صدام حسین سے نفرت کرنے والا شخص جس نے ہتھوڑی سے خود 2003ءمیں امریکی فوج کی آمد پر صدام حسین کا مجسمہ توڑا، آج امریکہ اور صدام کے بار میں کیا کہتا ہے؟ جان کر ہر مسلمان گہری سوچ میں ڈوب جائے گا
بغداد (نیوز ڈیسک) جب 2003 ءمیں امریکی افواج عراق کی خودمختاری کو پامال کرتے ہوئے بغداد میں داخل ہوئیں تو صدر صدام حسین سے نفرت کرنے والے عراقی شہری بھی آزادی کا جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ انہیں افراد میں ایک انتہائی مشتعل شخص خادم حسن الجبوری بھی تھا جو بغداد شہر کے وسط میں نصب صدام حسین کے پرشکوہ مجسمے پر ہتھوڑا لیکر ٹوٹ پڑا اور اس منظر کی تصاویر عالمی میڈیا کی زینت بنیں، مگر صدام حسین سے اظہار نفرت کیلئے اس کے مجسمے کو ہتھوڑے سے پاش پاش کرنے والا خادم حسن الجبوری آج یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ صدام حسین کے دور کا عراق آج کے تباہ حال عراق سے کہیں بہتر تھا۔ یہ شخص آج یہ مطالبہ بھی کر رہا ہے کہ عراق کو برباد کرنے والے جارج ڈبلیو پش اور ٹونی بلیئر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
مزیدپڑھیں:خاتون نے اپنے شوہر کے خلاف ایسا مقدمہ دائر کردیا جو آج تک کسی بیوی نے نہ کیا ہوگا، نئی تاریخ رقم کردی، ساتھ ہی لالچ کی بھی انتہا کردی
اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق خادم حسین نے یہ بات چلکوٹ رپورٹ کے سامنے آنے پر کہی ہے ، جس میں سابق برطانوی سول سرونٹ جان چلکوٹ نے عراق پر امریکا کی چڑھائی اور اس جنگ میں برطانوی کردار کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس رپورٹ کا شدت سے انتظار کیا جارہا تھا اور اب اس کے مندرجات دنیا بھر کے میڈیا میں گونج رہے ہیں ، جن کے مطابق امریکا نے سراسر جھوٹ کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا اور برطانیہ نے بھی اخلاقیات اور بین الاقوامی قانون کی پامالی کرتے ہوئے اس کا ساتھ دیا۔
خادم حسین الجبوری نے 9 اپریل 2003 کو صدام حسین کے اقتدار اور طاقت کی علامت مجسمے پر ہتھوڑے برسائے ، جس کے بعد امریکی افواج نے اسے کرین کی مدد سے زمین بوس کر دیا۔ اس واقعہ کے 13 سال بعدخادم حسین الجبور ی نے اپنے ملک کی حالت زار پر آنسو بہاتے ہوئے کہا ”میں اس مجسمے پر ہتھوڑے برسانے پر پچھتا رہا ہوں۔ کاش صدام حسین لوٹ آئے۔ اس نے میرے خاندان کے بہت سے افراد کو ہلاک کیا تھا لیکن پھر بھی وہ ان سیاست دانوں اور ملاﺅں سے بہتر تھا کہ جنہوں نے آج عراق کو اس حال کو پہنچا دیا ہے۔ ٹونی بلیئر اور جارج ڈبلیو بش پر مقدمہ چلنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے جھوٹ کے ساتھ عراق کو برباد کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ عراق کے پاس ہلاکت خیز ہتھیار نہ تھے۔ “