مادر ملتؒ اور مسئلہ کشمیر
شاہد رشید
قیامِ پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمان ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان آگئے یہ لوگ اپنے آبائی گھر بار کاروبار‘ جائیدادیں سب کچھ چھوڑ کر آگ اور خون کا دریا عبور کر کے لٹے پٹے پاکستان آئے تھے۔ یہاں مقامی لوگوں نے ان کی بھر پور دیکھ بھال کی جبکہ حکومتی سطح پر ان کی آباد کاری کا انتظام کیا گیا ۔ قائداعظمؒ اور مادرِ ملتؒ شروع دن سے ہی مہاجرین کی فلاح و بہبود اور آباد کاری کے کاموں میں ذاتی دلچسپی لیتے رہے۔ قائداعظمؒ کی وفات کے بعد مادرِ ملتؒ نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور اس کا انہیں عمر بھر مہاجرین کی زبوں حالی کا احساس رہا وہ جہاں غاصبوں جعلی لیڈروں اور قوم کے دشمنوں کے قبیح عزائم سے قوم کو آگاہی کرتی رہی تھیں ‘ وہاں پاکستان کے عوام کو سیاسی شعور بھی بخشتی رہیں۔ انہوں نے ہر موقع پر ‘ ہر قدم پر تشکیل پاکستان کے مقاصد سے قوم کر روشناس کرایا ان کی پوری کوشش تھی کہ پاکستان کے عوام اس قدر بالغ و باشعور ہو جائیں کہ کوئی طالع آزماءان کا استحصال نہ کر سکے مہاجرین نے چونکہ قیامِ پاکستان میں بے پناہ مصائب برداشت کئے تھے اس لیے انہیں مسائل و مشکلات میں گھیرا دیکھتیں تو وہ تڑپ اٹھتیں مثلاً 1950ءمیں لاہور میں آئیں تو کہا-:
”سفر کے دوران مجھے عقیدت و محبت بھرے نعروں کے پیچھے انسانی کرب اور بے چینی کی درد ناک چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ میرا دل تڑپ اٹھا ہے ۔ میں نے راستے میں کئی بچے دیکھے ہیں جو صرف بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہیں اور نہایت خستہ حال‘ گلی کوچوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اگر ان کی بروقت صحیح تربیت اور دیکھ بھال نہ کی گئی تو ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے‘ کیونکہ تمام برائیاں افلاس اور پستی ہی کی گود میں پلتی ہیں“۔ اور پھر جب مادرِ ملتؒ نے دیکھا کہ سرکاری حکام اپنے فرائض سے کما حقہ عہدہ برآ نہیں ہو رہے تو بے اختیار پکار اٹھیں۔ ”یہ یتیم اور مفلوک الحال اور نادار بچے جو کسمپرسی کے عالم میں شہروں میں بھیک مانگتے اور آوارہ پھرتے ہیں ہمارے معاشرے کے دامن پر ایک شرمناک دھبہ ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ ارباب پر عائد ہوتی ہے۔ مادرِ ملتؒ کی حکیمانہ نظروں نے مقامی اور مہاجر کے امتیاز اور اس کے نقصان دہ مضمرات سب سے پہلے بھانپ لیے تھے۔ 12جون 1948ءکو شب برات کی تقریب سعید پر اپنے مرحوم بھائی کے مزار پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا-:
”لاکھوں مسلمان ہندوستان سے پاکستان آرہے ہیں۔ لوگ انہیں مہاجر کہہ کر پکارتے ہیں۔ میں بصداصرار واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ دنیا بھر کے آلام و مصائب اٹھا کر یہاں آنے والے لوگ مہاجر نہیں۔ یاد رکھو! قائداعظمؒ نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک پناہ مل جائے جہاں وہ اطمینان قلب اور عزت و آبرو سے رہ سکیں۔ مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں یہ پناہ مل رہی ہے۔ ہر شخص جو یہاں رہنے کے لیے آتا ہے پاکستانی بن جاتا ہے۔ آج سے انصار اور مقامی کے الفاظ ختم کردینا چاہئیں۔“ مہاجر اور مقامی کی تخصیص سے صوبہ واریت کا شگوفہ پھوٹا تو مادرِ ملتؒ نے اس کی بھی سخت مذمت کی اور کہا-:
”صوبہ پرستی کے پست رجحانات پاکستان کی قومی زندگی کے حق میں سمِ قاتل ہیں۔ آپ کا مذہب اسلام ہے اور قومیت پاکستانی!“
مادرِ ملتؒ نے مہاجرین کے مستقبل کی بحالی کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں ان سے وہ لاکھوں عوام بخوبی واقف ہیں جو لٹ لٹا کر عزیزوں سے بچھڑ کر اور بہن بھائیوں کو شہید کروا کے بے یارو مددگار پاکستان آئے تھے تو مادرِ ملتؒ نے ان کے دکھی دلوں کو تسکین دی تھی‘ اور ان کے حوصلے کو بلند کیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر پیدا ہوا جب بھارتی افواج نے کشمیر کے ایک حصہ پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد کا ذکر ہے کہ مسلمانانِ پونچھ نے کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ کے جبر واستبداد کے خلاف علمِ آزادی بلند کر کے آزاد حکومت قائم کر لی۔ پونچھ کے مجاہدین پر ہندو راجے کا کچھ زور نہ چلا تو اس نے ڈوگرہ فوج کو جموں کے مسلمانوں کے قتلِ عام کا حکم دے دیا۔ وحشت کے اس انسانیت سوز مظاہرے نے اہلِ پاکستان کی غیرت کو للکار۔ وہ تڑپ کر کشمیر مسلمانوں کی مدد کو دوڑے اور دنیا نے دیکھا کہ مومن واقعی بے تیغ بھی لڑ سکتا ہے۔ مہاراجہ نے پے درپے شکست کھانے کے بعد 26اکتوبر 1947ءکو بھارت سے الحاق کی درخواست کر کے فوجی امداد طلب کر لی۔ بھارتی فوج دھڑا دھڑ کشمیر پہنچنے لگی۔ قائداعظمؒ اسی دن اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ساتھ کراچی سے لاہور روانہ ہو گئے۔ اس زمانہ میں قائداعظمؒ کے ملٹری سیکرٹری کرنل ای سینٹ جے برنی اپنی نجی ڈائری میں لکھتے ہیں-: اتوار کو قائداعظمؒ اور مس جناحؒ لاہور روانہ ہو گئے۔ ان کا دورہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال سے متعلق ہے جو پچھلے دنوں میں بے حدتشویش ناک ہو گئی ہے۔ لارد ماﺅنٹ بیٹن ان سے ملاقات کے لیے لاہور آئیں گے۔“
کرنل برنی نے ایک اور جگہ لکھا ہے کہ قائداعظمؒ کی عادت تھی کہ جب تک کسی مسئلہ پر مکمل غور و خوض نہ کر لیتے تب تک کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ ہیکٹر بولیتھو‘ قائداعظمؒ کے برطانوی سوانح نگار لکھتے ہیں۔ ”گورنر جنرل کی حیثیت سے میں نے انہیں اس خطرناک صورت حال کی چھان پھٹک کر کے فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ بھارتی فوج طیاروں کے ذریعے کشمیر پہنچ رہی تھی جہاں گھمسان کا رن پڑا تھا۔ قائداعظمؒ نے کشمیری مسلمانوں کی حفاظت کے لیے اپنی ”نامکمل فوج“ کو کشمیر بھیج دینے کا فیصلہ کیا۔ سرکلاڈ آکلنک کو (جواس وقت تک متحدہ کمان کے برطانوی کمانڈر تھے) دو گھنٹے کے نوٹس پر طلب کر لیا گیا۔ اس نے قائداعظمؒ کی تجویز سنی تو کہا ”اگر پاکستانی فوج نے کسی بھی قسم کی کارروائی کی تو وہ تمام انگریز فوجی افسروں کو جن میں پاکستانی اور بھارتی افواج کے کمانڈر انچیف بھی شامل ہیں واپس بلا لیں گے“۔ لہٰذا یہ تجویز ترک کردینی پڑی۔ جنرل گریسی نے قائداعظمؒ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا یوں بھارتی فوج کو وادی ¿ جموں وکشمیر میں قدم جمانے کا موقع مل گیا جس کے بعد اس کی شہ پر ڈوگرہ راجہ کی پولیس نے مسلمانوں پر ظلم ڈھانے شروع کر دئیے اور انہیں زبردستی پاکستان کی سرحدوں کی طرف دھکیل دیا۔
