اب نیب آرڈیننس؟
عدالت عظمیٰ کے ایک فاضل جج کی طرف سے یہ ریمارکس دیئے گئے کہ نیب والے پہلے ملزم کو گرفتار کرتے اور اس کے بعد ثبوت ڈھونڈنا شروع کرتے ہیں۔یہ ریمارکس کوئی پہلی بار سامنے نہیں آئے،بلکہ سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج حضرات بھی ایسی آرا کا اظہار کر چکے ہوئے ہیں۔مختلف مقدمات کے حوالے سے اکثر ملزموں کو ضمانت کا حق بھی مل جاتا ہے، ان ریمارکس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نیب کے قانون میں سقم موجود ہیں کہ انکوائری شروع کر کے کسی نتیجے سے پہلے ملزم کو گرفتار کرنے کا حق بھی ہے اور جسمانی ریمانڈ کی مدت90روز ہے۔ نیب کسی بھی ملزم کو نوے روز تک حراست میں رکھ سکتا ہے۔احتساب عدالت کو ضمانت کا حق نہیں اور کسی بھی ملزم کو یہ حق ملا تو اعلیٰ عدالتوں ہی سے ملا۔اس قانون کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو اپنے اپنے دورِ اقتدار میں بھی شکایت رہی،لیکن کوئی بھی اپنے دور میں اس قانون کو تبدیل نہ کر سکی، حالانکہ پیپلزپارٹی کے دور میں ترمیمی بل قائمہ کمیٹی تک چلا گیا،اتفاق رائے نہ ہونے سے وہ لٹکا ہی رہا۔اب تحریک انصاف کی حکومت ہے تو اس کا منشور ہی احتساب ہے۔یہ جماعت نیب کے اختیارات سے مطمئن نظر آتی ہے تاہم بعض سنجیدہ فکر حضرات بے مہار اختیارات کو پسند نہیں کرتے۔مسلح افواج کے سربراہوں کے مسودات قانون کی منظوری سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اب قانون سازی ممکن ہو سکے گی۔فواد چودھری نے نیب آرڈیننس میں ترمیم پر اتفاق رائے کی بھی بات کی ہے، بہتر عمل ہے کہ احتساب کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے نیب آرڈیننس پر بھی ایسے ہی اتفاق رائے سے نظرثانی کر لی جائے۔