وارث میر: ضمیر کا اسیر

وارث میر: ضمیر کا اسیر
وارث میر: ضمیر کا اسیر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پروفیسر وارث میر مرحوم ایک روشن خیال دانشور تھے۔ بچپن ہی سے علم وادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ میدان صحافت میں آنے کے بعد انہوں نے معروف معنوں میں دائیں بازواور بائیں بازو کی اصطلاحات کو رد کرتے ہوئے صرف حق گوئی اور حق نویسی کواپنا شعار بنایا۔ چونکہ پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاحات کا استعمال ایک عرصے تک شدت سے ہوتارہا ہے، اس لئے ان کو بھی بعض اوقات دائیں بازو سے اور بعض اوقات بائیں بازو سے وابستہ قراردے دیا جاتا رہا، لیکن پروفیسر وارث میر نے نہ صرف اس وابستگی کی بار بار تردید کی، بلکہ ان ہر دواصطلاحات کے ماخذ اور معنوی حیثیت پر بحث کرکے معروضی حالات میں ان کے استعمال کو غیر مناسب قراردیا۔ وہ اپنے آپ کو لبرل اور پروگریسودانشور کہلوانا پسند کرتے تھے۔پروفیسر وارث میر مسلمانوں میں پائی جانے والی روایت پرستی اور رجعت پسندی کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔فقہ اسلامی کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے اور مسلمانوں کو عصری حالات سمجھنے اور اقوام عالم میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا درس دیتے تھے۔ وہ عالمی سطح پر ظلم و جبر، ناانصافی، استحصال و رجعت پسندی کے زبردست مخالف رہے۔ حریت فکر اور آزادئاظہار کے نقیب اور تقلیدبے جا کے ناقدرہے۔ انہیں اس بات کا افسوس تھا کہ مسلمان اپنے ماضی کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہیں اور یہ کہ ان کا اپنے ماضی کے بارے میں رویہ رومانیت اور جذباتیت پر مبنی ہے، جبکہ رومانیت اور جذباتیت جہل کی ایک ایسی خطرناک قسم ہے جس سے ہر قسم کا ظلم پیدا ہوسکتا ہے اور یہ خودکشی کا راستہ ہے۔ پروفیسر وارث میر چاہتے تھے کہ مسلمان اپنے ماضی کے بارے میں ناقدانہ رویہ اختیارکریں اور ان عوامل کے اسبا ب کا کھوج لگائیں جوامت مسلمہ کے زوال کا باعث بنے۔


پروفیسر وارث میر کا اصرار تھا کہ مسلمانوں کو سیاسی نقطہ نظر اپنانا چاہیے ۔ زندگی ، متحرک اور ارتقاپذیر ہے اور ہمیں اس ارتقامیں معاونت کرنی چاہیے۔ اس عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو وہ رجعت پسند قرار دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں اندھریے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے خودتنقیدی کی نظر پیدا کرنی چاہیے۔ علامہ اقبال کی پیروی میں پروفیسر میر بھی اجتہاد کے زبردست حامی تھے۔ وارث میر فکراقبال ؒ سے اخذ کرتے ہیں کہ فکر اقبالؒ کا مقصود اجتہاد کے ان بند دروازوں کو کھولنا ہے جنہیں مسلمانوں نے سیاسی غلامی اور ابتری کے دور میں بند کردیا تھا۔ انہیں افسوس تھا کہ مسلمانوں نے اسلام میں پائے جانے والے اجماع کے تصور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ایک ادارے کی حیثیت نہیں دی جس کے باعث آج ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ کسی چیز پر واقعی اجماع ہوا ہے یا نہیں؟ ابتدائی صدیوں میں ہی مسلمان ایشیا اور افریقہ میں پھیلے ہوئے تھے، مگر کبھی یہ صورت پیدا نہ ہوسکی کہ کسی سوال کو سارے فقہا کے پاس بھیج کر ان کی آرا کو جمع کیا جاتا اور معلوم کیا جاتا کہ سارے لوگ اس پر متفق ہیں یا نہیں؟عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پروفیسر وارث میر نے باقاعدہ تحقیق کرکے مقالے لکھے، جنہیں ان کی وفات کے بعد’’کیا عورت آدھی ہے؟‘‘کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیاگیا۔ یہ کسی روشن خیال دانشور کی طرف سے ایک مدلل، عقلی، مذہبی اور منطقی و استدلالی کتاب ہے۔’’کیا عورت آدھی ہے‘‘ دراصل پروفیسر وارث میر کے مضامین کا وہ سلسلہ تھاجس کے ذریعے انہوں نے ضیاء الحق کے نام نہاد اسلامائزیشن کے عمل کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں باقاعدہ منصوبے کے تحت سیاسی ومذہبی معاملات میں ایک خاص قسم کی ملائیت کو فروغ دیا جارہا تھا اور پاکستان میں عوام کو حکومت کے نظریہ اسلام سے مخلص ہونے کا تاثردینے کے لئے معاشرتی قدروں کو رجعت پسندی کے قالب میں ڈھالا جانے لگا تھا۔


