شہباز شریف ڈاکٹرائن
طاقتور حلقوں سے ہر صورت بنا کر رکھنے کا شہباز شریف ڈاکٹرائن پٹ چکا، روندا جاچکا، بلکہ ملیامیٹ ہو چکا۔بات کو سمجھنے کے لئے بہتر ہوگا کہ اس ڈاکٹرائن کو کسی ایک شخصیت سے منسوب کرنے کی بجائے ایک علامت کے طور پر دیکھا جائے۔ یہ کیفیت کم دبیش ہر سیاسی اور مذہبی جماعت پر مختلف مواقع پر طاری ہوتی رہتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر مالکان ملک و ملت سے مل ملا کر چلیں گے تو بہت آسانیاں ہوں گی اور بچت رہے گی۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہ ایک خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔پی ڈی ایم کے قیام کے بعد ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید اس مرتبہ کچھ مختلف ہو۔ پیپلز پارٹی، اے این پی کو لے کر نکل گئی۔ اگرچہ یہ بہت بڑا دھچکا تھا، مگر اپوزیشن اتحاد کو پھر بھی سنبھالا جاسکتا تھا، مگر شاید ارادے ہی کمزور تھے۔ آج عالم یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) بھی“ اچھی پارٹی“ بن گئی ہے۔ اس کے واضح اثرات پی ڈی ایم پر مرتب ہوئے۔ سوات میں ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کی آواز میں روایتی گھن گرج موجود نہ تھی۔پی ڈی ایم کی جانب سے شاید اب یہ سوچا جارہا ہے کہ سڑکوں پر آکر مطالبات پیش کرنے کی بجائے اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا اس بارمکمل طور پر پٹے ہوئے اس آزمود ہ نسخے کا کوئی موافق نتیجہ برآمد ہوتا ہے یا نہیں۔
سیاسی حوالے سے ایک اہم پیش رفت قومی سلامتی کمیٹی کا حالیہ اجلاس ہے، جس میں اعلیٰ فوجی حکام نے حکومت اور اپوزیشن کے منتخب نمائندوں کو بند کمرے کے اجلاس میں بریفنگ دی۔ عسکری حکام کی جانب سے باور کرایا گیا کہ خطے کے حالات اور درپیش چیلنجوں کے باعث ضروری ہو گیا ہے کہ تفرقے کی سیاست سے گریز کیا جائے۔ شرکا کو افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد کی صورتِ حال،مقبوضہ کشمیر کے حالات، چین کو محدود کرنے کے لئے امریکہ کی کوششوں کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ بتایا گیا کہ ڈرون حملوں کے لئے اڈوں کی فراہمی کی امریکی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔اور یہ طے کیا گیا کہ ہم کسی تنازعہ میں فریق نہیں بنیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بیرونی طاقتوں نے دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ 27 میں سے 26 نکات پر عمل درآمد کرنے کے باوجود پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا۔ بلوچستان میں بدامنی کے لئے پراکسیز کو متحرک کر دیا گیا ہے۔ جوہر ٹاؤن لاہور میں دھماکہ بھارت نے کرایا۔
یہ خدشات بھی ظاہر کیے گئے کہ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ سی پیک کو ٹارگٹ کرنے اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرکے بھاگنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔شرکا سے کہا گیا کہ قومی امور پر اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔ سیاست صرف گورننس اور سیاسی معاملات پر ہونی چاہئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے نام پر بلائے گئے اس اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے شریک ہونا ضروری نہیں سمجھا۔ اس حوالے سے دریافت کیا گیا تو کہا گیا کہ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ حزبِ اختلاف کو وزیر اعظم کی آمد پر اعتراض تھا۔ یہ دعویٰ یکسر بے بنیاد ثابت ہوا کہ اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کوئی مطالبہ کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی غیر حاضری کو معمہ بنانے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
ایک چینل ”منظور شدہ“ تجزیہ کار نے بتایا چونکہ وزیراعظم کو پہلے ہی سے سب باتوں کا علم تھا اس لئے وہ شریک نہیں ہوئے۔ اسی شام سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم بنی گالہ آئے اور گلے میں پٹکا پہن پر مشرف بہ پی ٹی آئی ہو گئے۔ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں کو رتی برابر شبہ نہیں کہ ارباب غلام رحیم کی پارٹی اور سیاسی مستقبل کا فیصلہ کہاں ہوتا ہے۔ آصف زرداری اور بلاول جس قسم کی سیاست کر رہے ہیں اس کے نتائج تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔بھرپور پلاننگ کے ساتھ اگلی بار سندھ سے پیپلز پارٹی کا پتہ کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پی پی کی سیاست اسی انداز میں جاری رہی تو ممکن ہے اسے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) کی طرح مرکز یا صوبے میں حکومتی جماعت کا اتحادی بننا پڑے،جو لوگ بلاول بھٹو زرداری کے ممکنہ دورہ امریکہ سے بڑی بڑی توقعات لگا رہے ہیں۔شاید یہ بات فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ہر معاملے میں جس احسن انداز میں امریکی مقاصد پورے ہو رہے ہیں اس کے پیش نظر امریکی حکام سیسہ پلائی دیوار کی طرح اس حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ بلاول ایک کیا دس دورے کرلیں۔ پیپلز پارٹی کے لئے کچھ تبدیل نہیں ہونے والا۔دوسری طرف شہباز شریف کی فدویانہ سیاست پر بھی آخر کتنا اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ چھوٹا بھائی جو کچھ بھی کرتا ہے۔بڑے بھائی کے کہنے پر ہی کرتا ہے۔ اب شہباز شریف اپنے روایتی انداز میں سیاست کر رہے ہیں تو نواز شریف خاموش ہیں۔ اسے تائید کی سمجھا جائے گا۔ یہ سب کچھ اگر کسی مجبوری یا کمزوری کے سبب کیا جارہا ہے تب بھی تنقید کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اور اگر یہ اچھے دنوں کی امید پر کیا جارہا ہے تو محض دیوانے کا خواب ہے۔
مسلم لیگ(ن) کو اقتدار سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے کون کون سے پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ ایسے میں کون پاگل ہو گا کہ مسلم لیگ(ن) کے لئے سیاسی میدان میں مساوی مواقع پیدا کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لے۔ شہباز شریف نے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی دنیا کے تقریباً تمام اہم ممالک کی شخصیات سے تعلقات قائم کیے۔ انتظامی امور اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ان کی ایک مخصوص شہرت ہے۔کیا وہ بھول گئے کہ اورنج لائن ٹرین پراجیکٹ کیسے روکا گیا؟ پی کے ایل آئی کے حوالے سے کیا غدر مچایا گیا، میٹرو بس منصوبوں کے متعلق کیا پراپیگنڈہ کیا گیا۔ ویسے بھی ہمارا نظام سٹیٹس کو کا نظام ہے،جو تبدیلی لانے کی کوشش کرے اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف کی اپنی مجبوریاں ہوں گی،مگر مولانا فضل الرحمن کو زیادہ قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جے یو آئی نے اپنی بے مثال سٹریٹ پاور کے ذریعے جب بھی مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی تو اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اِدھر اُدھر ہو گئیں۔ سو بہت سارے تجزیہ کار اب یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن جو کر رہے ہیں ان کے لئے وہی مناسب ہے۔یہ بات واضح ہے کہ جب تک ملک اندر سے ٹھیک نہیں ہوتا تب تک بیرونی حالات بھی خراب ہی رہیں گے۔ صرف شہباز شریف ڈاکٹرائن کے تحت سیاست کرنے کی گنجائش بہت کم ہو گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے جرأت مندی کے ساتھ اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس کے مضر اثرات ملک کے ہر ادارے اور عوام کو بھگتنا ہوں گے۔ موجودہ سیاسی لیڈر شپ اپنا کردار ادا کرنے میں فیل ہوگئی تو نئی قیادت نئے انداز میں سامنے آئے گی۔ سٹیٹس کو ہمیشہ کے لئے برقرار نہیں رہ سکتا۔