افغانستان، طالبان اور پاکستان:بنیادی مسائل(1)
حیدر علی آتش (1777-1846ء)کا شعر ہے:
زمین ِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
آج سے تین سال پہلے میں نے روزنامہ ”دی نیوز“ کے لئے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ”افغانستان میں امن، مذاکرات کے ذریعے نہیں آئے گا، بلکہ جنگ کے ذریعے ہی آئے گا“۔ آج جب ہم زمینی حالات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے۔
تاہم، اْس وقت مجھے دوستوں نے کہا کہ ”آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ یہ کوئی 1996ء تو نہیں ہے۔طالبان کو بھی اپنی حدود (Limitations)کا احساس ہوچکا ہے۔ اس کے بجائے کہ وہ جنگ کریں، خود ان کی بھی یہی خواہش ہوگی کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ کچھ لو دو پر معاملات طے کرلیں اورعارضی یا عبوری طور پر ہی سہی، کوئی نہ کوئی معاہدہ ان کے ساتھ ہوجائے“۔
لیکن آج بھی میرا یہی خیال ہے کہ ”افغانستان میں اگر امن آئے گا تو سول وار کے بعد ہی آئے گا“۔کچھ لو اور کچھ دو‘ طالبان کا مزاج نہیں ہے۔ وہ ایک تحریک ہیں، جو افغانستان کو امارت اسلامیہ افغانستان بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ وہ معاملات کا کہیں زیادہ ادراک رکھتے ہوں گے کہ دنیا 1996ء والی ’طالبانائزیشن (Talbanisation) کو قبول نہیں کرے گی۔ اِس لئے وہ اپنے انداز میں ضرور کچھ تبدیلیاں کریں گے۔
ہم نے حالیہ عرصے میں یہ دیکھا ہے کہ امریکہ نے بھی طالبان سے روابط قائم کئے اور پھر ان روابط کے نتیجے میں 29فروری 2020ء کو ایک معاہدہ بھی ہوا۔ اسی طرح روس، چین، ایران اور ترکی نے بھی طالبان سے روابط بڑھائے ہیں، لیکن معلوم نہیں کہ پاکستان کیوں اپنے آپ کو تذبذب کی کیفیت میں ڈال کر اس پوزیشن کی جانب دھکیل رہا ہے، جو بالکل غیر ضروری ہے اور آخری تجزیے میں اس رویے سے پاکستان کے ہاتھ سوائے نقصان کے کچھ نہیں آئے گا۔
مثال کے طور پر 3جون کو چوتھا سہ فریقی اجلاس چین، پاکستان اور افغانستان کی اشرف غنی حکومت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اجلاس کی کیا ضرورت تھی؟ بنیادی طور پر امریکی صدر بائیڈن کی حکومت نے ایک تجویز دی کہ اقوام متحدہ کے تحت استنبول میں ایک میٹنگ ہو۔ لیکن وہ نہیں ہوئی تو اسے جانے دیجیے۔ آپ ایسے معاملات میں کیوں پڑتے ہیں، جن سے لگتا ہے کہ آپ طالبان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ 3جون 2021ء کو جو نشست ہوئی، اس کے جاری کردہ اعلامیے میں یہ زبان استعمال کی گئی کہ ’طالبان دہشت گرد‘ ہیں۔ یہ مقدمہ یا موقف تو کابل حکومت کاہے۔ وہ ایک طرف طالبان کو ’دہشت گرد‘کہتے ہیں اور دوسری طرف ان سے مذاکرات بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم نے اس قسم کے اعلامیے سے کیوں اتفاق کیا؟ یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟
دوسری طرف اسی اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جو حکومت افغانستان میں طاقت کے ذریعے آئے گی،اس کی حمایت نہیں کی جائے گی“۔ اب یہ کوئی کہنے کی بات ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکی قیادت میں نیٹو فورسز کی قوت کے بل پر ہی قبضے کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی وغیرہ کی حکومتیں بنیں۔ مراد یہ ہے کہ ان کو جبری طور پر قابض طاقتوں کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا۔ یہ حکومتیں کسی جمہوری طریقے سے اقتدار میں نہیں آئی تھیں۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کی کیا حیثیت ہے؟ ان کے انتخابات میں ووٹوں کا کتنا ٹرن آؤٹ تھا؟ اس وجہ سے یہ کہنا کہ ”جو حکومت طاقت کے ذریعے آئے گی، اس کی حمایت نہیں کی جائے گی“، دراصل طالبان کے خلاف اشرف غنی حکومت کی تحسین اور تائید کرنا ہے کہ جن کی کابل سے باہر کوئی رِٹ ہی نہیں ہے۔
چونکہ یہ بات سراسر طالبان کے خلاف جاتی ہے،اس لئے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ہم غیرضروری طور پر پاکستان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ کیوں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم نیوٹرل (غیر جانبدار) بھی رہ سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم طالبان کے خلاف بات کریں یا اس وقت کابل میں محدود سی پوزیشن رکھنے والی حکومت کے حق میں بے جا طور پر بات کریں۔ اس قسم کے عمل میں ہم کیوں پڑرہے ہیں؟
ہم چین سے اور دیگر ممالک سے مذاکرات یا کانفرنسیں کرسکتے ہیں اور غیر رسمی طور پر ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں، لیکن ہمارے قومی مفادات کے حوالے سے اس قسم کی میٹنگوں کی کوئی گنجایش نظر نہیں آرہی ہے کہ جیسی مذکورہ بالا سہ فریقی میٹنگ کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت طالبان کسی میٹنگ پر اتفاق کرلیں۔ تاہم، ابھی تک امریکی صدر بائیڈن کی تجویز کردہ میٹنگ نہیں ہوسکی اور طالبان کسی ایسی میٹنگ کے لئے تیار بھی نہیں ہیں کہ جس میں ان پر جنگ بندی اور دیگر شرائط عائد کی جائیں۔ وہ اپنی ترتیب دی ہوئی حکمت عملی کے تحت پورے اعتماد کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہیں۔(جاری ہے)