پاکستان کا بدلتا سیاسی منظر نامہ ،فوج اور سیاسی قیادت میں پیدا شدہ اختلافات کی اندرونی کہانی ہے کیا اور ہو گا کیا ؟
پاکستان میں سیاسی اور ملٹری قیادت میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں پیدا ہونے والے اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں ،وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد آنے والے چند ہفتوں کے اندر ملک میں نئی سیاسی صورتحال پیدا ہونے کے امکان واضح ہو گئے ہیں ،عسکری و سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں نہیں اور نہ ہی آرمی چیف اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے نئے آرمی چیف کے نام پر متفق ہیں ،جس کی وجہ سے ملک میں ’’جمہوریت کی ناؤ ڈوبنے ‘‘ کے واضح خطرات پیدا ہو گئے ہیں ،جبکہ انتہائی حساس ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف اپنے ’’رویے اور سوچ‘‘ میں تبدیلی پیدا نہ کی تو پھر سیاسی حالات کو کشیدہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے ’’چھوٹے بھائی صاحب‘‘اپنے ہمنواؤں کے ہمراہ ’’بڑے میاں صاحب‘‘ کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں اپنے رویے اور سوچ میں ’’تبدیلی ‘‘ لانے کے اپنے تئیں ہر ممکن کوششیں کر چکے ہیں لیکن ’’بڑے میاں صاحب ‘‘کسی صورت بھی اپنے موقف میں تبدیلی لانے کے لئے تیار دکھائی نہیں دیتے ۔اسلام آباد میں موجود انتہائی ’’باخبر دوستوں‘‘ کا کہنا ہے وزیر اعظم میاں نواز شریف لندن میں ’’عارضہ قلب‘‘ کے دوران اپنے ’’ملکی و غیر ملکی سیاسی و غیر سیاسی‘‘ رفقا سے ’’فوج سے ممکنہ پنگے ‘‘ کے حوالے سے مشاورت کرتے رہے ہیں ، جس پر چند ایک کے سوا سب کی متفقہ رائے تھی کہ آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کے معاملے پر روا رکھی جانے والی ’’ہٹ دھرمی ‘‘ ملک میں جاری ’’آپریشن ضرب عضب ‘‘ کو بری طرح متاثر کرے گی جبکہ دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے آرمی چیف کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو بھی بری طرح دھچکا پہنچنے کا خدشہ جبکہ عوامی سطح پر ’’جمہوری حکومت ‘‘ کے خلاف’’ نفرت کا لاوا ‘‘بھی ممکنہ طور پر ابل سکتا ہے ۔
دوسری طرف وزیر اعظم آرمی چیف کی مدت ملازمت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے نامزد کئے جانے والے ’’نئے نام ‘‘ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ’’ماضی کے تلخ تجربات ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اسے دوہرانے سے گریزاں ہیں۔اس ساری صورتحال پر جب ’’شریف برادران ‘‘کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے ایک سینئر صحافی اور ٹی وی اینکر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کسی صورت بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کے حق میں نہیں ہیں اور نہ ہی وہ نئے آرمی چیف کے لئے فوج کی جانب سے بھیجے
جانے والے نام کی منظور ی دیں گے ،البتہ ’’چھوٹے میاں صاحب ‘‘ اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سمیت دیگر وفاقی وزراء کی رائے میاں نواز شریف کے مکمل برعکس ہے ،جبکہ ’’چھوٹے میاں صاحب ‘‘ تو اپنے ’’بڑے بھائی کے ضدی رویئے ‘‘پر کچھ نالاں بھی نظر آتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بظاہر اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ چاہنے کا بیان دے چکے ہیں لیکن وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ آنے والے چند دنوں میں کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جس سے نہ صرف ان کی مدت ملازمت میں توسیع ہو جائے بلکہ میاں نواز شریف اَز خود پانامہ لیکس کی مکمل انکوائری تک ’’سٹپ ڈاؤن ‘‘ کرتے ہوئے رخصت ہو جائیں ۔دوسری طرف ایک اور انتہائی اہم ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عارضہ قلب سے تو غیر ملکی ڈاکٹروں کی مدد سے نجات حاصل کر لی ہے مگر وہ موجودہ پیدا شدہ بحران سے نجات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے اور کوئی ’’غیر ملکی مدد ‘‘ بھی ان کے کام نہیں آسکے گی ،جبکہ رواں ماہ میں ہی جمہوری حکومت کا ’’دھڑن تختہ ‘‘ ہو نے کا 90فیصد امکان اور راستہ بن چکا ہے ۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ممکنہ اقدام کے حوالے سے ’’امریکی انتظامیہ ‘‘ نے بھی ’’نکی جئی ہاں ‘‘ کر دی ہے اور کہا جارہا ہے کہ امریکی سینیٹر جان مکین کا حالیہ دورہ پاکستان بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھی جبکہ سعودی عرب کے حکمران پہلے تو نہیں لیکن اب اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے ’’پاک فوج‘‘ کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے ۔ اگر پاکستان میں’’جمہوریت کے لرزتے قدموں‘‘ کو سنبھالا دینے میں حکمران جماعت ناکام ہو گئی تو پھر شنید ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات جن کے دیگر دو سگے بھائی حاضر سروس جرنیل ہیں کو فوج کی کمان دے کر خود عالمی سطح پر سعودی عرب کی قیادت میں بننے والی 40ملکوں کی مشترکہ اتحادی فوج کی کمانڈ سنبھال کر ’’آپریشن ضرب عضب ‘‘ کی طرح ’’داعش ‘‘ اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کی بیخ کنی کرکے دنیا بھر کی ’’داد و تحسین‘‘ کے پھول سمیٹیں گے ۔
پاکستان میں جمہوریت کو’’ چلتا کرنے‘‘اور فوجی اقتدار کی عالمی سطح پر ’’رضامندی ‘‘بھی آرمی چیف کے ’’ممکنہ کردار ‘‘ سے ہی ’’ مشروط ‘‘ سمجھی جا رہی ہے ۔اس ضمن میں واقفان حال کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں اپوزیشن جماعتیں کہاں کھڑی ہو ں گی ؟اور وہ جمہوریت سے ’’غیر مشروط محبت ‘‘ کے دعوؤں کو عوامی سطح پر کیسے جسٹی فائی کریں گے ؟کہ بارے میں کچھ کہنا قبل اَز وقت ہے کیونکہ اب تو چند ایک کو چھوڑ کر ساری جماعتیں بیک زبان’’گو نواز گو ‘‘ کے نعرے لگانے میں مصروف ہیں اور ان نعروں کے شور میں وہ کسی بھی صائب رائے یا مشورے کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں تو دوسری طرٖ ف وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی کسی صورت اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔
خالد شہزاد فاروقی کل وقتی صحافی اور نجی ادارے میں بطور نیوز ایڈیٹر وابستہ ہیں ،آپ ان سے ksfarooqi@gmail.com پر رابطہ کر سکتے ہیں۔