چِلکوٹ رپورٹ کے آئینے میں!
میں ہمیشہ برطانیہ کو امریکہ کا دُم چھلا سمجھتا اور لکھتا آیا ہوں۔ اس کی وجہ انگریز قوم کی وہ عیاری ہے جس کی مثال کسی کٹر سے کٹر یہودی کے ہاں بھی مشکل سے ملے گی۔ تاریخ کے جھروکے سے دیکھیں تو دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر برطانیہ دنیا کی واحد سپرپاور تھی لیکن جب اس جنگ کا اختتام ہوا تو جو کچھ برطانیہ کے پاس بچ گیاتھا، وہ ایک تیسرے درجے کی قوت کے برابر بھی نہیں تھا۔۔۔سارا یورپ ملبے کا ڈھیر بنا پڑا تھا۔ اگر انگلش چینل کی آبی دیوار بیچ میں حائل نہ ہوتی یا ہٹلر، روس پر حملہ نہ کرتا تو نہ برطانیہ باقی بچتا اور نہ 1944ء کے موسم گرما میں لندن میں بیٹھ کر اتحادی فورسز، فرانس کے ساحل پر اترنے کی تیاریاں کرتیں اور نہ جرمنی کو شکست ہوتی۔جنگ کے بعد جس ایک قوت نے یورپ کی از سر نو تعمیر کی اور اسے پاؤں پر کھڑا کیا اس کا نام امریکہ تھا۔ امریکہ ہی نے برطانیہ کو جوہری قوت بنایا اور اپنی جدید ترین وار ٹیکنالوجی اسے ٹرانسفر کی۔ جنگ کے فوراً بعد امریکہ کو یورپ میں روس کا مقابلہ کرنے اور یہاں امریکی افواج کے قیام و طعام کا بندوبست کرنے کے لئے ایک مِنی امریکہ درکار تھا۔ چنانچہ برطانیہ نے یہ رول ادا کیا اور امریکہ کا ’’دُم چھلا‘‘ بن گیا۔۔۔1945ء سے لے کر آج تک کسی برطانوی جمہوری وزیراعظم نے صدر امریکہ کے حضور سر جھکانے سے کبھی انکار نہیں کیا۔۔۔ یہ موضوع زیادہ پھیل جائے گا، اس لئے ’’برسرِ مطلب می آئیم‘‘!
ستمبر 2001ء میں جب نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا اور امریکہ نے افغانستان پر لشکر کشی کر دی تو برطانیہ، ناٹو کے رکن کے لبادے میں دل و جان سے امریکہ کے ساتھ مل گیا۔ برطانوی پبلک لاکھ اپنے تحٰظات کا اظہار کرتی رہی لیکن اربابِ اختیار نے وہی کیا جو امریکہ نے چاہا تھا۔پھر نجانے امریکہ کے جارج ڈبلیو بش کو کیا خواب آیا کہ اس نے منادی کرنا شروع کر دی کہ عراق کے پاس ایٹم بم اور دوسرے خطرناک کیمیکل ہتھیار موجود ہیں۔ برطانیہ کی MI 6ا ور امریکہ کی CIA نے بھی اپنے صدر کو یقین دلایا کہ صدام کے پاس واقعی ہمہ گیر تباہی والے درجنوں ہتھیار (Weapons) موجود ہیں۔ بش نے یہ نہ سوچا کہ اس کے اپنے اسلحہ خانہ میں درجنوں نہیں ہزاروں جوہری بم موجود ہیں۔ لیکن ان کی سوچ تھی کہ جس طرح ہم نے پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑا اور وہ ایک جوہری قوت بن گیا ہے تو کل کلاں عراق بھی ایسا ہی کرے گا۔۔۔ لیکن پاکستان میں تو امریکی Stakes جتنے کم تھے عراق میں اتنے ہی زیادہ تھے کیونکہ عراق، مشرق وسطیٰ میں واقع تھا اور تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سعودی عرب اور ایران کے بعد اس کا تیسرا نمبر تھا۔ ۔۔۔ پاکستان کے پاس کیا تھا؟۔۔۔ ٹُھن ٹُھن گوپال؟۔۔۔امریکہ نے سوچا کہ اگر صدام حسین کے ہاتھ واقعی جوہری بم آ گئے تو اس نے جس طرح 1990ء میں کویت پر حملہ کرکے آن کی آن میں اس پر قبضہ کر لیا تھا، اسی طرح وہ سعودی عرب پر بھی جا پڑے گا۔۔۔ پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کے درمیان یہی فرق، زمین و آسمان کا فرق بن گیا تھا۔ علاوہ ازیں عرب ممالک، امریکی اور یورپی ہتھیاروں کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی تھے۔ وہ افرنگی سال بھر کا تیل لے جا کر چند جنگی طیارے، چند ٹینک اور چند توپیں عربوں کو دے کر لیجروں میں اپنا بیلنس نِل (Nil) کروا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ عراق پر حملہ کرکے وہاں سے ہمہ گیر تباہی والے ہتھیار (WMD) حاصل کرنے کے لئے صدربش، اپنے ٹریڈ سنٹر پر حملہ کی پلاننگ کرنے والوں کی جائے قیام (افغانستان) کو پسِ پشت ڈال کر، عراق پر چڑھ دوڑے اور برطانیہ کے دُم چھلا وزیراعظم ٹونی بلیئر نے ان کا فی الفور ساتھ دیا۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت نام ہے عوامی حکومت کا۔۔۔ یہ عوام کے لئے ہوتی ہے اور عوام ہی اسے چلاتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ مقولہ کذب بیانی کا ایک بہت بڑا پلندہ بھی ہے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کیا تھا:
دیوِ استبداد، جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
جونہی جارج بش نے اپنا وارفوکس افغانستان سے ہٹا کر عراق پر مرکوز کیا، ٹونی بلیئر نے آمنّا کہہ کر برٹش افواج کو بغداد پر حملہ آور ہونے کا حکم دے دیا۔ برطانوی عوام حیران و پریشان تھے۔ ٹونی کے خلاف جلسے کئے گئے، جلوس نکالے گئے، لندن اور دوسرے برطانوی شہروں میں لیلی ء جمہوریت کے لاکھوں پرستار سڑکوں پر نکل آئے، دھرنے دیئے اور تقریروں کے پل باندھ دیئے۔ لیکن ٹونی صاحب نے کہا کہ یہ تمام احتجاجات جمہوری طرزِ حکومت میں عوام کا حق ہوتے ہیں لیکن میرے یہ عوام، مجھے اپنے آقا کی غلامی سے نہیں روک سکتے کہ میرا یہ جمہوری حق ہے۔ چنانچہ عوام مخالف سیلاب کے باوجود برطانوی ٹروپس، عراقی میدانوں، فضاؤں اور پانیوں میں کود گئے۔ عراق کی یہ جنگ مارچ / اپریل 2003ء میں شروع ہوئی اور 6برس کے بعد امریکہ اور اس کے دُم چھلاؤں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے غلط سوراخ میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ صدام حسین کو پھانسی دے کر جشن تو منایا گیا لیکن اسی تختہ دار کے نیچے صدام کے پرستاروں کی محبتوں کا الاؤ جل رہا تھا جو وقتی طور پر تو دبا رہا لیکن جونہی امریکی اور دوسری کولیشن فورسز بغداد سے باہر نکلیں، یہ الاؤ، شعلہ ء جوالہ بن کر باہر نکل آیا۔۔۔ اسی کا نام داعش (ISIL،ISISیاIS) ہے۔ آج یہی داعش، مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ایک تباہ کن عامل (Catalyst)کی طرح پھیل گئی ہے اور اس کی رسائی بنگلہ دیش اور انڈونیشیا تک دیکھی جا سکتی ہے۔
ٹونی جب 10ڈاؤننگ سٹریٹ سے رخصت ہوئے تو برطانوی عوام کے جذبات جو عراق وار کے دوران سلگ رہے تھے وہ برطانوی ٹروپس کی لاشیں دیکھ دیکھ کر شعلوں میں تبدیل ہونے لگے۔ عراقی جنگ میں ویسے تو صرف 179 برطانوی ٹروپس ہلاک ہوئے تھے لیکن انگریز زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ زخمی کسی بھی جنگ میں، ہلاک شدگان سے زیادہ ہوتے ہیں۔ مثلاً افغانستان کی جنگ میں ویسے تو 454برطانوی ٹروپس ہلاک ہوئے۔لیکن 2116برطانوی فیلڈ ہسپتالوں میں ،4529 ساکن ہسپتالوں میں،293 شدید زخمی حالت میں ،298 شدید بیماری کے عالم میں اور 6603 افغانستان سے برطانوی ہسپتالوں میں منتقل کئے گئے۔ (یہ تعداد انٹرنیٹ پر جا کر کنفرم کی جا سکتی ہے)۔ ان مرنے اور عمر بھر کے لئے معذور ہونے والوں کے ماتم گساروں میں ان کے وہ عزیز واقارب بھی شامل تھے جو عراقی جنگ کے مخالف تھے اور 2003ء میں سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ ان کے جذبات دیکھ کر حکومت نے عوامی اشک شوئی کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کی سربراہی ایک ریٹائرڈ برطانوی بیورو کریٹ کو سونپی گئی جن کا نام سر جان چِلکوٹ (John Chilkot) ہے۔ یہ رپورٹ، ’’چِلکوٹ انکوائری رپورٹ‘‘ کہلاتی ہے اور ابھی تین روز پہلے (6جولائی 2016ء کو) منظر عام پر لائی گئی ہے۔ یہ رپورٹ برطانوی جمہوری روایات کا گویا ماتم کدہ ہے۔۔۔ اس کے جستہ جستہ نکات درجِ ذیل ہیں:
1۔ ٹونی بلیئر نے اپنی افواج ایک ایسی جنگ میں جھونکیں جس کی منصوبہ بندی (Planning) اور تکمیل (Execution) دونوں غلط تھیں۔
2۔برطانیہ نے امریکی قیادت میں اس عراقی وار میں شرکت کرنے سے پہلے کسی بھی دوسری اور متبادل آپشن پر غور نہ کیا اور اندھا دھند امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
3۔ٹونی بلیئر نے امریکی صدر کو ایک خفیہ ذاتی مراسلے میں لکھا: ’’حضور! صورتِ حال جو بھی ہو،میں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘۔
4۔2009ء میں جب برٹش ٹروپس اس جنگ سے واپس آئے تو ان میں سے 179ہلاک ہو چکے تھے اور ہزاروں زخمی اور اپاہج تھے۔
5۔اس وقت سے لے کر آج تک پورا عراق دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔
اس انکوائری رپورٹ کی اشاعت کے بعد اب ٹونی بلیئر نے عوام سے معافیاں مانگنا شروع کر دی ہیں لیکن وہ مائیں اور بہنیں جن کے بیٹے اور بھائی اس جنگ میں کام آئے وہ احتجاج کررہی ہیں کہ ٹونی بلیئر کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور اس کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے۔ یوں تو برطانوی انصاف، ضرب المثل کی حد تک مشہور سمجھا جاتا ہے، لیکن دیکھتے ہیں ٹونی بلیئر کے ساتھ بھی کوئی ’’انصاف‘‘ ہوتا ہے یا نہیں۔
یہ انکوائری جب 2009ء کو شروع کی گئی تھی تو اس کے چیئرمین جان چِلکوٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں تمام مطلوبہ ریکارڈ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی جائے اور اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ میں جس شخص یا گروہ یا ادارے سے پوچھ گچھ کرنا چاہوں، وہاں تک فی الفور رسائی دی جائے گی۔
یہ ایک ضخیم اور مبسوط انکوائری دستاویز ہے جو 26لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے۔( اگر ایک سطر میں 20الفاظ ہوں اور ایک صفحے میں 30سطریں ہوں تو فی صفحہ 600الفاظ کے حساب سے 26لاکھ الفاظ کے 4334 صفحات بنتے ہیں۔۔۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ رپورٹ مرتب کرنے میں سات آٹھ برس کیوں لگے)
جب سے یہ ’’چِلکوٹ رپورٹ‘‘ منظر عام پر آئی ہے، نہ صرف یہ کہ برطانیہ اور امریکہ کی ملی بھگت کی قلعی کھلنی شروع ہوگئی ہے بلکہ مبصروں کا یہ خیال بھی ہے کہ اس رپورٹ نے ناٹو کی شکست و ریخت کے فلڈ گیٹ بھی کھول دیئے ہیں۔ چونکہ افغانستان، لیبیا، شام اور یمن کی جنگیں بھی عراقی جنگ کی ہم عصر ہیں، اس لئے ان جنگوں کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں بھی تبصرے شروع ہو چکے ہیں۔ افغانستان کی جنگ کی لپیٹ میں ہمارا پاکستان بھی آیا اور ہم ابھی تک بھی اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ لیکن اس بربادی اور تباہی کا اصل بانی اور موجد امریکہ ہے۔ دیکھتے ہیں وہاں بھی کوئی سرجان چِلکوٹ پیدا ہوتا ہے یا نہیں۔
اس رپورٹ کی تفصیلات کے پردوں میں مجھے افغانستان میں موجود 8400امریکی ٹروپس کے قیام کے امکانات بھی معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں!