مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:3
پیش لفظ
ریل گاڑی، اس کے دیو ہیکل سیاہ انجن اور اس کی آزردہ سی سیٹی سے میرا عشق قدیم اور بھر پور ہے۔ شاید تاریخ کی کتابوں میں دفن محبتوں کے مارے ہوئے عشاق سے بھی زیادہ۔ یہ عشق گو کچی عمر کا تھا مگر کچا ہرگز نہیں تھا کیوں کہ بعد ازاں یہ پکا ہو کر ساری زندگی میرے ساتھ ہی چلتا رہا ہے۔
جب میں نے لکھنا پڑھنا اور بعد میں سمجھنا بھی شروع کر دیا تو تب بھی یہ پیارمیرے ساتھ ہی چپکا رہا۔اور عملی زندگی کا آغازہوتے ہی یہ بھی محبت کی ساری حدیں پھلانگ کر ذہن میں آ کر ایسا پھنسا کہ نکل ہی نہ سکا۔ سوچا اس پر کچھ لکھ دوں کہ یہ میری جان پر ایک قرض ہے۔کل کو لوگ آ ئیں گے اور پوچھیں گے کہ یہ قصہ کیا ہے تو کیا بتاوْں گا۔لیکن غم دوراں اورغم جاناں نے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ میں اس پر قلم اٹھا سکتا۔
قسامِ رزق نے ایک طویل عرصہ وطن سے دور رکھ کر در در کی خاک چھنوائی - ملکوں ملکوں گھوما، تب بھی میں اسے نہیں بھلا پایا۔ دیارِ غیر میں بھی میری پہلی کوشش یہی رہی تھی کہ سفر جہازوں کے بجائے ریل گاڑی سے ہی طے کیا جائے۔ پھرایسا ہی ہوا کہ جہاں بھی موقع ملا میں ائیر پورٹ سے نکل کر اسٹیشن کی طرف چلا آیا اور پھردوڑ کر ریل کے ڈبے میں جا چڑھا، حتیٰ کہ تمام یورپ،کچھ امریکہ اور کینیڈاکے ساتھ ساتھ مصر کی سرسبز وادی نیل اور سعودی عرب کے صحراوْں کوبھی اْنھی آہنی پٹریوں پرسفر کرتے ہوئے گزارا۔
اور اب جب کہ میں عملی زندگی سے فراغت پا کر گوشۂ عافیت میں آن بیٹھا تھا تو یکلخت دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس فرصت کو کام میں لاتی ہوئےکئی دہائیوں پر محیط اپنی محبت کا یہ قرض چْکا دیا جائے۔ ارادہ نیک تھا، یہ خیال سیدھا جا کر دل میں پیوست ہوا اورریل کے سفر کی کئی بھولی بسری یادیں ذہن سے میں عود کرآئیں۔ سوچا اتنی سی تو بات ہے، ان کو صفحۂ قرطاس پر اتارنے میں وقت ہی کتنا لگے گا۔ گاڑی کے سفر کی کچھ داستانیں سناوْں گا۔ چَھک چھَک کرتے ہوئے اپنے چہیتے اسٹیم انجن کی پھنکاراوراس کی اداس کر دینے والی سیٹیوں کے چند قصے بیان ہوں گے اور پھرڈبوں میں بیٹھے مسافروں کے عارضی پیار و محبت کی داستانیں اورباہمی بحث وتکرارکی کہانیاں۔غرض جب یہ سب کچھ اس میں شامل ہو جائے گا تو بس، کتاب مکمل۔مگریہ میری محض خام خیالی تھی۔ ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں تھا۔اور جب دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس منصوبے پر کام شروع کیا تو ہکا بکا رہ گیا- اس حقیقت کا ادراک ہو ا کہ بات اتنی سادہ بھی نہیں تھی جتنا میں نے سمجھ لیا تھا۔یہاں تو ایک مکمل جہان آباد تھا - چیختے، دہاڑتے اور پھنکارتے ہوئے رنگ برنگے انجن، ان کی کان پھاڑ دینے والی سیٹیاں اور وسل، بھانت بھانت کی گاڑیاں اور ڈبے، اسٹیشنوں اور پلیٹ فارم پر دوڑتے بھاگتے کچھ سرکاری اور غیر سرکاری کردار۔ اطلاعی گھنٹیاں، ہٹو بچو کی صدائیں۔ غرض ہر طرف ایک ہا ہا کار مچی ہوئی تھی جس کو گھیر گھار کر تحریر کے احاطے میں لانا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر لمحے بھر کو تو میں ٹھٹھکا اور کوئی بہانہ گھڑ کے اس منصوبے کو بیچ میں ہی چھوڑ کرراہ فرار اختیار کرنے کا سوچا۔ لیکن پھرحضرتِ دل نے خشمگیں نگاہوں سے گھورا تو لوٹ آیا اور کام کا آغاز کر دیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