟ ایک چیلے نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ گرودیو ! مراری شہر گیا ہوا ہے۔ گرودیو نے کو ئی خیال نہ کیا۔ مگر جب سارا دن گزرگیا اور مراری مٹھ میں واپس نہ آیا تو گرودیو کمار گری کو تشویش ہوئی۔ اس نے مجھے مراری کی تلاش کا حکم دیا۔ میں جوگیوں کے مٹھ سے نکل کر شہر کی طرف چلنے لگا تو ایک نوجوان چیلے نے مجھے ایک طرف لے جاکر ہاتھ باندھ کر عرض کیا ’’سوامی وشال دیو! میرا نام نہ بتائیں تو میں ایک بات کہوں۔‘‘
میں نے کہا ’’ضرور کہو۔ میں تمہارا نام کسی کے آگے نہیں لوں گا۔ بولو کیا بات ہے؟ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
اس چیلے نے مجھے بتایا کہ مراری کو رقاصہ رامائینی سے پریم ہوگیا ہے اور اس نے ہمارا مٹھ چھوڑ کر اس کے محل میں ڈیرہ جمالیا ہے۔ وہ کہہ گیا تھا کہ اب وہ یہاں کبھی واپس نہیں آئے گا۔ شاہی رقاصہ رامائینی کے محل میں اس کا نوکر بن کر رہے گا۔
میں نے یہ ساری بات خاموشی سے سنی اور پھر شہر کا ایک چکر لگا کر واپس آگیا۔ میں نے گرودیو کمار گری کو بتایا کہ شہر کے لوگوں سے پتہ چلا ہے کہ چیلا مراری شاہی رقاصہ رامائینی کے پریم میں گرفتار ہوکر اس کے محل میں جاکر نوکر بن گیا ہے اور وہیں رہنے لگا ہے۔ گرودیو کمار گری کے دل آویز چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے کہا
’’نادان ہے۔ سورگ کو چھوڑ کر نرک کی طرف چلا گیا ہے۔ ہم اسے وہاں سے واپس لائیں گے۔‘‘ اسی روز شام ہونے سے کچھ پہلے گرودیو کمار گری نے مجھے ساتھ لیا۔ کھڑاویں پہنیں۔ ہاتھ میں صندل کی لکڑی کا گنگا جل سے بھرا ہوا کرمنڈل پکڑا اور شاہی رقاصہ رامائینی کے محل کی طرف چل پڑا۔ وہ اس سے اپنا چیلا واپس لینے جارہا تھا جو ا س کے خیال میں بہشت کو چھوڑ کر جہنم کی آگ کے شعلوں میں جاکر بیٹھ گیا تھا۔ دو کوس تک کھیتوں اور درختوں میں ہم پیدل چلتے چلے گئے۔ کمار گیر خاموش رہا۔ راستے میں اس سے مجھے سے کوئی بات نہ کی۔ ہم ندی پر پہنچ گئے۔ اس ندی کا پاٹ پچاس ساٹھ گز تھا۔ ندی کے دوسرے کنارے پر ھوج اور آم کے گھنے جھنڈوں میں رقاصہ رامائینی کا پرانا مگر نہایت شاندار اور پرشکوہ مرمریں محل نظر آرہا تھا۔ یہ محل سیتا پھل، کیلے اور آم کے درختوں میں گھرا ہوا تھا۔ ستونوں اور دیواروں پر جنگلی پھول مسکرارہے تھے۔ ندی پار کرنے کے لئے وہاں کوئی کشتی نہیں تھی۔ میں نے گرودیو کمار گری سے کہا ’’گروجی! یہاں کوئی کشتی دکھائی نہیں دیتی۔ کیا ہم تیر کر ندی پار کریں گے؟‘‘
گرودیو کمارگری کے ہونٹوں پر خفیف سا تبسم نمودار ہوا۔ اس نے کہا ’’ہم چل کر ندی پار کریں گے۔ تم میرا ہاتھ تھامے رکھنا اگر چھوڑ دیا تو ندی میں ڈوب جاؤ گے۔‘‘
