بچو ں کیلئے حکیم محمد سعید کے کارنامے مسعود احمد برکاتی یہ مقالہ شہید حکیم محمد سعید کی یاد میں منعقدہ سیمینار، لاہور میں پڑھا گیا۔ گورنر پنجاب لیفٹنیٹ جنرل خالدمہمان خصوصی تھے۔
حکیم محمد سعید(شہید پاکستان)
ایک درویش اور وضع دار انسان
حبیب اشرف صبوحی
حکیم محمد سعید بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ ایک عظیم طبیب، سیاح، ماہرتعلیم، مفکر، منتظم اعلیٰ، سچے پاکستانی اور درویشی صفات کے مالک تھے۔ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ ایسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
میرے والد محترم (اشرف صبوحی) ہمدرد لاہور کے پہلے پبلک ریلیشنز آفیسر شام ہمدرد کے منتظم اعلیٰ تھے۔ 1962 میں ڈاک خانہ کی سروس سے ریٹائر ہونے کے بعد حکیم سعید صاحب کے اصرار پر ہمدرد سے منسلک ہوگئے۔ روح افزا فیکٹری گارڈن ٹاؤن کے منیجر کے طور پر تعینانی ہوئی۔ 1965 میں جب حکیم صاحب نے ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن قائم کیا جس کا مقصد علمی، ادبی، اخلاقی سرگرمیوں کا فروغ تھا تو والد صاحب کی خدمات ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن کے حوالے ہو گئیں۔ کچھ دفتری غلط فہمیوں کی بنا پر والد صاحب کو چار سال تک سالانہ ترقی نہ مل سکی۔ چار سال کے بعد حکیم صاحب کو معلوم ہوا کہ والد صاحب کو چار سال سے ترقی نہیں ملی ہے تو انہوں نے والد صاحب سے پوچھا“صبوحی صاحب چار سال تک آپ کو ترقی نہیں ملی۔ آپ نے اس کا ذکر مجھ سے نہیں کیا اور نہ ہی آپ کی کارکردگی میں فرق آیا۔ کیا آپ کو پیسوں کی ضرورت نہیں؟“۔
”حکیم صاحب! میرے آپ سے دیرینہ تعلقات ہیں“۔ والد صاحب نے کہا، میری نظر کبھی آپ کی جیب پر نہیں رہی بلکہ آپ کے عظیم کارناموں اور فلاحی منصوبوں پر رہی ہے۔ اگر مجھے تنخواہ بھی نہ ملتی تو میں اس کا بھی ذکر نہ کرتا“۔حکیم صاحب نے اس بات کو بہت سراہا اور بات کو اپنے ذہن میں رکھا۔ چند سالوں کے بعد والد صاحب کی بینائی ختم ہوگئی تو انہوں نے اپنا استعفیٰ لکھ کر حکیم صاحب کو بھیج دیا کہ میں آپ کی خدمات کے قابل نہیں رہا۔ اب میں گھر میں آرام کروں گا۔حکیم صاحب نے جواب دیا کہ آپ کا استعفیٰ نامنظور ہے۔ ہم آپ کو ایک اسسٹنٹ دے دیتے ہیں وہ آپ کی رہنمائی کرے گا۔ جو اسسٹنٹ دیا اس کا نام سردار صدیقی تھا۔ یہی صاحب اپنی محنت اور صلاحیتوں سے آج کئی سال سے ریجنل منیجر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
کچھ سالوں کے بعد میرے والد صاحب کی قوت سماعت بھی جواب دے گئی اور میری والدہ صاحبہ جو کراچی میں تھیں فالج کا شکار ہوگئیں اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ ان حالات میں والد صاحب کا لاہور میں رہنا ناگزیر تھا۔ ایک روز ”شام ہمدرد“ کے فنگشن کے بعد والد صاحب نے حکیم صاحب سے کہا کہ پہلے میری بینائی ختم ہوگئی تھی اس کے بعد قوت سماعت بھی جواب دے گئی اور میری اہلیہ کراچی میں شدید علیل ہیں ان حالات میں ”ہمدرد“ کی خدمت سرانجام نہیں دے سکتا اور یہ کہتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا کہ یہ میرا استعفیٰ ہے۔ اس پر حکیم صاحب نے بڑے زور سے ہونہہ کہا اور بولے صبوحی صاحب تمہاری بینائی تو گئی تھی اس کے ساتھ تمہاری عقل بھی گئی ہے۔ اپنا استعفیٰ جیب میں رکھو، استعفیٰ نامنظور ہے تمہاری اتنی خدمات ہیں کہ ہم استعفیٰ منظور نہیں کر سکتے۔
