ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے وزارتی کمیٹی
وزیراعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے حکومتی کوششوں کو منظم اور تیز کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی وزارتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ ا±نہوں نے وزارت خارجہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ا±ن کی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے آئندہ ملاقات کے لیے ویزے کے حصول میں مکمل معاونت فراہم کرے۔ کمیٹی کی تشکیل کی یہ پیشرفت ڈاکٹر فوزیہ کی وزیراعظم سے اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات کے دوران سامنے آئی۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے اہلِ خانہ کے کرب کا بخوبی ادراک ہے اور وہ ا±ن کے غم میں برابر کے شریک ہیں، ا±ن کی رہائی کے لیے کوشش کرنا حکومت کا فرض ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ نے امریکی ویزے کے حصول میں حکومتی معاونت پر بھی وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اِس معاونت نے عافیہ صدیقی کی رہائی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران ڈاکٹر فوزیہ کی وزیراعظم سے یہ دوسری ملاقات تھی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ڈاکٹرعافیہ کی رہائی سے متعلق میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنا وہی موقف ایک بار پھر دہرایا ہے کہ امریکہ میں قید عافیہ صدیقی کی رہائی کی کنجی واشنگٹن میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں ہے، عالمی سطح پر عافیہ صدیقی کے کیس میں پیشرفت ہو رہی ہے، حکومت آج امریکہ سے بات کرے تو وہ چندروز میں رہا ہو سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ اِس وقت امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ میں واقع خواتین قیدیوں کو خصوصی طبی اور ذہنی صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے کارسویل جیل کے فیڈرل میڈیکل سینٹر میں ہیں جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دنیا کی بدترین جیلوں میں سے ایک ہے اور اِسے دیگر کئی ناموں جیسے ”جہنم کا گڑھا“ وغیرہ کے علاوہ ”ہاﺅس آف ٹیرر“ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ عافیہ صدیقی کراچی کی رہائشی ہیں، وہ دنیا کے اعلیٰ ترین میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے تعلیم یافتہ نیورو سائنٹسٹ ہیں، ا±ن پر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ہے،مارچ 2003ء میں ایک کالعدم تنظیم القاعدہ کے اہم کمانڈر اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد وہ اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔ پانچ سال بعد یعنی 2008ء میں امریکی حکام نے ا±نہیں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ ا±ن پر الزام تھا کہ ا±نہوں نے امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی افسروں پر پوچھ گچھ کے دوران قریب پڑی ایک رائفل ا±ٹھا کر فائرنگ کر دی تھی تاہم جوابی فائرنگ میں وہ خود زخمی ہو گئی تھیں۔ عافیہ صدیقی کو بعد ازاں امریکہ منتقل کر کے ا±ن پر مقدمہ چلایا گیااور ا±نہیں 86 برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ امریکی عدالت میں حکام کی طرف سے پیش کیے گئے ثبوتوںکے مطابق عافیہ صدیقی کے پاس سے دو کلو سوڈیم سائنائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں جن سے پتہ چلا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں سال مئی میں لگ بھگ 20 سال بعد ا±ن کی بڑی بہن فوزیہ صدیقی نے ا±ن سے اڑھائی گھنٹے طویل ملاقات کی تھی تاہم اِس ملاقات میں دونوں بہنوں کو گلے ملنا تو درکنار ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہیں دی گئی تھی، دونوں کے درمیان ایک موٹا شیشہ حائل تھا اور ا±نہوں نے آپس میں ٹیلیفون پر بات کی جو ریکارڈ کی جا رہی تھی۔ ڈاکٹرعافیہ کے سامنے والے چار دانت جیل میں کیے گئے ایک حملے میں ضائع ہوچکے ہیں جبکہ سر پر آنے والی چوٹ کے باعث اُنہیں سننے میں دشواری کا سامنا تھا۔عافیہ صدیقی کو ا±ن کے اپنے بچوں کی تصاویر دکھانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ سفید سکارف اورجیل کی خاکی وردی میں ملبوس ڈاکٹرعافیہ نے ملاقات میں روزانہ کی بنیاد پر سہی جانے والی اذیتوں کی تفصیلات سنائیں اور بہن سے یہ بھی کہا کہ ا±نہیں ا±ن کی والدہ اور بچے ہروقت یاد آتے ہیں (ا±نہیں اپنی والدہ کی وفات کاعلم نہیں تھا)۔ باقی کا سارا وقت ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بہن کو ا±ن کے بچوں کے بارے میں بتاتی رہیں، خاندان کے افراد کے ذکر پر عافیہ صدیقی بار بار رو دیتی تھیں۔ ملاقات کے دوران کمزور صحت عافیہ نے بہن سے بار بار اصرار کیا کہ اُنہیں اِس جہنم سے نکالا جائے۔ اِس ملاقات کے لیے سینیٹر مشتاق کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے برطانوی سول رائٹس وکیل کلائیو سمتھ بھی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ تھے۔ کلائیو سمتھ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق عافیہ کی اپنے بچوں سے متعلق ہر بات 2003ءکے اس وقت میں منجمد ہے جب اُنہیں گرفتار کیا گیا تھا، ان کا اعزاز ہے کہ وہ اِس جذباتی ملاقات کے دوران وہاں موجود تھے تاہم اِن ملاقاتوں کی اہمیت یہی ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کو جیل سے ا±ن کے گھر واپس لے کر آئیں۔
”عافیہ کی رہائی کی تاریخ 3 جون 2082ءہے، جولائی 2019ءمیں اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان امریکہ گئے تو یہ تجویز سننے میں آئی تھی کہ عافیہ صدیقی کا تبادلہ شکیل آفریدی سے کر دیا جائے جو ا±سامہ بن لادن کی شناخت کی تصدیق میں امریکیوں کی مدد کرنے پر جیل کاٹ رہے ہیں۔اِس کے بعد بھی ایسی خبریں سامنے آتی رہی ہیں کہ امریکہ ڈاکٹر شکیل کو ا±س کے حوالے کیے جانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ایک امریکی کانگریس مین نے بھی دونوں قیدیوں کے آپسی تبادلے کی تجویز دی تھی تاہم اِس پر تاحال کسی قسم کی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ عافیہ کی رہائی میں ابھی دہائیاں باقی ہیں، ا±نہیں تو معلوم نہیں لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔گوانتانامو بے جیسی بدنامہ زمانہ جیل سے بھی بہت سے قیدیوں کو رہائی مل چکی ہے تاہم عافیہ صدیقی کی حالت جوں کی توں ہے۔
اُن کے خلاف مقدمہ انتہائی کمزور ہونے کے باوجود امریکی عدالت نے ا±نہیں اتنی بڑی سزا سنائی، دنیا کا کوئی ملک اپنے شہریوں کو کسی دوسرے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا، مشہور زمانہ امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کی وطن واپسی کے لیے امریکہ نے جو کچھ کیا تھا وہ کسی پاکستانی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اعلیٰ سطح کی وزارتی کمیٹی کی تشکیل احسن اقدام ہے۔ سینیٹ میں چند سال قبل پیش کیے گئے ایک تحریری جواب میں ا±سوقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایوان کو بتایا تھا کہ امریکی عدالتی نظام کے مطابق عافیہ صدیقی کی اپیل پر ہی ا±ن کی رہائی ممکن ہے، نہ صرف عافیہ نے سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے بلکہ حکومت نے بھی بیرون ملک فوجداری سزاو¿ں کے بین الامریکہ کنونشن 1993ءکے تحت امریکہ سے ا±ن کی وطن واپسی کی درخواست کر دی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ بھی اکتوبر 2020ء میں امریکی حکام سے اپنی بہن کی سزا معاف کرنے کی درخواست کر چکی ہیں۔ اب اِس کمیٹی کو چاہئے کہ بنا وقت ضائع کیے وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی انسانی بنیادوں پر ممکن بنائے اور اس کے لیے جو بھی قانونی، سفارتی اور سیاسی ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں،اُنہیں متحرک کرے۔