ذرا نم ہو تو…… مسودات منظور!
منگل کے روز قومی اسمبلی میں پاک افواج کے سربراہان کی سروس سے متعلق تین بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیے گئے، ان میں پاکستان آرمی (ترمیم شدہ) بل 2020ء، پاکستان ایئر فورس بل (ترمیم شدہ) 2020ء اور پاکستان بحریہ (ترمیم شدہ) بل 2020ء شامل ہیں۔ ملک کی تمام بڑی جماعتوں بشمول حکمران جماعت تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے آرمی ایکٹ میں ان ترامیم کے حق میں ووٹ ڈالے۔ ابتدائی طور پر یہ بل قومی اسمبلی کی ڈیفنس کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا تو حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جانب سے اس میں چند ترامیم تجویز کی گئیں۔ پیپلزپارٹی کا موقف تھا کہ سروسز چیفس کی ملازمت میں توسیع کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا بھی کردار ہونا چاہیے۔ ضروری ہے کہ وزیراعظم توسیع دینے سے پہلے کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اس اقدام کی وجوہات بیان کریں، تاہم جب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو وزیر دفاع پرویز خٹک نے اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کی کہ خطے کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپوزیشن قومی مفاد میں یہ تجاویز واپس لے لے اور بل کا پیش کردہ مسودہ اتفاق رائے سے منظور کر لیا جائے۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کی جانب سے اعتراضات واپس لے لیے گئے اور تینوں بل 315 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منظور کر لیے گئے۔ جمعیت علماء اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے ممبران ان بلوں کی منظوری کے خلاف احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ ترمیم شدہ قانون کے مطابق فور سٹار جنرل کی دوبارہ تقرری اور ایکسٹینشن کے لیے عمر کی حد 64سال مقرر کی گئی ہے، بصورت دیگر آفیسر کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 برس ہو گی۔ مزید یہ کہ تینوں سروسز کے سربراہان کی تقرری،توسیع یا دوبارہ تقرری کا اختیار مکمل طور پر وزیراعظم پاکستان کے پاس ہوگا اور اسے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں پہنچ چکے ہیں اور توقع ہے کہ جلد ہی یہاں سے منظوری کے بعد سینیٹ بھی ان پر مہر ثبت کر دے گا اور یہ قانون کی شکل ختیار کر جائیں گے۔
پارلیمان میں اس ایشو پر تینوں بڑی جماعتوں کا ایک پیج پر آجانا ملک کے بیشتر شہریوں کے لیے انتہائی حیران کن تھا۔ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد سے ملک میں افراتفری کی سی کیفیت برپا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران حکومت اور اپوزیشن اکٹھے تو دور کبھی ایک دوسرے سے ٹھیک بات کرتے بھی نظر نہیں آئے۔ اس عرصے کے دوران سیاسی جماعتوں کے درمیان مسلسل دھینگا مشتی کی کیفیت نظر آئی اور مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو زچ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سیاسی میدان میں اس عدم استحکام نے ملکی معیشت کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ وہاں بھی مسلسل غیر یقینی کے بادل چھائے رہے۔ رہی سہی کسر نیب اور دیگر اداروں کی ”چستی“ نے نکال دی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کا یہ نیا ماحول انتہائی خوش آئند ہے۔ اس سے کم از کم یہ پیغام ضرور ملا ہے کہ ملک کی تین بڑی جماعتیں آپس میں مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی اہل ہیں۔ اگر ضرورت پڑے، اور تھوڑی ”حوصلہ افزائی“ کی جائے تو ایک دوسرے کے گریبان چھوڑ کر میز پر اکٹھے بیٹھا جاسکتا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ روایت مستقبل میں بھی برقرار رہے۔ چند روز قبل وفاقی وزیر فواد چودھری نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہی رواداری نیب قوانین میں ترمیم اور ایوان میں دیگر اہم معاملات میں بھی نظر آئے گی۔امید ہے ان کی پیش گوئی درست ثابت ہو گی۔سمجھنے کی بات ہے کہ جمہوریت کا مطلب یہ نہیں کہ جو سیاسی جماعت اقتدار میں آئے، وہ حزب اختلاف کے خاتمے میں جْت جائے یا اس سے بات کرنے سے ہی یکسر انکار کردے۔ جمہوریت کی گاڑی آگے چلانی ہے تو اختلاف رائے کو بھی برداشت کرنا پڑے گا اور حزب اختلاف کو بھی، ورنہ ساری توانائی اور پورے پانچ برس بیکار کی کشمکش میں ہی گزر جائیں گے۔ اْمید ہے جس طرح کے باہمی تعاون کا مظاہرہ اس معاملے میں کیا گیا، معیشت اور خارجہ پالیسی سمیت دیگر معاملات میں بھی کیا جائے گا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر سنگین ترین چیلنجز کا سامنا ہے۔ خطے کے حالات میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور اس کے پاکستانی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر ہم آپس میں ہی الجھے رہے تو پاکستانی قوم کے لیے مستقبل کا نقشہ بے حد بھیانک ہوگا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈال لیں اور ٹھنڈے دل سے اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں۔
غور طلب بات ہے کہ ہمیشہ سے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار روائتی طور پر وزیراعظم کے پاس موجود رہا۔ آج تک اس پر سوال نہ اُٹھایا گیا تھا۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے قریباً تمام ملکوں میں یہی کیفیت ہے۔ جو بھی ملک کا چیف ایگزیکٹو (سربراہ) ہوتا ہے، اہم اداروں کے سربراہان کی تقرری اس کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا تو معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ ایک ٹیکنیکل نکتے پر عدالت نے سوال اُٹھایا اور پھر فیصلہ سنایا کہ پارلیمنٹ قانون واضح کردے۔ عدالتی بحث نے غیر یقینی کی صورت حال پیدا کردی۔ گزشتہ 3 سال کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ حزب اختلاف کی جانب سے اس قانون سازی میں روڑے اٹکائے جائیں گے اور دل کے سارے ارمان پورے کیے جائیں گے۔ تاہم یہ بات قابل تعریف ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر سیاست چمکانے سے گریز کیا، ملکی افواج کو متنازعہ بنانا کسی بھی طرح ملک کے حق میں بہتر نہیں۔ قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے بعد بہت سے تجزیہ کار کچھ مایوسی کا شکار بھی نظر آتے ہیں کہ انہیں جس تماشے کی اْمید تھی، وہ شروع ہی نہ ہو سکا۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے ایسے حامی بھی موجود ہیں جو اس فیصلے پر اپنی قیادت پر غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ان کے لیے سمجھنے کی بات ہے کہ تمام بڑی جماعتوں نے محض آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے وزیراعظم کے پاس موجود اختیار پر مہر لگائی ہے۔ یہ اختیار وزیراعظم کا حق ہے اور ان کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ اس فیصلے سے وزیراعظم کے منصب کا وقار بلند ہوا ہے، اس کا اختیار تسلیم کیا گیا ہے۔