دوستی کہانی
دو مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے باوجود پاک چین دوستی اس امر کی مظہر اور عملی ثبوت ہے کہ پاکستان کے عوام و خواص کی اکثریت مذہبی انتہا پسندی کی قائل نہیں، وگرنہ دونوں ممالک کے مابین باہمی اعتماد اور خلوص کا یہ عالم نہ ہوتا۔ وزیر اعظم نواز شریف کےورہ¿ چین کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے پاک چین تعلقات دنیا بھر میں مثالی نوعیت اختیار کر چکے ہیں اور ان دوستانہ تعلقات کو نہ تو بدلتے ہوئے موسم متاثر کر سکے اور نہ ہی داخلی و علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں اس مثالی دوستی پر اثر انداز ہو سکیں۔ گویا یہ دوستی ”نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں“ والا معاملہ ہے۔ تبھی تو چین کے سابق صدر ہوجن تاﺅ نے چند سال قبل اپنے دورہ¿ اسلام آباد کے دوران کہا تھا کہ ”پاک چین دوستی نہ صرف یہ کہ سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے، بلکہ یہ شہد سے زیادہ میٹھی بھی ہے“۔ 21 تا 22 مئی 2013ءکو اپنے دورہ¿ پاکستان کے دوران چینی وزیراعظم نے اس مثالی دوستی کا ذکر کرتے ہوئے مزید اضافہ کیا، جب انہوں نے اسے ”سونے“ سے زیادہ قیمتی اثاثہ قرار دیا۔
ایسے میں توقع کی جانی چاہئے کہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ¿ چین سے اس باہمی دوستی کو مزید تقویت حاصل ہو گی، جس کے اثرات سے دونوں ملکوں کے عوام ہر سطح پر مستفید ہوں گے۔ اتفاق سے مجھے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ 18 تا 25 مئی 2013ءکو چین جانے کا موقع ملا۔ چین کے دانشوروں کی اکثریت گیارہ مئی کے انتخابات اور ان کے نتائج کے حوالے سے انتہائی مخلصانہ اور پُرجوش جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ (China Institute of Contemprorry International Relations) بیجنگ میں واقع تحقیقی مرکز، جسے عرف عام میں سی آئی سی آئی آر کہا جاتا ہے،یہی ادارہ اس دورے میں ہمارا میزبان بھی تھا۔ اس کے نائب سربراہ ینگ منگجی ہیں، انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے وطن ِ عزیز کو در پیش داخلی و علاقائی اور عالمی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی۔
اگلے روز انسٹیٹیوٹ آف ورلڈ اکنامکس اینڈ پالیٹکس کے سربراہ یانگ یوان اور ساتھیوں کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے ضمن میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ چین کے تعلقات پارٹنر شپ والے ہیں، جبکہ پاکستان کے ساتھ اچھے اور سچے دوست کا رشتہ ہے۔ پارٹنر شپ میں تعلق کا ہدف محض باہمی مفادات اور کاروباری بنیادوں پر مبنی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے باہمی اعتماد کا خاصا فقدان ہوتا ہے، جبکہ پاک چین دوستی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے۔ شنگھائی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر یانگ نے بہت واضح الفاظ میں اپنے چار پی ایچ ڈی ساتھیوں سے کہا کہ ”نسبتاً جوان ہونے کے سبب شائد چین کی نئی نسل کے علم میں نہ ہو کہ چین کو عالمی سطح پر موجودہ مقام دلانے میں پاکستان کا کتنا بڑا کردار ہے“۔
اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا: ”ایک وقت تھا جب چین بیرونی دنیا سے بڑی حد تک کٹا ہوا تھا، ایسے میں محض 2 پروازیں اسے بیرونی دُنیا سے جوڑتی تھیں۔ ایک بیجنگ سے ماسکو اور دوسری شنگھائی سے کراچی اور یہ دونوں پروازیں پاکستانی ایئر لائن پی آئی اے کی تھیں۔ سرد جنگ کے دوران اور بعد میں پاکستان نے چینی تحفظات کا ہمیشہ دھیان رکھا ہے۔ علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے دورہ¿ چین میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کر کے گویا بین الاقوامی دنیا میں چین کو اس کا اصل مقام دلایا۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں چین کو مستقل نشست دلانے میں پاکستان کا کردار ناقابل فراموش ہے،جس کا ادراک چین کے تجزیہ کار طبقات کو تو ہے، مگر نسبتاً نوجوان نسل اس سے بے بہرہ ہے، حالانکہ پاکستان کے ابتدائی 20 سال میں پاکستان کی اقتصادی صورت حال چین اور اکثر جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔ چین کے کئی دانشور آپس میں ذکر کرتے ہیں کہ ابتدائی برسوں میں اگر پاکستان کی تقلید میں نیا دارالحکومت تعمیر کر لیا جاتا تو آج بیجنگ کو معاشرتی ا ور ٹریفک کے مسائل در پیش نہ ہوتے۔
ڈاکٹر یانگ اپنے دلائل بڑے مضبوط اور موثر ڈھنگ سے پیش کر رہے تھے۔ اکثر چینی دانشور اس موقف کے پُر زور حامی نظر آئے کہ پاکستان کے مسائل کا واحد حل اقتصادیات کو بہتر بنانے میں مضمر ہے اور نئی پاکستانی قیادت میںاس کی اہلیت اور صلاحیت موجود ہے۔ اس کا ماضی کا ریکارڈ بھی نسبتاً اچھا ہے۔ ایسے میں اگر سیاسی استحکام اور خلوص نیت (جو نظر بھی آئے) کا مظاہرہ ہو تو انشا اللہ ملک بہت جلد خوشحالی اور ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے۔ چینی ماہرین کی رائے تھی کہ توانائی کا بحران دور کرنے میں چین پاکستان کی بہت مدد کر سکتا ہے۔ خصوصاً شمسی توانائی کے قلیل المدتی منصوبوں کے ذریعے۔ ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اس مفروضے میں کوئی حقیقت نہیں کہ شمسی توانائی منصوبوں پر بہت ہی زیادہ لاگت آتی ہے۔
یہ امر بھی خاصا اہم ہے کہ ”گوادر“ کی ترقی کے حوالے سے اکثر چینی دانشور انتہائی مخلص تھے،ان کا مو¿قف تھا کہ گوادر کی ترقی اور پاک چین اقتصادی اور انرجی کوریڈور کے قیام سے پاکستان معاشی، اقتصادی اور معاشرتی سطح پر اس قدر خوشحال اور اہم ہو سکتا ہے، جس کا ابھی شائد تصور بھی محال ہے۔ اسی پس منظر میں ہمارے محترم ساتھی ڈاکٹر نور الحق نے گوادر کی ترقی کو مثبت خواب ”پازیٹو ڈریم“ قرار دیا۔ ایسے میں یہ توقع بجاہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے دورے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اعتماد اور خلوص کی نئی بلندیوں کو چھوئیں گے، جس کے عملی فوائد عام آدمی تک جلد منتقل ہوں گے ۔ ٭