گیس کا بحران، حل کیا ہے!

 گیس کا بحران، حل کیا ہے!
 گیس کا بحران، حل کیا ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اس وقت پاکستان میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے جہاں عوام تنگ ہیں،وہیں صنعت کاربھی تکلیف میں ہیں۔ پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو کھانا پکانے کے لئے گیس دستیاب نہیں۔ متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی گیس اور لکڑیاں بھی مہنگی ہوچکی ہیں۔جبکہ صنعتکار جن کے پاس ایکسپورٹ آرڈر ہیں،وہ مہنگے فیول کی وجہ سے اوپن ما رکیٹ میں مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے۔مہنگے داموں دستیاب متبادل توانائی کی وجہ سے صنعتکاروں نے اپنی ملیں بند کر دی ہیں۔
پاکستان کے تمام شہروں میں گیس نایاب ہے۔ حماد اظہر صاحب صبح کے ناشتے،دوپہر اور شام کے کھانے پر گیس دینے کا وعدہ بھی پورا نہیں کرسکے۔ گیس کو بجلی کی پیداوار کو جاری رکھنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ عوام کی حالت یہ ہے کہ خواتین چولہے اور سلنڈر لے کرگھروں سے نکل آئی ہیں اور سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں۔وہ پوچھتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے ڈی چوک کے دعوے اوروعدے کہاں گئے؟ان کے سابقہ حکومتوں پر لگائے گئے الزامات کہاں ہیں؟ زمینی حقائق کا حکومتی دعووں سے کوئی تعلق نہیں۔گیس سستی ہونا تو درکنار، دستیاب بھی نہیں۔ جب کہ گیس کے بل پہلے سے زیادہ آ رہے ہیں۔ اس وقت عوام جن شہری مسائل سے دوچار ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ شاید شہری مسائل کے حوالے سے عوام نے اتنی بے بسی اور تنگدستی پہلے کبھی نہیں دیکھی، جس کرب سے عوام اس وقت گذر رہے ہیں۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے احتجاج بھی کئے ہیں۔ 
پاکستان ان حالات سے نبرد آزما کیوں ہوا؟ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یہ ساری نااہلی حکومتی وزراء کی ہے خصوصاً وزیر توانائی حماد اظہر کی نا فہمی اور ناتجربہ کاری کے ساتھ معاملات کو ڈیل کرنے کی صلاحیت بھی گیس بحران کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ مہنگائی ہے جو حکومت  کے کنٹرول میں نہیں آ رہی ہے۔اور تبدیلی کے جھوٹے دعوے اوربلند بانگ وعدے کرنے والی’تبدیلی سرکار‘ اب’مہنگائی سرکار‘ کی پہچان رکھتی ہے۔  
 اس سلسلے میں،ہم حکومت کو ان مشکل حالات سے نکلنے کے لیے چند تجاویز دیتے ہیں، جن پر عمل کر لیا جائے تو پاکستان کی مشکلات کم ہوسکتی ہیں اور بچت بھی ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے قطر سے ایل این جی کا 14 ڈالر کے حساب سے سودا کیا ہوا تھا اورسال رواں جنوری سے مئی تک چار کارگو کی پہلے سے بکنگ موجود ہے اور وہ پاکستان کی ملکیت ہیں، انہیں آنا ہی ہے۔

صرف ہم ہی نہیں اس وقت یورپ اور انگلینڈ میں بھی گیس کی قلت ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں گیس کے نرخ 34ڈالر سے اوپر جا چکے ہیں۔ اگر پاکستان کی حکومت نے 14 ڈالر ایل این جی کاقطر کے ساتھ معاہدہ کیا ہے تواس پر اوپن مارکیٹ میں ٹینڈر کال کریں توdue date تک آجائیں گے۔جبکہ موجود ذخائر کو اوپن مارکیٹ میں بیچا جائے تو میرا خیال ہے کہ قطر حکومت کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس سے تقریباً 100 ملین ڈالرز پاکستان کما سکتا ہے، کیونکہ پاکستان کے پاس فرنس آئل اتنی زیادہ تعدا د میں موجود ہے کہ اسے سٹور کرنے کی مزید گنجائش نہیں ہے۔حکومت کو چاہیے کہ ایل این جی کی بجائے فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیداکرنے والے پلانٹس کو چلایا جائے جس سے بجلی کی قیمت بھی کم ہو جائے گی۔ اس سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا اور 100 ملین ڈالرز کی بچت بغیر کسی پیشگی ضمانت کے پاکستان کو مل جائے گی۔ 
ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جس کا افتتاح،پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں کیا گیا تھا،  آنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے امریکی خوف کی وجہ سے اس پر کام جاری نہیں رکھا،جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں،اس نے تو اس منصوبے پر پیش رفت کیا کبھی کوئی بات بھی نہیں کی۔ہمارا خیال ہے کہ حکومت زیر التوا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بحال کرے تو پاکستان کی ملکی ضروریات اچھے طریقے سے پوری ہو سکتی ہیں۔اور حکومت کو عوام سے ملنے والی بددعائیں، دعاوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -