قاسم سلیمانی کے بعد اسماعیل قانی قدس فورس کے نئے چیف مقرر لیکن وہ دراصل کون ہیں؟ وہ تمام باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں
تہران (ویب ڈیسک)قاسم سلیمانی کے بعد اسماعیل قانی قدس فورس کے نئے چیف مقرر کیے گئے ہیں۔قدس فورس ایران کی سکیورٹی فورسز پاسداران انقلاب کی وہ شاخ ہے جس کے پاس ایران سے باہر فوجی آپریشن کرنے کی ذمہ داری ہے۔ اسے 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے موقع پر تشکیل دیا گیا تھا تاکہ ملک کے اسلامی نظام کی حفاظت کی جاسکے۔63 سالہ اسماعیل قانی ملک کے مقدس شہر مشہد میں پیدا ہوئے تھے جو اس کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ ایران کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے اور اسے شیعہ مسلمانوں کی زیارت کے لیے ایک اہم مقام قرار دیا جاتا ہے۔
بی بی سی اردو کے مطابق قاسم سلیمانی کی طرح اسماعیل قانی نے بھی 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی خونی جنگِ ایران و عراق میں حصہ لیا تھا۔ اس جنگ نے ایران کی نئی حکومت کو اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کا مخالف بنا دیا تھا۔اسماعیل قانی کے مطابق جنگ کی مشکلات نے جنرل قاسم سلیمانی سے ان کی دوستی مزید مضبوط بنا دی تھی۔ ایرانی میڈیا پر نشر ہونے والے ان کے بیان کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’ہم جنگ میں پلنے والے بچے ہیں۔‘جنگ کے بعد انھوں نے قدس فورس میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور انھیں خراسان کے صوبے میں تعینات کیا گیا تھا جو افغانستان اور ترکمانستان کی سرحد پر واقع ہے۔
ان کی سرگرمیوں کے بارے میں محدود معلومات موجود ہیں لیکن یہ سمجھا جاتا ہے کہ قاسم سلیمانی مغرب کی جانب اپنا دھیان مرکوز رکھتے تھے جبکہ اسماعیل قانی مشرق میں ایران کی ترجیحات کی دیکھ بھال کرتے تھے، جیسے منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام اور طالبان سے جھڑپوں میں افغانستان کے ناردرن الائنس کی مدد کرنا۔اطلاعات کے مطابق فورس میں اسماعیل قانی کا کردار روزمرہ کے انتظامی امور سنبھالنا تھا۔ادارے میں ان کے اونچے ر±تبے کی بدولت امریکہ نے ان پر سنہ 2012 کے دوران پابندی عائد کی تھی۔ امریکہ کے مطابق یہ پابندی اس لیے عائد کی گئی کیونکہ وہ دنیا بھر میں قدس فورس کے آپریشنز پر کام کر رہے تھے۔قاسم سلیمانی مشرق وسطیٰ میں ایران کے ریاستی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے کام کرتے تھے۔ دوسری طرف انھوں نے شام، عراق، لبنان اور یمن میں متحرک کردار ادا کیا۔
اسماعیل قانی کے لیے بڑا چیلنج اپنے پیشرو کے اثر و رسوخ کے برابر آنا ہوگا۔ان سے پہلے قدس فورس کی سربراہی کرنے والے قاسم سلیمانی کو ایران کے ہیرو کا درجہ حاصل ہے جبکہ ملک میں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے بعد انھیں سب سے طاقتور شخصیت سمجھا جاتا تھا۔سلیمانی کی ہلاکت کے فوراً بعد انھوں نے ایران کے سربراہان کی جانب سے ردعمل کا وعدہ کیا تھا۔سرکاری ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’خدا نے سلیمانی کی شہادت کے بدلے کا وعدہ کیا ہے۔ یقیناً اس کے خلاف اقدامات کیے جائیں گے۔‘
ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے قانی کو قاسم سلیمانی کا جانشین قرار دیتے ہوئے کہا کہ قدس فورس ’بغیر کسی تبدیلی کے کام کرے گی۔‘جہاں ایک طرف قدس فورس کے نئے چیف کے بارے میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا وہ سلیمانی کے اثر و رسوخ کی برابری کر پائیں گے یا نہیں تو وہیں تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب لوگوں کی انفرادی حیثیت کے مقابلے بحیثیت ادارہ زیادہ طاقت ور ہے۔واشنگٹن میں عرب گلف سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ سے منسلک علی الفونہ لکھتے ہیں کہ: ’یہ امید لگانا مشکل ہے کہ بیوروکریٹ کے طور پر کام کرنے والے قانی اپنے پیشرو کی متاثر کن قیادت کی برابری کر سکیں گیں۔‘
’اس کے باوجود یہ ظاہر ہے کہ قدس فورس کی بذات خود ایک اداراہ جاتی قوت کی بدولت قانی اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔‘افشوں استوار ایرانی پاسداران انقلاب پر ایک کتاب کے مصنف اور امریکہ میں نیول پوسٹ گریجویٹ سکول کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ: ’قانی فوراً نئے منصوبوں پر کام شروع کر دیں گے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’تجزیہ کاروں کے خیالات کے برعکس ایرانی پاسداران انقلاب فرد واحد پر اتنا انحصار نہیں کرتی۔۔۔ سلیمانی کی ہلاکت سے اثرات برپا ہوں گے لیکن اس سے ایران کے علاقائی آپریشنز اور نیٹ ورک پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ماسوائے بدلے (کے اقدامات) کے۔‘