امریکہ نے اسلامی ممالک کی خودمختاری پر حملہ کیا،علامہ نیاز
لاہور(لیڈی رپورٹر)علامہ نیاز نقوی علامہ عبدالخالق اسدی،ِعلامہ سبطین سبزواریِ علامہ حسن رضا ہمدانی،مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان عارف حسین الجانی، علامہ توقیر عباس و دیگر نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انبیا کی سرزمین عراق میں نئے سال کے پہلے جمعہ کی صبح امریکہ نے دہشتگردانہ حملے میں نہ صرف دو اسلامی ممالک کی خود مختاری پر حملہ کیا بلکہ مسلمہ بین الاقوامی قوانین کو بھی پامال کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور کمانڈر ابو مہدی المہندس جیسے مجاہدوں کی شہادت فقط ایران و عراق کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان سمیت پورے عالم ِ اسلام سے متعلق ہے۔
اس سانحہ کا ایک قابل ِ ذکر نکتہ عراقی وزیر اعظم کا بیان ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی ایران، سعودی تعلقات کی بہتری کیلئے ایک اہم پیغام لے کرآئے تھے
۔عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے فتنہ کے خلاف امام ِ کعبہ سمیت عالم ِ اسلام کے تمام مفتیان ِ کرام فتوی دے چکے ہیں کیونکہ یہ تنظیم انبیا کرام،اہلبیت عظام، صحابہ کرام اور بزرگان ِ دین کے مزارات کے منہدم کرنے کے علاوہ بے گناہ مسلمانوں کو زندہ جلانے اور انسانی کھالیں اتارنے جیسے بہیمانہ جرائم کی مرتکب تھی۔عراق اور شام کے مزارات ان کا پہلا ہدف تھے جوکہ تمام مسالک کے نزدیک اسلامی مقدسات اور عظیم دینی و تہذیبی ورثہ ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی نے الہی بصیرت اور شجاعت سے اِس فتنہ کا مقابلہ کیا جودرحقیقت ''اسلامی عسکری اتحاد''کے فرائض میں شامل تھا۔پاکستان میں داعش کے نفوذ کی شروعات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔اگر شام و عراق میں جنرل سلیمانی کی قیادت میں مجاہدین ان کا راستہ نہ روکتے تو پاکستان بھی بے گناہوں کے مقتل کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا۔جنرل سلیمانی کا دوسرا بڑا کارنامہ اور امریکہ کے نزدیک سنگین جرم چند سال قبل لبنان اور اسرائیل کی33روزہ جنگ ہے جس میں جنرل سلیمانی کی حکمت ِ عملی سے اسرائیل کو شکست فاش ہوئی۔لاکھوں عراقیوں کی جنازے میں شرکت، عراقی پارلیمنٹ میں جنرل قاسم کی حمایت،حماس راہنما کی تہران جنازے میں شرکت اور شہید کی خدمات کے اعتراف سے ان کی عظمت واضح ہوتی ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم نے بھی اسرائیل کو نجس وجود قرار دیا تھا۔اس تناظر میں جنرل قاسم سلیمانی پاکستان سمیت پورے عالمِ اسلام کے ہیرو ہیں اور امریکہ نے اسی بنا پر انتقام لیا،یہ دہشتگردی پورے عالم ِ اسلام کے خلاف ہے۔ترکی، چین،روس و دیگر ممالک نے اس کی مذمت کی مگر افسوس کہ ہماری حکومت نے مذمت کا ایک لفظ تک نہیں کہا۔ اگر اسلامی ممالک اس فرمان ِ نبویﷺ کا پاس رکھتے کہ امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرح ہے، ایک عضو کا دکھ پورے جسم کا دکھ ہے تو افغانستان، عراق، فلسطین،نائجیریا، لیبیا،یمن، روہنگیا، کشمیر اور ہندوستان میں بے گناہوں کا اس طرح قتل ِ عام نہ ہوتا۔اتنے بڑے سانحہ پر او۔آئی۔سی کا مجرمانہ سکوت کوئی نئی بات نہیں۔ نئے حالات میں ہماری حکومت کو قومی خود مختاری کی بنیاد پرتمام ممالک کے ساتھ متوازن خارجہ پالیسی اپنانا چاہیے تھی لیکن 6جنوری کو پارلیمنٹ میں ہمارے وزیر خارجہ کا مقف مایوس کن ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ اس میں انہوں نے ظالم و مظلوم کے فرق کو ختم کر دیاجبکہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے۔قرآن و حدیث میں ''غیر جانبداری ''کا کوئی تصور اور گنجائش نہیں ہے۔حق اور مظلوم کا ساتھ دینے اور باطل اور ظالم کا مقابلہ کرنے کا واضح حکم ہے۔ماضی کے تلخ تجربات، بڑھتے ہوئے امریکی نفوذ و دہشتگردی کے تناظر میں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت، مقتدر قوتیں دو ٹوک انداز میں امریکی دہشتگردی کی مذمت کریں۔عراقی پارلیمنٹ کا امریکی افواج کے اخراج کا فیصلہ ہماری خارجہ پالیسی کیلئے ممد و معاون ہے۔بحمد للہ! ایٹمی قوت کا حامل پاکستان قائدانہ کردار کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا اقوام ِ متحدہ میں خطاب اور'' کوالا لمپور سمِٹ ''کی تجویزکے بعدکنارہ کشی،ترک صدر کے چشم کشا انکشافات، ہماری قومی مختاری کے آگے سوالیہ نشان ہیں۔ماضی میں امریکی ڈکٹیشن اور پراکسی وار کے بھیانک نتائج ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں جس میں افواج ِ پاکستان اورشہریوں کی 70ہزار کے قریب قیمتی جانیں شکار ہوئیں۔مذکورہ سانحہ کی مذمت، پاکستان پر ممکنہ دباؤ کے پیش نظر استحکام پاکستان کیلئے قومی یکجہتی کی ضرورت،کشمیر پر مظالم کے بعد بھارت کی اسلام دشمنی کی نئی محاذ آرائی پر احتجاج کیلئے ہم چند پروگراموں کا اعلان کرتے ہیں۔انشا اللہ کل جمعہ کو مساجد میں تعزیتی پروگرام اور علامتی مظاہرے ہوں گے۔ اتوار 12 جنوری دن 2بجے اسمبلی ہال تا امریکی قونصلیٹ ایک پرامن بھرپور،احتجاجی ''مردہ باد امریکہ ریلی'' نکالی جائے گی جس میں تمام سیاسی،دینی و مذہبی جماعتیں، تنظیمیں، سول سوسائٹی بھرپور شرکت کریں گی۔اس سانحہ کے شہدا کا چہلم بڑے پیمانے پر لاہور میں منایا جائے گا۔