پاکستان کی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ایک برطانوی جرنیل نے قانوی عذر پیش کرکے پاکستان کو پیش قدمی سے روک یا تھا۔ یہ قانونی عذر قائداعظمؒ کی جان لینے کا ہی موجب نہیں بنا تھا بلکہ اس نے قائداعظمؒ کے ورثے‘ پاکستان کی بقاءبھی خطرے میں ڈال دی تھی۔ کیا مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ اس سانحے کو فراموش کر سکتی تھیں؟
کئی بار یہ بات زیر بحث آئی کہ کیا قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ آخری سانس تک کشمیر کی آزادی کا ذکر کرتے رہے ۔ ان دنوں زیارت میں ان کے ذاتی معالجین اورہمیشہ مادرِ ملتؒ ہی زیادہ تر ان کے پاس ہوتے تھے۔ سید قاسم محمود مرحوم اور جنہوں نے قائداعظمؒ کی تقاریر کی تدوین کی ہے۔ 1961ءمیں قائداعظمؒ کی تقاریر پاکٹ سائز ایڈیشن پہلی بار شائع ہوا ہے جس کے صفحہ 221پر قائداعظمؒ کے یہ مشہور اور تاریخی الفاظ شائع ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انگریز مادرِ ملتؒ کی قریبی ساتھ اور قائداعظمؒ کی سیکرٹری کے ایچ خورشید مرحوم کی اہلیہ ثریا خورشید صاحبہ نے بارہا یہ بتایا کہ مادرِ ملتؒ نے کسی بار اپنی گفتگو میں قائداعظمؒ کی بات کو دہرایا کہ قائداعظمؒ کشمیر کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ پاکستان کی شہ رگ کہتے تھے۔ مادرِ ملتؒ نے اپنی تقاریر میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ نومبر 1964ءکو لاہور میں وکلاءسے خطاب کرتے ہوئے مادرِ ملتؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے۔ مادرِ ملتؒ قائداعظمؒ کی ساتھی ان کی نقیب و ترجمان اور سچی تصویر تھیں انہوں نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد مہاجرین بالخصوص کشمیر سے آنے والے مہاجرین کی امدادو اعانت کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور مجاہدین کی حوصلہ افزائی کے لیے کشمیر کے متعدد دورے کئے۔
قائداعظمؒ کی وفات کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے وادی جموں و کشمیر پر بھارت کی بالادستی کے خلاف بھر پور آواز اُٹھائی ۔ وہ مظلوم و مغلوب کشمیریوں کی امداد کی خاطر ویسے ہی سرگرم ہو گئیں جیسے بھارتی علاقوں مےں ہجرت کرکے پاکستا ن آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے مصروف کار تھیں۔ اس سے مادرِ ملّتؒ کی پاکستان اور کشمیر سے محبت کا پتہ چلتا ہے ۔ اس وقت کے حکمرانوں نے تو کشمیریوں کے مدد مےں کوئی خاص سرگرمی نہےں دکھائی تھی لیکن مادرِ ملّتؒ کو چونکہ پاکستان کی خاک سے عشق تھا اس لئے وہ سرکاری سر پرستی حاصل نہ ہونے کے باوجود کشمیری مہاجرین کی ہر ممکن مدد کرنے لگیں۔وہ جانتی تھیںکہ وادی جموں و کشمیر کی خطہ پاک کے لئے بےحداہمیت ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ کشمیریوں پر ڈوگرہ راجہ کیوں ظلم توڑ رہا ہے ۔ محض اس لئے کہ وہ مسلمان تھے اور وادی کا الحاق ارضِ پاک کے ساتھ چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمان کشمیری مہاجرین کی امداد کے واسطے شہر شہر گھوم کر اہل زر سے عطیات وصول کرنے شروع کر دئےے۔ اس سلسلے میں انہوں نے دسمبر 1948ءمیں کراچی کی انجمنِ تاجران سے خطاب کرتے ہوئے وادی کشمیر کی اہمیت بےان کی اور ساتھ ہی بے خانماں کشمیری مہاجرین کی حالتِ زار کا نقشہ بھی نہایت درد مندی سے کھینچا۔ مادرِ ملّتؒ نے فرمایا:
’گزشتہ کئی ماہ سے میں کشمیری مہاجرین اور مجاہدین کی امداد کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش کر رہی ہوں۔ اہل تجارت نے جس حب الوطنی کا اظہار کیا ہے مےں بطور خاص اس کی قدر کرتی ہوں۔ ایسے اہم اور انتہائی ضروری مسئلہ میں ان کی سرپرستی بلاشبہ ہمارے ملک کے مستقبل کے لئے ایک نیک فال ہے۔ اس وقت پاکستان کومختلف اہم مسائل کا سامنا ہے جن میں کشمیر سب سے زیادہ اہم ہے۔
مدافعتی نقطہ¿ نظر سے کشمیر پاکستان کی زندگی اور روح کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اقتصادی لحاظ سے کشمیر ہماری مرفع الحالی کا منبع ہے۔ پاکستان کے بڑے دریا اس ریاست کی حدود سے گزر کر پاکستان میں داخل ہو تے اور ہماری خوشحالی میں مدد دیتے ہیں۔ ان کے بغیر پاکستان کی خوشحالی خطرے مےں پڑ جائے گی۔
آزاد اورغیر جانبدار نہ رائے شماری جس میں کسی بھی قسم کا جبریا اثر استعمال نہ کیا جائے فوری طور پر ہونی چاہےے۔ کشمیر کے عوام کو اس کی اجازت ہونی چاہےے کہ وہ آزادانہ طور پر اظہار رائے کر سکیں تاکہ اقوام متحدہ کی یہ ساکھ قائم رہ سکے کہ وہ دنیا کے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ کشمیر کی تقسیم کے بارے مےں بعض حلقوں میں لغو اور غلط قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ کشمیر اور پاکستان کے عوام اس بات پر کبھی راضی نہ ہوں گے نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت نہیں اپنے سے مضبوط ارادے سے ہٹا سکے گی۔ ایسا کرنے کی کوشش یقینادونوں ملکوں کو تباہی کی جانب لے جائے گی۔“
کشمیر کے مسئلے کو مادرِ ملّتؒ کس درجہ اہم گر دانتی تھیں اس کا اظہار ان کی اس تقریر سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے یوم اقبال ؒ کے موقع پر 21اپریل 1949ءکو لاہور میں کی تھی۔ اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے کشمیر کے ضمن میں فرمایا:
” آزاد اور غیر جانب دار انہ استصوابِ رائے کا اہتمام کرنا فوری طور پر ضروری ہے جس مےں کس جبر اور ناجائز دباﺅ سے کام نہ لیا جائے اور کشمیر کے باشندے پوری آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کریں۔ کشمیر کی تقسیم سے متعلق جو مہمل تجویزیں سامنے آرہی ہےں وہ اہل کشمیر اور اہل پاکستان کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آزاد کشمیر کے ارباب اقتدار بہت ہوشیار او ر محتاط رہیں گے تاکہ یہاں اس صورتحال کا اعادہ نہ ہونے پائے جو فلسطین کے معاملہ میں پیش آئی ہے۔“
مجاہدےن کشمےر کی حوصلہ افزائی :
کشمیر میں عارضی جنگ بندی کے بعد مادرِ ملّتؒ نے ان مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے لئے صوب سرحد کا خصوصی طور پر دورہ کیا جنہوں نے کشمیر کی جدوجہد آزادی مےں بھرپور حصہ لیا تھا اور بھارتی اور ڈوگرہ فوج کو پے در پے شکست دے کر وا دی کے اس خطے کو آزاد کرا لیا تھا جس پر آزاد کشمیر قائم ہے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے 30اپریل 1949ءکو پشاور میں مسلم لیگ کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سرحد کے جانبازوں کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا:
” کشمیر کے مسئلے پر آپ نے جس سرفروشی اور بہادری سے مجاہدانہ خدمات انجام دی ہیں اور کشمیر کے مصیبت زدوں کو امداد پہنچانے مےں جو جدوجہد کی ہے وہ ناقابل فراموش ہے ۔ اس لئے اس کو تاریخی حیثیت حاصل ہے ۔ پاکستان کے ہر فرد کے دل و دماغ پر کشمیر کا مسئلہ قابض ہے۔ ہر شخص اس کے مستقبل کے بارے مےں دلچسپی لیتااورتجسّس کرتا ہے ۔اس سلسلہ مےں ہمارے بے قرار دلوں کو اس وقت تک آرام نہےں مل سکتا جب تک کہ مسئلہ کشمیر پورے طور پر حل نہ ہو جائے اور ہم کو اپنے دیرینہ مقصد مےں کامیابی حاصل نہ ہو جائے۔“
کشمیر کے معاملے مےں مادرِ ملّتؒ جہاں کشمیری مہاجرین کے لئے چندہ جمع کرتی رہیں وہاں مجاہدین کشمیر کے حوصلے بلند رکھنے کے لئے شہر شہر جا کر جلسوں سے بھی خطاب کرتی رہیں۔ پاکستان معرض ِ وجود مےں آچکا تھا ۔ حکومت قائم ہو چکی تھی مادرِ ملّتؒ چاہتیں تو اب آرام سے گھر بےٹھ سکتی تھیں۔ لیکن انہےں چونکہ برصغیر کے مسلمانوں کا بے حد خیال تھا پھر پاکستان کی سا لمیت اور ترقی بھی انہیں عزیز تھی اس لئے جہاں وہ پاکستان کے اقتصادی اور سماجی سدھار میں بھر پور دلچسپی لے رہی تھیں وہاں اس کے استحکام او ر تحفظ کے لئے بھی متفکر تھیں۔وہ جانتی تھیںکہ کشمیر کا حصول پاکستان کی سا لمیت کے لئے بے حد ضروری ہے اس لئے باقی کام چھوڑ کر وہ کشمیر کے تنازعہ کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگیں۔ ان کے سینے میں پیارے بھائی کی دائمی جدائی کا زخم ابھی تازہ تھاکہ وہ مظفر آباد جا پہنچیں اور وہاں مجاہدین کو 9مئی 1949ءکو مخاطب کر کے فرمایا:
”میں آج سر زمینِ کشمیر کے ان بہادروں کو مخاطب کر رہی ہوں جنہوں نے اپنی آزادی حاصل کرنے میں بےش بہا قربانیاں دی ہیں اور انقلاب کے طوفان کا زبردست مقابلہ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ آپ لوگ مصائب و آلام کی جن منزلوں سے گزر رہے ہیں وہ اس قدر دردناک ہیں کہ کوئی انسانی محبت اور جذبہ رکھنے والا دل اس پر آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کے محبوب قائداعظمؒ مرحوم کو مسئلہ کشمیر سے دلی لگاﺅ تھا۔ اپنے بستر مرگ کے آخری لمحات میں جب ان کی روح دنیاوی تعلقات اور رشتوں سے منقطع ہو رہی تھی صرف ایک خیال جو ان کے دل میں خلش بنا ہوا تھا وہ کشمیر اور اس کی آزادی تھی۔“
عملی امداد
کشمیر سے مادر ملتؒ کا قلبی تعلق تھا۔ مئی 1949ءمیں آپ صدر آزاد جموں و کشمیر کی دعوت پر مظفرآبادکے دورے پر گئیںجہاں اس دورے کے لیے پیر سید ضیاءالدین اندرابی مرحوم ،وزیرمیزبانی اورآزاد کشمیر حکومت کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد یعقوب ہاشمی (تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن) رابطہ آفیسر مقرر ہوئے۔ اس موقع پر بیگم محمد یعقوب ہاشمی نے معزز خواتین کی ایک تقریب کا اہتمام کیاجس میں مادر ملتؒ نے فرمایا کہ قائد اعظمؒ کے خواتین کی فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے ایک معقول رقم مختص کی ہے۔ چونکہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ آزاد کشمیر میں میٹرنٹی کے مسائل اور مشکلات کے لیے کہیں خاطر خواہ انتظام نہیں اور کہیں بھی زچہ بچہ کے لیے طبی سہولتیں میسر نہیں اس لئے وہ ایسا سنٹر قائم کرنے کے لیے طبی سہولتیں میسر نہیں اس لیے وہ وہ ایسا سنٹر قائم کرنے مظفر آباد آئی ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے سی ایم ایچ مظفر آباد خود جا کر وزٹ کیا اور ایک پلاٹ پر زچہ و بچہ کے لیے ایک علیحدہ سنٹر کی تعمیر کے لیے سات لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ بعد ازاں وہ دھیر کوٹ تحصیل باغ پونچھ( اب ضلع باغ)بھی تشریف لے گئیں جہاں ایک مقتدر شخصیت میجر سردار محمد نسیم خان مرحوم نے ان کے دورے کا انتظام کیا تھا۔ پونچھ میں بھی مادر ملتؒ نے زچہ بچہ سنٹر قائم کرنے کے لیے ایک گرانقدر رقم عطا فرمائی تھی۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کشمیر اور پاکستان کو لازم و ملزوم قرار دیتی تھیں۔ اس وقت کے حکمران ٹولے نے کشمیر کے معاملے میں ہندو شاطروں کے ہاتھوں بری طرح شکست کھائی۔ کشمیری سر فروش اور صوبہ سرحد کے جیالے جانباز پوی وادی پر کنٹرول حاصل کرنے لگے تھے کہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سلامتی کونسل میں پہنچ گئے اور انہوں نے وادی کشمیر مےں رائے شماری کرانے کی حامی بھر لی جسے پاکستانی حکومت نے بغیر سوچے سمجھے قبول کر لیا جس کے بعد کشمیر کا مسئلہ لٹک کر رہ گیا۔
مہاجرین کشمےر کی مدد:
وہ مہاجرین جو پاکستان آگئے تھے واپس اپنے گھروں کو نہ جا سکے۔ مادرِ ملّتؒ نے ان خانماں برباد لوگوں کی دلجوئی کرنے مےں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ مہاجر کیمپوں کا دورہ کرتی رہیں اور مہاجرین کا مورال اپنی تقریروں سے بلند کرتی رہیں۔ 24مئی 1949ءکو انہوں نے واہ کینٹ کے مہاجر کیمپ کا دورہ کیا اور وہاں کشمیری مہاجرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”میں جانتی ہوں کہ آپ کو بہت سے آلام و مصائب برداشت کرنا پڑے ہیں اور کشمیر کی جدوجہد آزادی میں آپ نے جو قربانیاں دی ہیں وہ کبھی فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔ ابھی آپ کو آخری کامیابی حاصل نہیں ہوئی مگر ہمت نہ ہارئےے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ آپ کسی صورت مایوس نہ ہوں۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اس مسئلہ پر ہر پاکستانی آپ کے ساتھ ہے اور ہر شہری کشمیریوں کی امداد کے لئے تیار ہے۔“
کشمیری مہاجرین کی امداد کے لئے مادرِ ملّتؒ نے دن رات ایک کر دیا تھا وہ جہاں جاتیں عوام سے یہی اپیل کرتیں کہ کشمیری مجاہدین کی دل کھول کر مدد کیجئے ۔ 14اگست1949ءکو انہوں نے سنڑل زنانہ کالج کراچی میں جو صدارتی خطبہ دیا اس مےں بھی خصوصی طور پر کشمیری مجاہدین کا تذکرہ تھا۔
مادرِملتؒ وادی جموں و کشمیر سے دلی لگاﺅ رکھتی تھیں۔ حکومت مےں نہ ہونے کے باعث وہ سرکاری سطح پر تو مظلوم کشمیریوں کے لئے کچھ نہ کر سکیں لیکن ذاتی سطح پر انہوں نے تادم واپسیں کشمیر کو اپنی تقریروں کا حصہ بنا کر قوم اور اقوام عالم کے سامنے اسے زندہ رکھا۔ ان کا کشمیر کے مسلمانوں پر یہ بہت بڑا احسا ن ہے ۔ 25دسمبر1965ءکو قائداعظمؒ کے یوم ولادت پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی انہوں نے کشمیر کے بارے میں ان جذبات کا اظہار کیا:
” پاکستان کے سامنے اس وقت سب سے اہم مسئلہ کشمیر کا ہے۔ کشمیر پر بھارت کا قبضہ صریحاً نوآبادیاتی اقدام ہے۔ اقوام متحدہ اب تک کشمیر میں اپنا فرض ادا کرنے مےں ناکام رہی ہے۔ ہم پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ امن اور انصاف کے نفاذ کے ذریعے کی حیثیت سے کشمیر کا مسئلہ اقوام ِ متحدہ کے خلوص اور کارکردگی کی آزمائش ہے۔ انسانی حقوق اور بےن الاقوامی تعاون کی باتیں سب کرتے ہیں لیکن جب تک دنیا کی تمام قوموں کو ان کا حقِ خود ارادیت نہیں دیا جائے گا اس وقت تک امن، امن اور امن کی پکار بے معنی رہے گی۔“