ہاؤسنگ کالونیوں کی دھڑا دھڑ تعمیر، ہرے بھرے کھیت، باغات اجڑ گئے، ملکی معیشت تباہ

ہاؤسنگ کالونیوں کی دھڑا دھڑ تعمیر، ہرے بھرے کھیت، باغات اجڑ گئے، ملکی معیشت ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملتان(جنرل رپورٹر)کرپشن کی جڑ ہاؤسنگ کالونیوں نے ملکی معیشت اور ہرے بھرے کھیت‘ باغات ڈکار لیے۔ٹیکسٹائل ‘لیدر‘ فوڈ آئٹمزاور دیگر پروڈکشن یونٹ بند ہونے سے برآمداتمیں خطرناک حد تک کمی جبکہ درآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق چند سال قبل ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ایشیا کی صف اول کی انڈسٹری میں شامل تھی ۔ فیصل آباد‘ ملتان‘ کراچی اور دیگر شہروں میں تیار ہونے والے ریڈی میڈ کپڑے یورپ اور ایشیا کی منڈیوں میں سپلائی ہوتے تھے جس کی وجہ سے ملک بھر میں بیروزگاری بھی نہ ہونے کے برابر تھی اور نوجوان طبقہ ہنر مند بھی تھا بنگلہ دیش‘ انڈیا‘ ملائشیا اور دیگر ممالک سے لوگ یہاں آکر کام کرتے تھے مگر ہاؤسنگ کالونیوں کے بڑھتے ہوئے کاروبار نے دیگر انڈسٹریز کو قریباً بند ہی کردیا ہے ملتان میں ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والی تھری سٹار ہوزری کے پروڈکشن یونٹ مکمل طور پر بند ہوچکے کالونی ٹیکسٹائل مل کے صرف چند یونٹ آپریشنل ہیں فیصل آباد میں ایم ٹین ہوزری سمیت دیگر کئی گارمنٹس ادارے مکمل طور پر غیر فعال ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے کاروباری لوگوں نے خام مال کی برآمدات اور پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث اپنے بزنس ختم کرکے ہاؤسنگ کالونیوں میں سرمایہ کاری شروع کردی ہے جس میں افرادی قوت کی ضرورت ہو تی ہے اور نہ ہی پیسہ ڈوبنے کا خطرہ‘ بلکہ ہر سال منافع کی شرح بڑھتی رہتی ہے ‘ ڈی ایچ اے کالونی میں 2سال قبل18لاکھ روپے میں فروخت ہونے والی فائل اب45لاکھ روپے میں فروخت ہورہی ہے ‘ اسی طرح واپڈا ٹاؤن‘ رائل آرچرڈ ‘بچ ولاز اور دیگر ہاؤسنگ کالونیاں بھی پلاٹوں ‘ بنگلوں کی قیمتیں دن بدن بڑھا کر سرمایہ کاروں کواپنی جانب راغب کررہی ہیں ۔ بوسن روڈ‘ متی تل‘ شیر شاہ روڈ‘ ناگ شاہ بائی پاس ‘ پیراں غائب ‘قاسم بیلہ اور دیگر علاقوں میں قائم آموں کے باغات پر بلڈوزر چلا کر آئے روز نت نئی کالونیاں بنا کر آکسیجن فراہم کرنے والے قدرتی ذرائع کا تیزی سے صفایا کیا جارہا ہے مگر رات بھر ریڑھیوں ‘ ٹرالیوں پر یہ کٹے ہوئے درخت ٹمبر مارکیٹوں میں جاتے ہوئے کسی محکمہ کو نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان باغات کو کاٹنے والے کالونی مالکان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے ۔ کالونیوں کی تعمیر کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو آئندہ چند سالوں میں پاکستان میں ہر شہری کو آکسیجن ماسک لیکر باہر نکلنا پڑے گا اور ہمیں روٹی پکانے کے لئے گندم سے لے کر کپڑا‘ جوتی اور دیگر ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء تک باہر سے درآمد کرنا پڑیں گی۔