صحت کے شعبے کی ترقی و اصلاحات

صحت کے شعبے کی ترقی و اصلاحات
صحت کے شعبے کی ترقی و اصلاحات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈسٹرکٹ و تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹر کی کمی کو پورا کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے خصوصی پے پیکج متعارف کروایا جس کے تحت DHQہسپتال میں کام کرنے والے سپیشلسٹ کو فاصلے کے اعتبار سے 20ہزارروپے سے لیکر 1لاکھ روپے تک اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کام کرنے والے سپیشلسٹ کو 65ہزار روپے سے لیکر 150000روپے تک ماہانہ اضافی تنخواہ دی جارہی ہے جس کا سالانہ خرچ 1415.280ملین روپے ہے ۔ اسی طرح ڈاکٹرز کے ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس میں بھی نمایاں اضافہ کیا گیا ۔ ڈاکٹروں کے نان پریکٹسنگ الاؤنس کی مد میں حکومت تقریباً 600ملین سالانہ خرچ کر رہی ہے ۔ اسی طرح DHQ،THQ،RHCاور BHUمیں فرائض سر انجام دینے والے گریڈ 17کے ڈاکٹرز کوتقریباً 19000اورگریڈ 19کے ڈاکٹر کو 13000روپے تک اضافی الاؤنس دیا جارہا ہے۔ہاؤس آفیسرز کا ماہانہ وظیفہ 24000 سے بڑھا کر 31020 روپے اور پی جی ٹرینی کو 42500 سے بڑھا کر 55900 روپے ماہانہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعلی پنجاب نے دونوں محکموں کے ترقیاتی بجٹ میں 2016-17 کیلئے 43فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہے گزشتہ سال دونوں محکمے اکٹھے تھے تو محکمہ کا ترقیاتی بجٹ تقریبا30ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر مجموعی طور پر 43ارب87کروڑ روپے ہو گیا ہے اس میں سیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کیلئے 24ارب50کروڑ روپے جبکہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر 18ارب روپے رکھے ہیں ۔نئے مالی سال میں حکومت صحت کے شعبہ میں مجموعی طور پر 207ارب روپے خرچ کرے گی جبکہ 2015-16کے بجٹ میں صحت کا کل بجٹ (صوبائی اور ضلعی) 166.13ارب روپے تھا ۔

میو ہسپتال کے سرجیکل ٹاور کو 2016-17میں مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کیلئے 785.820ملین روپے رکھے گئے ہیں یہ منصوبہ انشاء اللہ نئے مالی سال میں مکمل کر لیا جائے گا جس سے میو ہسپتال میں آنے والے مریضوں کو سہولیات میں نمایاں اضافہ ہو گا ۔شیخ زید میڈیکل کالج رحیم یار خان کے منصوبے کی تکمیل کیلئے بھی 256ملین روپے مختص کئے گئے ہیں ۔مری میں 100بستروں پر مشتمل ماں بچہ کے ہسپتال کیلئے 250ملین روپے مختص کئے گئے ہیں ۔حکومت نے سرکاری ہسپتالوں میں غریب مریضوں کو ادویات کی مفت فراہمی کیلئے 13.604ارب کی خطیر رقم مختص کی ہے اور گردے کے مریضوں کو ڈائلاسسز کی سہولیات کی فراہمی کیلئے 60کروڑ روپے اور نئے موبائل یونٹ خریدنے کیلئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔مزید براں ہسپتالوں کے بستروں ،چادری اور ایکسرے ۔۔۔کی خریداری کیلئے بھی 2ارب سے زائد رقم مختص کی گئی ہے ۔مشینری اور طبی آلات کی مرمت وغیر ہ کیلئے540.941ملین زائد رقم مہیا کی جائے گی ۔ہسپتالوں کی عمارتوں کی ریپئرنگ کیلئے231ملین روپے فراہم کئے جائیں گئے ۔بیماریوں کی روک تھام کیلئے صاف پانی کا عمل دخل ہے ۔اگر عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا ہو جائے تو درجنوں بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہے خصوصی چھوٹے بچوں کو بہت سے موذی امراض سے بچایا جا سکتا ہے ۔حکومت نے اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کو صاف پانی کی فراہمی کیلئے 30ارب روپے کی سکمیں شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے ۔سپشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر کے ملازمین کو تنخواہیں اور الاؤنس کی مد میں 40ارب روپے خرچ ہوں گے ۔محکمہ صحت کے دونوں ونگز کے زیر انتظام آنے واے میڈیکل کالجز ،بڑے اور چھوٹے ہسپتالوں اور طبی مراکز اور بیماریوں سے روک تھام کے شعبہ جات میں بڑی پیمانے پر اصلاحات کا عمل پہلے سے ہی شروع ہو چکا ہے حکومت نے صحت کے شعبہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بھر پور استعمال کی منصوبہ بندی کر لی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں مرحلہ وار بائیو میٹرک حاضری کے ساتھ ساتھ ادویات اور دیگر اشیاء کی انونٹری ،سٹاک کی جانچ پڑتال اور ہر قسم کے سٹاک کا ڈیٹا بیس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کرنا شروع کر دیا ہے جس سے تمام معاملات شفاف اور میرٹ کے مطابق چلانے میں مدد ملے گی اور ادویات میں خوردبرد کی شکایات کا بھی ازالہ ہو گا ۔


