ون ویلنگ۔۔۔ عیدالفطر پر اموات اور حادثات!
عیدالفطر کے مبارک تہوار پر ایسے پانچ گھرانے بھی ہیں، جن کی خوشیاں لٹ گئیں اور ان کے جوان بچے اس روز اللہ کو پیارے ہو گئے اور ان کو سہرے باندھنے کی جگہ کہیں پہلے سپرد خاک کرنا پڑا، ان نوجوان بچوں کو کسی بیماری یا قاتلانہ حملے نے ہلاک نہیں کیا، ان سب نے اپنی موت خود خریدی، یہ پانچ نوجوان لڑکے جن میں اکثریت طالب علموں کی ہے، عید کے پُرمسرت موقع پر موٹر سائیکلوں پر ون ویلنگ کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہو کر اللہ کو پیارے ہوئے۔ یہ افسوسناک واقعہ ہے۔ اب تک شاید اس تعداد میں اضافہ ہو چکا ہو کہ نوجوان سڑکوں پر کرتب دکھانے کے شوق میں باز نہیں آتے، پولیس نے بھی ممکن حد تک کارروائی کی، پشاور سے اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد، لاہور کے علاوہ ملتان اور دوسرے شہروں میں بھی ون ویلنگ کرنے والوں کو گرفت میں لیا گیا، سینکڑوں موٹر سائیکلیں بند کی گئیں اس کے باوجود تین دن اور راتوں تک نوجوان اپنی ان حرکتوں سے باز نہیں آئے۔ان حادثوں کا یہی پہلو المناک ہے کہ یہ نوجوان شہر کی ہر اس سڑک پر کرتب دکھاتے پھرتے ہیں جو ذرا طویل اور سیدھی بنی ہو، یہ ٹولیوں کی شکل میں بھی ریس لگاتے اور ون ویلنگ کرتے ہیں۔ عید کی رات کو ہم نے وحدت روڈ، کینال روڈ، فیروز پور روڈ، گلبرگ اور ڈیفنس کی سڑکوں پر نوجوانوں کی ٹولیاں دیکھیں جو ایک دوسرے سے مقابلہ بھی کر رہے تھے۔ان نوجوان لوگوں کی سڑکوں پر ایسی حرکتوں کی وجہ سے گاڑیوں کے بھی کئی حادثات ہوتے ہیں یا تو یہ ٹکراتے یا پھرگاڑی والے ان کو بچاتے بچاتے اپنا نقصان کر لیتے ہیں، پولیس کوشش کے باوجود اس وبا پر قابو نہیں پا سکی اور یہ نوجوان حادثات کے باعث اموات کی خبروں کے باوجود ان حرکات سے باز نہیں آتے۔ سوچنا تو یہ بھی ہو گا کہ کیا ان بچوں کے والدین کو اسی وقت علم ہوتا ہے جب افسوسناک حادثہ ہو جائے یا پھر بچہ پولیس کی گرفت میں آئے، یہ سلسلہ روکنے کے لئے والدین کو بھی اپنا فرض ادا کرنا ہو گا اور ممکن حد تک بچوں کو سمجھانے کے علاوہ ان کو موٹر سائیکل لے کر نکلنے سے روکنا ہو گا۔
یہ خطرناک رجحان بھی وبا کی طرح پھیلا ہے اور اسے روکنے کے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے جس میں پولیس کے ساتھ ساتھ خود والدین کو دھیان اور فکر کرنا ہو گی اور اسی ہم آہنگی سے ایسے کھیلوں میں کمی ممکن ہے۔پھر یہ بھی اب لازمی ہے کہ ایسی اموات کی زیادہ تشہیر کی(اگرچہ ہم ضابطہ اخلاق کے حوالے سے خلاف ہیں) جائے کہ والدین اور نوجوانوں کو خطرے کا احساس ہو۔