ادھر مذہبی حلقے، خصوصاً جماعت اسلامی پہلے سے بہت متشددتھے اور مزید آزادی اور سرکاری حمایت ملنے پر وہ اور زیادہ شدت سے سرگرم ہوگئے۔ یہ قوم کے بنیادی مسائل کو حل کرنے اور فقہ اسلامی کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے سے اغماض برتتے رہے اور معاشرے سے ظلم وجبر، ناانصافی، عدم مساوات اور طبقاتی اور استحصالی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے عورت کی تعلیم ، پردہ، برقع اور سفر کو ہی مسئلہ بنائے بیٹھے رہے۔ عورت کو ’’آدھا‘‘ قرار دلوانے کی بھرپورکوشش میں رہے۔ عدالتوں میں جج کی بجائے’’قاضی‘‘بٹھانے کا مطالبہ کرتے رہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے مذہبی اجارہ داراسلام کو جرائم کی سزا دینے اور محض بعض رسومات اور عبادات کی پختگی تک ہی محدود کئے ہوئے ہیں اور اقتصادی ، معاشی و معاشرتی نظام کی تبدیلیوں کو اسلام سے خارج یا لاتعلق سمجھتے ہیں۔ یہ وہ معروضی حالات تھے جن میں پروفیسر میر کو ایک چومکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی تھی۔ مارشل لاء کے خوف سے بہت سے دانشوروں نے اپنی زبانیں بند کرلی تھیں لیکن حریت فکر کا متوالایہ پروفیسر اپنی تحریروں میں امام حسینؓ ، امام ابو حنیفہ ؒ ، امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام ابن حزمؒ ، ابن رشدؒ ، ابن تیمیہؒ اور امام غزالی ؒ کے حوالے دے کر اور جرأت اظہار کے مالک دانشوروں کا تذکرہ کرتے ہوئے تن تنہا آمریت کی مخالفت کررہا تھا۔ میر صاحب کی چومکھی لڑائی کا ایک رخ مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے چلائی جانے والی بھرپور مخالفانہ مہم کا مقابلہ کرنا بھی تھا۔ پھر ایک دور ایسا آیاکہ قومی اسمبلی میں شریعت بل (جس سے بعد میں سب نے اختلاف کیا) پیش کردیا۔پروفیسر میر نے اس شریعت بل اور ریفرنڈم کو غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیا تو جنرل ضیاء الحق نے گورنر ہاؤس لاہور میں بلا کر وارث میر کو ’’راہ راست‘‘پر آجانے کی دھمکی دی، لیکن انہیں جھکایا نہیں جاسکتا تھا۔ انہیں شعبہ ابلاغیات جامعہ پنجاب کی چیئرمین شپ سے ہٹا دیا گیا، ٹی وی کی مجلس مشاورت سے الگ کردیا گیا، سنسر بورڈ کی ممبر شپ ختم کردی گئی، لیکن وارث میر کے لئے یہ بہت معمولی باتیں تھیں۔ ان کو اصل صدمہ اس وقت پہنچا جب ان کے نظریات کی سزا کے طورپر ان کے ایک بیٹے کو قتل کے ایک مقدمے میں ناجائز طور پر ملوث کردیا گیا، لیکن وارث میر نے اپنے بیٹے کی جان بخشی کے لئے حکمرانوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے، بلکہ اس کے لئے قانونی راستہ اختیار کیا، جس کے باعث ان کا بیٹا ہائی کورٹ سے باعزت بری ہوگیا،لیکن تب تک میر صاحب اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔


ان کی وفات پر ملک بھر میں گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔ پاکستا ن سے محبت کی بنا پر انہیں بائیں بازو کے لوگ دائیں بازو کا دانش وار قرار دیتے تھے۔انسانیت ، مساوات ، عدل وانصاف اور بین الاقوامیت کا پرچار کرنے پر دائیں بازو والے انہیں بائیں بازو سے متعلق قرار دیتے تھے۔ غرض جس طبقے کے مفادات پر وارث میر کی تحریروں سے زد پرتی تھی، وہ انہیں دوسری طرف دھکیل دیتا تھا، لیکن وارث میر ان گروہ بندیوں سے بہت حد تک غیر جانبداراور لاتعلق تھے۔ میرے نزدیک وہ حریت فکر اور آزادی اظہار کے قائل تھے اور ایسا شخص کبھی کسی گرو ہ کی ذہنی غلامی قبول نہیں کرسکتا۔ وہ خرد افروزی کے پیامبر تھے اورقوم کو جہالت کی تاریکیوں سے نکالنا چاہتے تھے۔ ’’حریت فکر کا مجاہد‘‘ نامی کتاب ان کے مضامین کا وہ شاہکار مجموعہ ہے، جسے قاضی جاوید نے انٹلکچوئل صحافت کا شاہکار قرار دیا ہے ۔ مستقبل میں جب بھی حریت فکر اور آزادئاظہار کے مجاہدوں کا ذکر کیا جائے گااور ان کی تاریخ لکھی جائے گی تو وارث میر کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

مزید :

کالم -