حکومت نے محکمہ سپیشلائزڈہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں جو اصلاحات شروع کی ہیں اس میں ایک نمایاں کام پوسٹ گریجوایٹ ٹرینی ڈاکٹرز کی آن لائن انڈ کشن کے لئے پوری دنیا میں مروجہ پی جی انڈکشن پالیسی کی طرز پر ’’ پنجاب ریزیڈنسی پروگرام‘‘ متعارف کروایا جارہا ہے۔نئی پالیسی انتہائی شفاف اور میرٹ پر مبنی ہے جس میں پنجاب سیکرٹریٹ کا کسی بھی طرح کا عمل دخل نہیں ہو گا ۔ درخواست جمع کروانے سے لے کر تعیناتی کے آرڈر جاری ہونے تک کسی بھی مرحلہ پر کسی بھی ڈاکٹر کو سیکرٹریٹ تو دور کسی یونیورسٹی میں بھی جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ تمام تر نظام خود کار اور آئی ٹی پرمشتمل ہوگا اور فائنل میرٹ بنانے سے پہلے جمع کرائے گئے تمام کاغذات کی پیشگی تصدیق کروائی جائے گی اور تمام لسٹیں اور میرٹ تک ہر درخواست گزار کی رسائی ہوگی اور کسی بھی وقت کسی خلاف ورزی یا گڑ بڑ کے خلاف اپیل کی جاسکے گی ۔ تما م میڈیکل کالجز کے سربراہان پورے عمل کی براہ راست مانیٹرنگ کریں گے اور تعیناتی کے آرڈر بھی متعلقہ ہسپتال /ادارے کا سربراہ ہی جاری کرے گا اور وظیفہ کی ادائیگی کے آرڈر بھی ٹیچنگ ہسپتال کا سربراہ ہی جاری کرے گا ۔ اس بات سے سبھی آگاہ ہیں کہ PGانڈکشن میں میرٹ کی خلاف ورزیوں کی مسلسل شکایات آتی رہی ہیں اور اقربا پروری پسند وناپسند کی بنا پر PGRکا انتخاب ہوتا تھا کرپشن کے الزامات بھی لگتے تھے یہاں تک کہ ڈاکٹروں کی بہت مقبول تنطیم پر بھی بعض حلقے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے تھے ۔

پرانی پالیسی کے تحت میرٹ پر تعیناتی ممکن نہیں رہی تھی ۔نئی انڈکشن پالیسی میں نہ تو فیلو شپ پروگرام کی سیٹیں کم کی جائیں گی اور نہ ہی یونیورسٹی اور PGMIسے منسلک ہسپتالوں میں فیلو شپ پروگرام کی انڈکشن بند کی جائے گی اور نہ ہی کسی بھی طرح کا کوئی تناسب مختص کیا جائے گا۔ اداروں میں موجود سہولتوں اور منظور شدہ پروگراموں میں داخلہ جاری رہے گا ۔ سیکرٹریٹ کا کسی بھی طرح کا کوئی کردار نہیں ہوگا بلکہ متعلقہ پرنسپل /سربراہ ادارہ پوری طرح با اختیا ر ہوگا اور تمام آرڈر اسی ہسپتال سے جاری ہونگے ۔ PRPکے تحت ٹریننگ کے بہتر اور یکساں مواقع مہیا کئے جائیں گے ،ٹریننگ کے معیار اور دستیاب سہولتوں اور اساتذہ کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے PGشپ کی سیٹوں میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا اور اسی سال 1290نئی سیٹیں تخلیق کی گئی ہیں جبکہ مزید سیٹوں کااضافہ زیر غور ہے ۔ اس سیشن میں 800سے زائد PGٹرینی کو رکھا جائے گا ۔Sub-speciality میں سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے اور پہلی مرتبہ ہسپتالوں کی ضرورت اور سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی مخصوص شعبوں میں کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخ میں پہلی دفعہ PGشپ کی سیٹوں کی یکساں تقیسم کی گئی ہے اور دو سالہ ٹریننگ کے حامل ڈاکٹرزکو ترجیحی بنیادوں پر داخلہ ملے گا ۔ مقامی کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹرز کو دس فیصد اضافی نمبر ملیں گے جبکہ سرکاری کالج کے گریجوایٹس کو چھ فیصد اضافی نمبرز ملیں گے۔ محکمہ صحتedition Acrاداروں جیسے CPSP، PMDCاور یونیورسٹیوں پر پورا اعتماد رکھتا ہے اورنا صرف منظور شدہ پروگراموں میں داخلے ہونگے بلکہ چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں کو بھی مساوی PGٹرینی داخل کرنے کا موقع ملے گا ۔ ایک فارم آن لائن بھرنے کے بعد تمام ہسپتالوں کے میرٹ کے مطابق داخلہ ملے گا کسی بھی امیدوار کو جگہ جگہ دھکے نہیں کھانا پڑیں گے ۔ محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نے ڈاکٹرز تنظیموں سے باضابطہ طور پر رابطہ کیا گیا اور تحریری طور پر ان کا موقف بھی مانگا گیا لیکن کسی بھی تنظیم نے تحریری طور پر اپنے تحفظات سے آگاہ نہیں کیا تاہم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندہ وفود نے سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نجم احمد شاہ اور مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق سے متعدد بار طویل نشستیں کیں جس میں وائی ڈے کے نمائندوں کو
نئی انڈکشن پالیسی کے ایک ایک پوائنٹ کے بارے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا اور ان کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جبکہ ہسپتالوں کے سربراہان نے مشرکہ طور پر PRPکو منظور کیا ۔ انڈکشن پالیسی کا میرٹ فارمولہ آن لائن درخواست میں موجود ہو گا اور خود کار طریقے سے میرٹ کا تعین ہو جائے گا ۔ ایک سال BHU/RHCمیں سروس کے دس فیصد نمبر جبکہ دوسال کے پندرہ فیصد نمبر ہو نگے ۔ہر ہسپتال اور ادارے کامیرٹ فارم میں دی گئی لیڈ کے مطابق الگ سے ترتیب دیا جائے گا ۔نئی پالیسی کے بارے میں CPSPسے کئی میٹنگز کی گئی ہیں اور ان کو اعتماد میں لیا گیا اور ان کی سفارشات کو مد نظر رکھ کر PRPپروگرام ترتیب دیا جارہا ہے اورCPSPکے عہدیداران نے مکمل حمایت کی ہے ۔


وزیر اعلی محمد شہباز شریف کی جانب سے صوبے میں صحت کے شعبے کی ترقی اور ہیلتھ کیئر سسٹم میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کر کے ایک ایسا نظام وضع کرنے کی نہایت سنجیدہ کوششیں اور اقدامات کئے جارہے ہیں تاکہ صوبے کے 12کروڑ عوام کو علاج کی بہترین سہولیات دستیاب ہوں اور اس حوالے سے عوامی شکایات کاازالہ بھی کیا جاسکے اس ضمن میں ڈاکٹرز کنونشن منعقد کرنا وقت کی اہم ضرورت تھا ۔ کیو نکہ صحت کے شعبہ کے اصل سٹیک ہولڈرز ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکس ہیں انہی لوگوں نے ہسپتالوں کے سسٹم کو چلانا ہے لہذا سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے ان سے مشاورت ضروری تھی ۔ جس طرح کنونشن کے شرکاء نے وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف اور حکومتی اقدامات کی حمایت کی ہے اور صورت حال کی بہتری کے لئے مکمل تعاون اور کمٹمنٹ کا اظہار کیا ہے اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ اس کنونشن کے نتائج دور رس ہو نگے اور وزیر اعلیٰ جس Passion کے ساتھ صوبے کے ہیلتھ کئیر سسٹم کو ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ لانے کے لئے جو جدوجہد کر رہے ہیں اس مشن میں وہ ضرور کامیاب ہوں گے ۔

مزید :

کالم -