مقروض منطق
سرکار نے2012ء میں پرائمری کی سطح سے انگریزی زبان کو لازمی ذریعہ تعلیم کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب ایجوکیشن ریفارمز پروگرام میں اس موضوع پر کئی مجالس کا انعقاد ہوا۔ مالی امدادی ادارے اُن مجالس میں شامل رہے۔ مجھے ذمہ داری سونپی گئی کہ میں ایک امدادی ادارے کی خاتون رُکن کو چند سکول دکھاؤں اور ضلع کے سب سے بڑے تعلیمی اَفسر کے ساتھ ملاقات کراؤں۔ اس مقصد کے لئے ضلع شیخوپورہ کا انتخاب ہوا۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسراور راقم الحروف نے اُس خاتون کی سکول اور انتظامی تعلیمی دفتر تک آسان رسائی میں معاونت کی۔دورانِ سفر، انگریزخاتون نے بڑی بے چینی کے ساتھ ایک چُبھتا ہوا سوال کیا۔ ”آپ لوگوں کی اُردو زبان واَدب کا بھنڈارا بہت وسیع اور زرخیز ہے جہاں میر، غالب، اقبال، فیض اور دیگر عالمی سطح کے مقتدر اَدبی نام آسمانِ سُخن کے دَمکتے ستارے ہیں۔میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا لینے کے بعد آپ کے اُردو اَدب کا کیا بنے گا؟آپ کی ان خوبصورت اور عظیم ادبی شخصیات کو کون یاد رکھے گا؟ یہ فیصلہ کرتے وقت آپ کی نظر اس طرف کیوں نہیں جا رہی؟“
انگریز خاتون کے تاثرات بھرے سوال نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ ایک غیر زبان خاتون، دوسری زبان کے اَدب کی توقیر اور بقاء کے فلسفے کو کتنی گیرائی سے سمجھ رہی تھی۔اور اس کے متوقّع زوال سے پریشان تھی۔ مجھے چونکہ سرکاری بیانیے کا تحفظ کرنا تھا لہٰذا میرے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انگریزی زبان جوکہ بین الاقوامی زبان ہے، اس پر دسترس ہمارے طلباوطالبات کے لئے ملکی اور بین الملکی سطح پر حصولِ روزگار اور اپنی شناخت کرانے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔
ملکی اوربین الملکی تعلیمی آب و ہوا نے ہمارے ذہنوں میں اِس یقین کو پختہ کر دیا ہے کہ کامیاب اور بَاعزّت”تعلیمی حَیات“ اور حصولِ روزگار انگریزی زبان پر دسترس کے بغیر ناممکن ہے۔ اِس”مقروض منطق“ نے جہاں ہماری عقلی، سماجی اور معاشی اقدار کو پراگندہ کیا ہے، وہاں قومی اور مادری زبانوں کوبہت بری طرح شکست و ریخت سے دوچار کیا ہے۔
آج جب ہم تعلیمی منظر پر نظر دوڑاتے ہیں تو انگریزخاتون کا سوال ذہن میں گُونجنے لگتا ہے۔ ماضی میں تمام نصاب قومی اور صوبائی زبانوں میں ہوتا تھا۔ پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے طلبا و طالبات کو متعلقہ زبان کے دستور و رموز کے علاوہ اس میں تحریر و تقریر پرمہارت حاصل ہو جاتی تھی۔ چھٹی جماعت سے انگریزی کا بطورِلازمی مضمون کے آغاز ہوتا تھا۔ دسویں جماعت تک بَھلے انگریزی زبان میں بول چال پر طلباوطالبات کو ملکہ حاصل نہیں ہوتا تھا، تاہم وہ انگریزی زبان کے رموز و قوائد اور تحریر کے اصولوں کو ازبر کر چکے ہوتے تھے، اور اسی قابلیت کی بنیاد پر پیشہ ورانہ زندگی میں انہیں کہیں بھی کسی معاملے میں دِقّت پیش نہیں آتی تھی۔ اُس دور میں اُردو مضمون کے دسویں جماعت تک لازمی ہونے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا تھاکہ طلباوطالبات کو عربی اور فارسی زبان سیکھنے میں قدرے آسانی رہتی تھی۔چونکہ اُردو،عربی اور فارسی زبانوں میں بہت سارا ذخیرہ الفاظ مشترک ہے، لہٰذا قرآنِ پاک کا ناظرہ سیکھنابھی بہت سہل لگتا تھا۔مزیدبرآں مادری زبان، اس کا ذخیرہ الفاظ، اور روزمرہ کے اکھان و محاورات اُردو کی زرخیزی کو دو چند کر دیتے تھے۔ جب سے تنہا انگریزی زبان کو کامیابی کی کُنجی سمجھا جانے لگا ہے،عربی اور فارسی تو کُجا، اُردو اور مادری زبانیں بھی بدیسی لگنے لگی ہیں۔
اگرہم تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کریں تو سب سے اوپر اشرافیہ کے تعلیمی ادارے آتے ہیں۔ جہاں طلباوطالبات کو کچھ اورپڑھایا جاتا ہو یا نہیں، انگریزی زبان کو تعلیمی اِیمان کے رُکنِ اوّل کے طور پرسکھایا جاتا ہے۔ دوسرے درجے میں اُن تعلیمی اداروں کا شمار ہوتا ہے جہاں سفید پوش طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم دِلاتا ہے۔ تیسرے درجے میں گلی محلّوں کے سکول آتے ہیں،جہاں پر واجبی سی تعلیم رکھنے والے بے روزگار خواتین و حضرات کی خدمات بطوراتالیق کوڑیوں کے بھاؤلی جاتی ہیں، اور اس کے ساتھ ہی تیسرے درجے میں سرکاری سکول بھی شامل ہیں، جہاں کے اساتذہ اپنے بچوں کو اپنے سکولوں میں پڑھانے سے گریزاں ہیں۔ گلی محلے کے نجی سکولوں اور سرکاری سکولوں میں معاشی طور پر مفلوک الحال والدین کے بچے”زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں“۔پہلے درجے کے تعلیمی اداروں کے طلباوطالبات کو مادری اور قومی زبان سے ”آموختہ عداوت“ ہے۔ باقی کے تمام تعلیمی اداروں کے طلباو طالبات کی انگریزی پر دسترس کا حال یہ ہے کہ پرائمری کی سطح سے انگریزی ذریعہ تعلیم ہونے کے باوجودوہ ہر مضمون رَٹّاکی مدد سے تیار کرتے ہیں۔انگریزی بول چال کانہ اُن کے اساتذہ کوشغف ہے اورنہ وہ طلباوطالبات کو مائل کرتے ہیں۔ اُردو پر توجّہ اس لیے نہیں دی جاتی کہ یہ محض ایک لازمی مضمون رہ جاتا ہے۔ نتیجتاًآج دسویں کلاس کے بچوں کوکلاس اوّل کی اُردو کی کتاب سے املاء لکھوا لی جائے تو لِکھنے والے اور لِکھوانے والے کو شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ رہ گئی بات مادری زبان کی، تواُس کو بولنے سے والدین اپنے بچوں کو خود ہی پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔گھرمیں اگر بچے مادری زبان بالخصوص پنجابی بولتے ہیں تو والدین کو اُن سے بدتہذیبی کی بُو آتی ہے۔ لہٰذا وہ اُنہیں اُردو اور انگریزی بولنے کی تبلیغ و تاکید کرتے رہتے ہیں۔
ہر زبان اپنی تہذیب وثقافت،بولنے والوں کے اخلاق ومزاج کی مَہک سے لَدِی ہوتی ہے۔ آج معاشرے میں بچوں،نوجوانوں اور بڑوں کے اخلاق اور مزاجوں میں شدت اور زمینی حقائق سے عدم مطابقت اُردو اورمادری زبان، بالخصوص پنجابی، سے گریزکی وجہ سے ہے۔ہمارا رہن سہن، شادیوں اور دیگرخوشیوں کے مواقع پر انگریزی طرزِنمائش اور روّیوں کا اظہار، انگریزی زبان و تعلیم سے جنونیّت کی حدتک لگاؤکی جھلکا رہے۔ ہماری”مقروض منطق“ کے سبب آج نہ ہمیں اُردو اور پنجابی پڑھنا لکھنا آتی ہے اور نہ ہی انگریزی زبان پر خاطر خواہ دسترس حاصل ہے۔آج زبانوں کے اعتبار سے ہماری حالت ”نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم“ والی ہے۔سننے میں آرہا ہے کہ سرکاری سطح پردوبارہ سے اردو کو بطورِ ذریعہ تعلیم اختیار کیا جائے گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