اس کے بعد والد صاحب کراچی چلے گئے۔ اس واقعہ کے بعد پانچ سال تک بقید حیات رہے۔ اس تمام عرصے میں والد صاحب کو باقاعدگی سے ہر ماہ تنخواہ، سالانہ بونس اور سالانہ ترقی ملتی رہی۔ جیسے عام حالات میں ملتی تھی۔ وقتاً فوقتاً حکیم صاحب والد صاحب سے ملنے آتے رہتے تھے اس کے علاوہ ان کی صاحبزادی (سعدیہ راشد صاحبہ) اپنے بچوں کو ساتھ لے کر والد صاحب سے ملنے آتیں۔ بچوں کو بتاتیں کہ یہ ہمارے بزرگ ہیں۔ ان کی کیا کیا خدمات ہیں۔ بچوں کے سروں پر ہاتھ پھرواتیں اور ان کے لیے دعائیں کرواتیں۔ یہ وضع داریاں یہ پرخلوص لوگ اب کہاں ملیں گے؟
حکیم صاحب جب ایئرپورٹ پر پہنچتے تھے اور جب واپس کراچی جاتے تھے تو ان کو لینے اور چھوڑنے کے لیے اس وقت کے زونل منیجر کریم خان صاحب اور میرے والد صاحب جاتے تھے۔ ایک روز حسب معمول حکیم صاحب کو چھوڑنے کے لیے یہ دونوں حضرات ایئرپورٹ پہنچے، حکیم صاحب کو جہاز میں بٹھا دیا اور یہ لوگ واپس آگئے۔ جہاز نے ایک اڑان ہوا میں لی اس کے بعد جہاز کے کیپٹن نے یہ اعلان کیا کہ جہاز میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی ہے جب تک جہاز کی خرابی دور نہیں ہو جاتی یا دوسرے جہاز کا انتظام نہیں ہو جاتا آپ لوگ لاونج میں تشریف رکھیں۔ حکیم صاحب بھی لاونج میں آگئے اور اپنا بیگ کھول کر لکھنے پڑھنے کا کام شروع کر دیا۔ حکیم صاحب ہمیشہ روزہ سے رہتے تھے۔ اتنے میں افطار کا وقت آگیا۔ حکیم صاحب اپنی جیب میں کبھی پرس بھی نہیں رکھتے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنی جیب سے ٹوفی نکالی، اس سے روزہ کھولا اور اس کے بعد پانی پی لیا۔ صبر، شکر اور استقامت کے ساتھ بیٹھے رہے۔ جب جہاز کی فنی خرابی دور ہوگئی تو اس میں سوار ہو کر کراچی گئے اور وہاں جاکر روزہ کھولا، اللہ تعالیٰ نے ان کو دین اور دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہوا تھا لیکن طبیعت انتہائی درجہ کی عاجزی، انکساری اور درویشی تھی۔
ان کی درویشی کا یہ حال تھا کہ جب وہ سندھ کے گورنر بنے تو ایک پیسہ تنخواہ کا نہ لیتے تھے۔ گورنر کے عہدے کی حیثیت سے کوئی پروٹوکول نہیں لیتے تھے۔ سرکاری کام سے جب کبھی لاہور، اسلام آباد اور پشاور وغیرہ جاتے تھے تو کبھی گورنر ہاؤس میں نہیں ٹھہرے۔ ہمیشہ اپنی مقررہ جگہ پر ٹھہرتے تھے۔
ان کے سیکریٹری نے بتایا کہ جب وہ گورنر تھے تو وہ سرکاری فائیں دستخط کے لیے بھیجتے تھے۔ وہ سب فائلوں پر دستخط کر دیتے تھے سوائے ایک فائل کے جو ان کی ذات کے متعلق تھی۔ اس میں لکھا تھا کہ آپ گورنر سندھ ہیں اور یہ آپ کا استحقاق ہے کہ آپ ایک مرسیڈیز بینز گاڑی بغیر کسی ایکسائز ڈیوٹی کے سرکاری خرچ پر منگوا سکتے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں قوم کا پیسہ ضائع نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی مجھے اعلیٰ گاڑی کی ضرورت ہے۔
وہ سچے پاکستانی تھے۔ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ اسلامی طور طریقوں سے محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کے انہوں نے ہمیشہ اچکن اور پاجامہ پہن کر ایک خاص تشخص قائم کیا۔ اپنے ادارے میں حکم دیا کہ دفتری خط و کتابت اردو میں ہو جو آج تک قائم ہے۔ ”کیونکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے“۔ پاکستان 14۔اگست 1947 کو وجود میں آیا تھا لیکن رمضان شریف کی ستائیسویں شب تھی۔ ان کا ایک بات پر زور تھا کہ ستائیسویں روزے کو چھٹی ہونی چاہیے لیکن جب اس پر عمل نہیں ہوا تو انہوں نے اپنے ادارے میں ستائیسویں رمضان کی چھٹی کا اعلان کر دیا۔ ہر سال ہمدرد کے ادارے میں ستائیسویں رمضان المبارک کو چھٹی ہوتی ہے۔
عید البقر عید کو اپنے ملازمین کو عیدی کا سلسلہ شروع کیا جو تاحال عمل میں ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے لیے حکیم صاحب کی ذات ایک مشعلِ راہ ہے۔
کہاں گئے وہ عظیم لوگ جن کی وضع داریاں، درویشی اور عظیم کارنامے بھولے سے نہیں بھلائے جاتے۔ ان عظیم ہستیوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور رہتی دنیا تک اپنا نام چھوڑ گئے۔
9۔جنوری۔ پاکستان میں بچوں کا دن
راو? توفیق احمد
پاکستان کی اہم تاریخوں میں ۳۲۔مارچ اور ۴۱۔اگست کے علاوہ ۹۔نومبر، ۵۲۔دسمبر اور ۹۔جنوری کی تاریخیں سرفہرست ہیں۔ ۳۲۔مارچ کو تشکیل پاکستان کی قرار داد منظور کی گئی، ۴۱۔اگست کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا، ۹۔نومبر کو وہ عظیم شاعر و فلسفی پیدا ہوا جس نے پاکستان کا تصور دیا، ۵۲۔دسمبر کو وہ یگانہ? روزگار شخصیت دنیا میں آئی جس نے تصور اقبال کو حقیقت کا روپ دیا اور ۹۔جنوری کو اس اہل بصیرت حکیم نے اس جہاں میں آنکھ کھولی جس نے پاکستان سے محبت اور اس کی تعمیر کا درس و پیغام دیا۔ جس نے پاکستان کی تعمیر کا صرف راستہ ہی نہیں بتایا بلکہ اس پر چل کر بھی دکھایا، جو اشاعتِ تعلیم اور فروغِ صحت کو ترقی و استحکام پاکستان کی اساسی ضرورت سمجھتاتھااور استحکام پاکستان کی اس بنیادی احتیاج کی تکمیل کے لیے اس نے تن تنہا، اپنے محدود وسائل کے باوجود دامے، درمے،قدمے، سخنے بے شمار کام انجام دیئے۔مطب، کلینکس، فری موبائل ڈسپینسری، ہسپتال، اسکولز، کالجز اور دیگر تعلیمی ادارے بنائے نیز شہر علم و حکمت، مدینۃ الحکمہ، قائم کیا اور طب و صحت اور تعلیم پر قومی اور بین الاقوامی بہت سے سمپوزیم، سیمینارز اور کانفرنسیں منعقد کیں اور اپنی عمر بھر کی کمائی ان کاموں کے لیے وقف کردی۔ مقصد صرف ایک تھا ترقی واستحکام پاکستان۔
جی ہاں! میری مراد شہید پاکستان حکیم محمد سعید سے ہے، ۹۔جنوری جن کا یوم پیدائش ہے جسے حکومت پاکستان نے پاکستان میں ”بچوں کا. دن“ قرار دیا ہے جو شہید پاکستان کے شایانِ شان ہے کہ وہ اس اعزاز کے بجاطور پر مستحق ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بچوں باالفاظ دیگر آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی کے لیے شہید پاکستان حکیم محمد سعید کاکردار اپنی مثال آپ ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ ”میں قوم کے نونہالوں کے لیے ایسا انتظام کروں گا کہ ہماری آئندہ نسل باکردار، اعلیٰ اخلاق کی حامل، حصول تعلیم کی شوقین، جذبہ حب الوطنی سے سرشار اور تخلیق علم کے لیے سرگرداں ہو تاکہ وہ باقی امت مسلمہ کے لیے مثال بنے“۔ اس مقصد کے لیے حکیم صاحب نے ”بزم ہمدرد نونہال“ کا فورم تشکیل دیا، بعد ازاں اسے ”ہمدرد نونہال اسمبلی“ میں تبدیل کر کے کراچی، لاہور، راولپنڈی/ اسلام آباد اور پشاور میں نونہال اسمبلیاں قائم کیں جو ان کے بعد ان کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد کی زیر نگرانی پوری کامیابی سے چل رہی ہیں اور نئی نسل کی کردار سازی اور ذہنی تربیت کا فریضہ بخوبی ادا کر رہی ہیں۔ شہید حکیم محمد سعید چاہتے تھے کہ بچے بڑا بننے کی کوشش کریں۔ ان کا فرمانا تھا کہ ”بچوں کو بڑا بنا دو پاکستان خود بخود بڑا بن جائے گا“۔ قوم کو بڑا بنانے کا آسان لفظوں میں کتنا کارآمد اور قابل ِ عمل نسخہ انہوں نے تجویز کیا اور اس پر عمل پیرا بھی ہوئے۔ ظاہر ہے بچے اسی صورت میں بڑا بن سکتے ہیں جب انہیں اچھی و معیاری تعلیم و تربیت دی جائے اور ان کی صحت و تندرستی کا پورا خیال رکھا جائے۔ حکیم صاحب کے اس نسخے پر اگر قومی و حکومتی سطح پر عملدرآمد کیا جائے تو ایک یا دو نسلوں کے بعد پاکستانی قوم ترقیافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے کے قابل ہوسکتی ہے۔
حکیم صاحب کو ”نونہالوں اور نوجوانوں“ سے جو گہری محبت تھی اس کا سب اعتراف کرتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا محور بنا لیا تھا۔ ان کا تخلیق کردہ بچوں کا فورم ”ہمدرد نونہال اسمبلی“ دنیا میں یکتا و منفرد فورم ہے جو بچوں میں حب الوطنی اور عقل و دانش کے حصول کا جذبہ اور خود اعتمادی کا جوہر پیدا کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔
WRITEN BY Prof. Dr. Malahat Kaleem Shewani
Director Bailt al Hikmah (Libbrary)
Madinat al Hikmah, Hamdard University,Harachi
جب 1947میں پاکستان کے وجو د میں آنے کے بعدحکیم محمد سعید شہید نے ہجرت کی تو ان کے مختصر سامان میں سب سے قیمتی چیز تین سو کتابیں تھیں، جو ہمدرد دہلی سے ساتھ لیکر چلے تھے زیادہ تر کتبِ مشرقی اور اسلامیات کے موضوعات پر مبنی تھیں۔ حکیم صاحب کا علم و کتب کے ساتھ بڑا گہرا تعلق تھا۔ ان کے سادہ طرز زندگی میں سامان آسائش کی تو جگہ نہیں تھی لیکن کتابوں سے انکا عشق انتہا کو پہونچا ہوا تھا جب بہت آسودہ حال نہیں تھے تب بھی جو کتاب پسند آجاتی تو ہر ضرورت پر ترجیح دیکر اسے خرید لیتے، اورجب اللہ نے صدقے دل سے کی گئی محنت کے صلے سے نوازا تو اپنے مشن کی تکمیل کے لئے دنیا کے جس ملک میں بھی گئے کتب ہی خرید کے لائے آپکی؎ جوہر شناس نظریں فٹ پاتھ پر پڑے ردی کے ڈھیر میں سے
نادر و نایاب کتب اور قلمی نسخہ جات تلا ش کر لیتی تھیں۔ بیت ا لحکمت میں محفوظ شہ نا مۂ فردوسی اسکی مثال ہے۔جب ہمدرد میں کتب خانہ قائم کیا تو پچھترہزار(۷۵۰۰۰) ذاتی کتابوں کا زخیرہ علم کے متلاشی افراد کے لئے اس کتب خانے کو عطیہ کردیا۔ حکیم صاحب کی محبت اور لگن کا دائر ہ کتاب تک محدود نہیں تھابلکہ آپکا دردمند دل علم کے فروغ اور معاشرے کے محروم طبقے میں تعلیم کے مواقع بہم پہونچانے کے لئے بے چین تھا۔ اس آرزو کی تکمیل مدینتہ الحکمتہ یعنی علم کاشہر کے قیام سے ہوئی، خلیفہ ہارون رشید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیت الحکمتہ قائم کیا جو اپنی نوعیت کے کتب خانوں میں اپنے زخیرۂ کتب خاص طور پر قدیم و نایاب کتب اور قلمی نسخوں کی بدولت انتہائی منفرد مقام اور علمی شہرت کی حامل ہے۔ طب، مشرقی علوم،مذہب، تاریخ اورتحریک آزادی پر تحقیق کرنے والوں کے لئے حکیم صاحب کا زخیرۂ کتب مستند حوالہ جات کا سب سے با اعتبار مرکز ہے۔ جو کتب حکیم صاحب ہجرت کے وقت زاد راہ کے طور پر ساتھ لائے ان میں فارسی کی پچاس کتابیں، عربی کی اکیس اور اردو کی دوسو سے زائد کتابیں تھیں، انکی زندگی میں انکی تعداد تقریبا دو لاکھ تک پہونچ گئی تھی، آج کتب کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور خدمات کے اعتبار سے اسکا شمار پاکستان کے ہی نہیں بلکہ ایشیا کے بڑے کتب خانوں میں ہوتا ہے،
حکیم سعید ایسے ہی تھے
(مرزا مرتضیٰ بیگ)
بلاک این، نارتھ ناظم آباد، کراچی
3فروری 2014 کے جسارت میں ”جہاں تازہ“ کی ونڈو اسکرین میں ”عہد سعید“ پر نظر پڑی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب نے مجھے بھی یادوں کی دنیا میں پہنچا دیا۔ میں پی آئی ڈی سی کے ادارے میں ملازم تھا۔ غالباً 1968 کا دور تھا۔ اسی زمانے میں پی آی ڈی سی اسٹاف یونین کا جنرل سیکریٹری منتخب ہوا۔ مختار مسعود ان دنوں پی آئی ڈی سی کے چیئرمین تھے۔ ان سے پہلی تعارفی ملاقات ہوئی۔ باتوں کے دوران ملازمین کے مطالبات کا معاملہ آیا اور اس کے لیے آئندہ تاریخ مقرر کر دی گئی، اسی دوران راقم نے عرض کیا مطالبات تو ہوتے ہی رہیں گے لیکن صحت کے مسئلے میں اگر آپ (یعنی مختار مسعود صاحب) اجازت دیں تو کچھ عرض کروں۔ انہوں نے حسب عادت مسکراتے ہوئے اور ضرور ضرور کہتے ہوئے اجازت دے دی۔ میں نے عرض کیا! ہمارے ادارے میں علاج کا ماشاء اللہ بہت معقول انتظام ہے اور علاج کے لیے میڈیکل سینٹر بھی کھلا ہوا ہے لیکن مجھ سمیت بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کو ایلوپیتھی علاج راس نہیں آتا اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے میڈیکل سینٹر میں ایک مستند حکیم کو بھی مقرر کیا جائے کہ مختار مسعود صاحب ہمارے اس مطالبے پر راضی ہوگئے اور مجھے ایک خط جناب حکیم سعید صاحب کے نام دیا کہ میں خود انہیں پہنچا دوں اور یہ تھا میرا ذریعہ ملاقات ان کے ساتھ۔ مجھے یاد ہے پہلی مرتبہ کسی سرکاری اور نیم سرکاری ادارے نے ”یونانی علاج“ کی طرف رخ کیا تو یہ پی آئی ڈی سی کا ادارہ تھا اور حکیم سعید صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب نے جس طرح دل و جان کے ساتھ خلوص بھرے لفظوں کے پیکر میں حکیم محمد سعید صاحب کے متعلق لکھا واقعی وہ اسی طرح تھے۔ حکیم محمد سعید صاحب سے دوسری ملاقات پاکستان مشین ٹولز فیکٹری کی افتتاحی تقریب کے موقع پر ہوئی۔ اس صنعتی ادارے کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ وہ پاکستان کو ہر قدم ترقی کی طرف گامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ بات حکیم محمد سعید کے نہیں بلکہ پاکستان کے دشمنوں کو پسند نہ آئی اور انہوں نے چمن کے اس دیدہ ور کو چھین لیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کے خلوص بھرے الفاظ کے پھولوں کی چادر عہد سعید کی لحد پر دعاؤں کے ساتھ اللہ اس نیک دل محب وطن کی مغفرت کرے۔ آمین
٭ ٭ ٭