فاطمہ جناح کی 53 ویں برسی، مادر ملت کی جوانی کی وہ نایاب تصاویر جو آج سے پہلے آپ نے نہیں دیکھیں، روزنامہ پاکستان منظرعام پر لے آیا
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )قیام پاکستان کی جدوجہد میں اپنے بھائی قائد اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ جدوجہدکرنے والی مادر ملت فاطمہ جناح کی 53ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم محمد علی جناح کے بہن بھائیوں میں ان کے سب سے زیادہ قریب تھیں، وہ 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔انہوں نے انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ میں نہ صرف بانی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا بلکہ وہ بے شمار دوروں میں قائد اعظم کی شریک سفررہیں۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قم
ر
قائد ان کے ساتھ اکثر و بیشتر مختلف سیاسی وانتظامی معاملات پر مشورہ کرتے تھے۔ انہوں نے ایک موقع پر فاطمہ جناح کے لیے کہا تھا کہ وہ ان کے لیے اس وقت امید کا مستقل ذریعہ ثابت ہوئیں جب مسلمانان ہند کو ایک بڑے انقلاب کا سامنا تھا۔بانی پاکستان کے انتقال کے بعد فاطمہ جناح، عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئیں، مگر 1964 میں جب جمہوریت کے بجائے ملک میں آمریت کی جڑیں پھیلنے لگیں تو وہ ایک مرتبہ پھر عملی طور پر میدان میں اتر آئیں۔9 جولائی 1967 کو مادر ملت فاطمہ جناح کی زندگی کا سورج ڈوب گیا جس کے بعد انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پہلو میں سپردخاک کیا گیا۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
تحریک پاکستان میں مادر ملت فاطمہ جناح کی خدمات ناقابل فراموش ہیں،آپ نے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کے لئے برصغیر کی مسلم خواتین کو بیدار کیا اور انہیں منظم کرکے ان سے ہراول دستے کاکام لیا۔ آپ ہی کی بدولت برصغیر کے گلی کوچوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی تحریک قیام پاکستان میں سرگرم ہوئیں۔ اسی پر اکتفاءنہیں بلکہ آپ نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمت کی صورت میں اور تحریک پاکستان میں عملی طور پر حصہ لے کر عظیم خدمات سر انجام دیں۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
جوں جوں قیام پاکستان کی منزل قریب آرہی تھی قائداعظم پورے ملک کے دورے کررہے تھے، اس موقع پر آپ ان کے ساتھ ہوتیں، بھائی کو اگر امت مسلمہ کی محرومی و غلامی بے چین کئے رکھتی تھی تو بہن اس عظیم بھائی کے بے چین دل کو سکون و راحت پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتی تھی۔آپ نے دن رات قائداعظم کے آرام و سکون کا خیال رکھا،قائد اعظم جدوجہد آزادی میں اس قدر مصروف تھے کہ انہوں نے اپنی گرتی ہوئی صحت کی بھی پروانہ کی ،اس وقت محترمہ فاطمہ جناح ان کی گرتی ہوئی صحت کیلئے بے حد فکر مندرہتیں اور خیال رکھتیں،اور محمد علی جناح اپنے کام میں محنت و لگن سے مصروف عمل رہتے۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
وہ سیاسی بصیرت میں اپنے بھائی قائداعظم کی حقیقی جانشین تھیںایک ایسی بہن جس نے اپنی زندگی کو بھائی کی خدمت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا جو قوم کی ماں کا لقب ”مادر ملت“ حاصل کر کے سرخرو ہوئیں۔امام صحافت جناب مجید نظامی نے ایک محفل میں فرمایا تھا کہ ”مادرملت کا شمار پاکستان بنانے والوںمیں ہوتا ہے۔ آپ نے پیرانہ سالی کے باوجود قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی دیکھ بھال کی، اگر آپ یہ خدمات انجام نہ دیتیں تو شاید پاکستان معرض وجود میں نہ آتا“۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
ایک موقع پر خود قائداعظم نے اپنے سیکرٹری کرنل برنی سے اپنی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”وہ اپنی بہن کی سالہا سال کی پرخلوص خدمات اور مسلمان خواتین کی آزادی کیلئے انتھک جدوجہد کی وجہ سے ان کے انتہائی مقروض ہیں۔“ایک اور موقع پر قائداعظم نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”جن دنوں مجھے برطانوی حکومت کے ہاتھوں کسی بھی وقت گرفتاری کی توقع تھی تو ان دنوں میری بہن ہی تھی جو میری ہمت بندھاتی تھی۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
جب حالات کے طوفان مجھے گھیر لیتے تھے تو میری بہن میری حوصلہ افرائی کرتی۔“محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی خدمات کا اعتراف ان کے بھائی قائداعظم محمد علی جناح کی زبان سے ہونے کے بعدمذید کسی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔محترمہ فاطمہ جناح نے مسلم لیگ کی مالی اعانت کے لئے خواتین سے کہا کہ وہ مینا بازاروں کا انعقاد کریں، اس طرح آپ کی تحریک پر مسلم خواتین نے مینا بازار لگانے شروع کردیئے۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