میں کچھ حیران سا ہوا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟ بھلا کوئی انسان پانی پر چل سکتا ہے۔ پھر سوچا کہ شاید اس نے سالہا سال کی ریاضت سے یہ مقام حاصل کرلیا ہو جس سے پانی پاؤں کے نیچے شیشے کی طرح سخت ہوجاتا ہے۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ آسمان کی طرف اٹھایا اور اپنا دایاں پاؤں بڑھا کر ندی کے پانی کی سطح پر رکھ دیا۔ میں نے بھی اس کے ساتھ ہی اپنا دایاں پاؤں بھی پانی کی لہروں پر رکھ دیا۔ آپ کویقین نہیں آئے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ میرے پاؤں کے نیچے ندی کا پانی پتھر کی طرح سخت تھا۔ آج بھی میں یہاں کراچی میں بیٹھا جب اس لمحے کا تصور کرتا ہوں تو مجھے اپنے پاؤں کے نیچے پانی کی سنگین سخت محسوس ہوتی ہے۔
میں نے کمار گری کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور ہم دونوں ندی کی لہروں پر یوں چل رہے تھے جیسے کسی مدان میں سے گزررہے ہوں۔ دوسرے کنارے پر پہنچ کر گرودیو کمار گری محل کی سیڑھیاں چڑھ کر رامائینی کے محل کے بند دروازے کے آگے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے اپنی گردم میں سے زمرد کی مالا اتار کر اپنے ہاتھ میں پکڑی او ربلند آواز سے کہا
’’رامائینی! ہم تمہارے محل پر اپنے چیلے کو واپس لینے آئے ہیں۔ ہمیں ہمارا بچہ واپس کردو۔ ہم چلے جائیں گے۔ بھگوان تمہارا بھلا کرے گا۔‘‘
میں نے اس سے پہلے گرودیو کمارگری کی آواز میں اتنی گونج کبھی نہیں سنی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑا کرنی والا جوگی تھا۔ اس کی ریاضت، تپسیا اور پاکبازی نے اس کی روح میں ایک زبردست طاقت بھر دی تھی۔ میں سینے پر ہاتھ باندھے اس کے پہلو میں خاموش کھڑا تھا۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور ایک سیاہ چشم، سیاہ گیسوؤں والی دیوداسی نے گرودیو کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اور کہا ’’مہاراج! مالکن نے عرض کی ہے کہ اندر تشریف لے آئیے۔ آپ کی امانت آپ کو مل جائے گی۔‘‘
میرا خیال تھا کہ شاید گرودیو محل کے اندر نہیں جائیں گے کیونکہ رقاصہ رامائینی ان کا خیر مقدم کرنے خود نہیں آئی تھی۔ گرودیو کمارگری کمال خاکساری سے کام لیتے ہوئے مسکرائے اور کہا ’’ہم رامائینی کی خواہش کا پالن کریں گے۔‘‘ انہوں نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اورآہستہ آہستہ قدم اٹھاتے محل میں داخل ہوگئے۔ محل کیا تھا ایک خواب کی دنیا آباد تھی۔ جگہ جگہ عود و عنبر سلگ رہے تھے۔ سنگ مر مر کے دالان میں جگہ جگہ چاندی ایسے فوارے اچھل رہے تھے۔ دیوداسی ہمیں دالان میں سے گزار کر دوسرے بڑے ہال کمرے میں لے گئی۔ اس کی خوبصورتی بھی جنت نظیر تھی۔ قالینوں کا فرش بچھا تھا۔ نازک اندام دیوداسیاں بیٹھی گیندے اور گلاب کے پھولوں کے ہار پر ورہی تھیںَ وسط میں ایک حوض تھا جس میں فوارہ چل رہا تھا۔ ایک طرف صندل کے تخت پر ایک ساہ گھنگریالے بالوں والی حسینہ مغنیہ بیٹھی وچتروینا بجارہی تھی۔ وینا کے دھیمے دھیمے سروں سے مہکتی ہو ئی فضا مزید خواب آلود ہورہی تھی۔ قالین پر گلاب اور گیندے کے پھول بکھرے پڑے تھے۔ شمع دانوں میں صندل کے چراغ روشن تھے۔(جاری ہے )