ان مینا بازاروں سے جو آمدن ہوتی تھی وہ مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع کروادی جاتی تھی۔ اپریل 1944 میں محترمہ فاطمہ جناح نے لاہور میں ایک مینا بازار کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ ”مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں نے ایک مینا بازارقائم کیا ہے، اس طرح عورتیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں کا ہاتھ بٹاسکتی ہیں۔ اور ہمارا یہ فرض ہے کہ قوم کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کیلئے ہم ان کی مدد کریں، ہاتھ بٹائیں اور حوصلہ افزائی کریں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ ہماری بہنیں قوم کی اقتصادی حالت سدرھانے کیلئے ان کی مدد کریں گی “۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
قائد اعظم کی زندگی میں مادر ملت ان کے ہمر اہ موثر طور پر 19سال رہیں یعنی 1929 سے 1948 تک اور وفات قائد کے بعد بھی وہ اتنا ہی عرصہ بقید حیات رہیں یعنی 1946 سے 1967 تک لیکن اس دوسرے دور میں ان کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح ابھری اور ان کے افکارو کردار کچھ اس طرح نکھر کر سامنے آئے کہ اس سے عصری سیاست و معاملات پر ان کی ذہنی گرفت نا قابل یقین حد تک مکمل اور مضبوط تھی۔ 1965ئ کے صدارتی انتخاب کے موقع پر ایوب خاں کی نکتہ چینی کے جواب میں مادر ملت نے کہا تھا کہ” ایوب فوجی معاملات کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جس میں آمر مطلق نا بلد ہے“۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
اور پھر وقت اجل آپہنچا، وہ 8اور 9جولائی 1967ءکی درمیانی شب تھی جب محترمہ فاطمہ جناح سابق وزیر اعلیٰ حیدرآباد دکن لائق علی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے بعد گھر واپس لوٹیں تو گھریلو ملازم سلیم کے بیان کے مطابق محترمہ اس روز بھی حسب معمول بہت خوش تھیں انہوں نے کہا کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گی لیکن کچھ پھل کھائے اور پھر قصر فاطمہ کی بالائی منزل پر سونے چلی گئیں ، محترمہ کا اصول تھا کہ وہ روز صبح اٹھ کر چابیاں نیچے برآمدے میں پھینکا کرتیں تھیں جس سے ملازم کمروں کے تالے کھولتے۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
9 جولائی کے روز مقررہ وقت تک چابیاں نہ آئیں تو گھر کا ملازم پریشان ہو ا، اس کو تشویش لاحق ہوئی اسی اثنا میں ان کی دھوبی بھی پہنچ گئی جس نے کہا کہ خدا نخواستہ محترمہ کی طبیعت خراب نہ ہو، وہ فوری بھاگتی ہوئی قصر فاطمہ کے نیچے والے کمرے میں گئیں جہاں چابیوں کا گچھا تھااتفاقاً ان میں سے ایک چابی محترمہ کے کمرے کو لگ گئی دیکھا تو محترمہ اس دنیا دار فانی سے رخصت ہو چکی تھیں۔اس طرح 9جولائی1967 کو محترمہ فاطمہ جناح مختصر علالت کے بعد73 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
سبز ہلالی پرچم میں جب ان کا جسد خاکی قصر فاطمہ سے پولو گرا?نڈ پہنچا تو وہاں پہلے سے ہی لاکھوں افراد کا مجمع موجود تھا ، جبکہ مذیدلوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، جوان بوڑھے بچے خواتین زار و قطار اپنے ملک کی ماں کا آخرے دیدار کرنے کو ترس رہے تھے۔ تقریباً 12بج کر 35منٹ پر ایچ خورشید اور ایم اے ایچ اصفہانی نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے محترمہ کی میت کو قبر میں اتارا تو اس وقت لوگوں کی تعداد تقریباً 6لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ یوں محترمہ فاطمہ جناح لاکھوں سوگواروں اور قوم کو یتیم کر کے منوں مٹی تلے سوگئیں۔
بشکریہ: سابق آئی جی الطاف قمر
محترمہ فاطمہ جناح کو ان کی وصیت کے مطابق مزار قائد میں ہی دفن کیا گیا ان کی قبر سردار عبدالرب نشتر اور لیاقت علی خان کی قبروں کے درمیان، قائد اعظم محمد علی جناح سے تقریباً 120فٹ کے فاصلے پر ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی موت آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ محترمہ کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ انہیں قتل کیا گیاتھا۔ مادر ملت کی قومی خدمات کے صلے میں پاکستانی عوام اپنی اس ماں کو بطورمحسن ملت ہمیشہ یاد رکھے گی۔
فاطمہ جناح کے لوگوں سے خطاب کی نہایت نایاب ویڈیو:
صدارتی الیکشن کیلئے فاطمہ جناح کی عوام الناس سے انتہائی نایاب اور خوبصورت تقاریر کے منظر پر مبنی ویڈیو: