آئی ایم ایف وفد کی ملاقاتیں اور تبصرے

آئی ایم ایف وفد کی ملاقاتیں اور تبصرے
آئی ایم ایف وفد کی ملاقاتیں اور تبصرے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سوشل میڈیا کو ہر روز کوئی نہ کوئی ایشو چاہئے جسے اچھالا جا سکے، ان دنوں اس میڈیا کو آئی ایم ایف کی سرگرمیاں مل گئی ہیں اور مثبت خبر کے باوجود کیڑے نکالے جا رہے ہیں موجودہ اتحادی حکومت کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ ہو جانے کے بعد خبر تو یہ تھی کہ اب بورڈ آف ڈائریکٹرز سے منظوری بھی مل جائے گی، اس حوالے سے بھی بہت کچھ کہا اور لکھا گیا خیال تھا کہ بات یہیں تک رہ جائے گی لیکن اچانک آئی ایم ایف کے وفد نے ملک کی اہم سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ابتداءپاکستان پیپلزپارٹی سے کی گئی اور اس کے بعد گزشتہ روز زمان پارک کو بھی رونق بخشی، وفد نے یہاں عمران خان سے ملاقات کی اور تبادلہ خیال کیا خبر یہ ہے کہ سابق وزیر خزانہ شوکت عزیز نے ویڈیو لنک کے ذریعے تفصیلی بریفنگ دی۔ اس ملاقات میں سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی موجود تھے۔ ملاقات کے حوالے سے جو خبر نشر اور شائع ہوئی اس کے مطابق دونوں راہنماﺅں نے آئی ایم ایف کے روڈ میپ پر اتفاق کر لیا اور یوں معاہدہ کی تائید ہو گئی۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس کے بعد جن بڑی سیاسی جماعتوں سے تبادلہ خیال ہوگا وہ بھی معاہدہ کی تائید کر دیں گی اور وفد کو تعاون کی یقین دہانی کرا دی جائے گی۔ وفد کی سربراہ ایسٹرپیریز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چونکہ ملک میں انتخابات ہونے ہیں اس لئے فنڈز کی انتظامیہ نے مناسب سمجھا کہ سب جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کے مطابق وہ پروگرام بتایا جائے جو فنڈز کی طرف سے بنا کر دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف ترجمان کے مطابق یہ اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ متوقع انتخابات کی وجہ سے اعتماد کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ آئندہ جو بھی برسر اقتدار آئے اسے پہلے ہی سے پروگرام کا علم ہو اور فنڈز حکام کو کوئی دقت پیش نہ آئے۔
جو کچھ بھی سامنے آیا وہ اپنی جگہ درست ہے تاہم ان ملاقاتوں نے ایک عجیب سی اُلجھن پیدا کر دی ہے اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ آئی ایم ایف اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ براہ راست اب سیاسی جماعتوں سے مل کر اس معاہدہ پر بات کرے جو حکومت سے ہو چکا اگرچہ خبر یہی ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے بھی فنڈز کے روڈ میپ پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ اپوزیشن ہوتے ہوئے تحریک انصاف کی طرف سے انگوٹھا لگا دیا گیا ہو، یقینا خان صاحب نے اپنے دل کا بخار بھی نکالا ہوگا اور وفد کو موجودہ حکومت کو نا اہل اور ناکام قرار دینے کے بعد ہی یہ یقین دہانی کرائی ہو گی کہ اگر تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو یہ پروگرام جاری رہے گا۔


یہ سب اپنی جگہ لیکن سنجیدہ حلقوں کے نزدیک یہ انتہائی قدم ہے جس کے باعث یہ تاثر پیدا کیا گیا ہے کہ آپ مقروض اور ہم سود خور ہیں اور ہمارا رویہ بھی ویسا ہی ہوگا جیسا سود خور حضرات کا ہوتا ہے ہمارے ملک میں سود کا جو غیر قانونی کام ہوتا ہے اس کے مطابق ایک تو شرح سود بہت ہوتی ہے دوسرا قرض دینے والا سود خور اپنے ”گاہک“ کا ایسا پیچھا کرتا ہے کہ وہ مجبور ہو کر قسط کی ادائیگی کرتا رہتا ہے کہ یہ سود خور اور ان کے کارندے مقروض کے محلے میں بھی تاثر پھیلا کر جاتے ہیں کہ محترم ان کے مقروض ہیں اگرچہ جب کوئی پوچھے کہ جناب نے کس سے ملنا اور کیا کام ہے تو بڑے انداز سے کہتے ہیں ہمارا دوست ہے لیکن تماشہ اس روز لگتا ہے جب کبھی قسط رک جائے، ایک بار پہلے بھی عرض کیا کہ یہ سود خور اپنے مقروض کو کبھی مرنے نہیں دیتے اگر وہ قسط بروقت ادا نہ کر سکے تو اسے مزید قرض دے کر سابقہ اور تازہ قسط پہلے کاٹ لیتے اور یوں نہ صرف رقم وصول ہوتی ہے بلکہ مقروض پر بوجھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ آئی ایم ایف بھی ایسا ہی عالمی سود خور ہے جو قرض دے تو دیتا ہے پھر جان نہیں چھوڑتا اور مزید قرض کے لئے نئی شرائط بھی منواتا ہے چونکہ یہ ادارہ عالمی سطح پر غریب پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی مدد کا دعویٰ کرتا ہے اس لئے اسے عالمی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ بھی اسی قرض دینے والے سود خور کے انداز میں عمل کرتا ہے اور مقروض ملک کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے یہ جو روڈ میپ ہے بظاہر کسی ملک کی بہبود کے حوالے سے ہوتا ہے لیکن غور کریں تو مقروض ملک کو ”نفلے“ لگانے والی بات ہوتی ہے اب وفد نے جس انداز سے ملاقاتیں کی ہیں اس سے یہی تاثر دینا مقصود ہے کہ فنڈز والوں کو مکمل اعتماد نہیں، ویسے معترض حضرات کا یہ اعتراض درست ہی لگتا ہے کہ فنڈز والوں نے اپنے عالمی مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے اور یہ مداخلت ہے۔ بہر حال یہ تو ہو گیا اور بحث بھی جاری ہے جو رہے گی۔ سوشل میڈیا پر طرح طرح کی کہانیاں بھی ظاہر کی جا رہی ہیں۔بات بظاہر کوئی بڑی نہیں لیکن عالمی سطح پر جو تاثر بنا وہ ٹھیک نہیں کہ اس سے موجودہ حکومت پر اعتماد کر کے جو معاہدہ کیا گیا اسے بھی وقتی طور پر روک کر یہ کیا گیا۔ 
ہمارے درد مند ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی مجبور ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے پاکستان کا اصل سر درد یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ایک ایسی گارنٹی ہے جس سے حکومت دوسرے امدادی اداروں اور دوست ممالک سے تعاون حاصل کر سکتی ہے دوسری صورت میں عالمی بنک سے ایشیائی ترقیاتی بنک تک بھی بات نہیں کرتے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اس صورت حال سے ملک کو نکالنے کی سعی کریں اب تک حکومتی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسی کوشش تو ہو رہی ہے اور منصوبے بھی بنائے گئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان سب کی تکمیل کے لئے وقت درکار ہے اور یہاں وقت کم اور مقابلہ سخت ہے کہ اگست کے تیسرے ہفتے میں موجودہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی معیاد پوری ہو جائے گی۔ وزیر اعظم اقتدار چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہوئے ہیں جس کا مطلب نئے انتخابات ہیں لیکن حالات سے مترشح ہوتا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کی مدت بڑھانے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ اسی لئے بعض حضرات نے یہ فلسفہ پیش کیا ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت ایک سال بڑھانے کی گنجائش موجود ہے اور ایسا ممکن ہے ورنہ جو منصوبے بنا کر اعلانات کئے جا رہے ہیں ان کی اس وقت کوئی ضرورت نہیں تھی کہ ان کی تکمیل کے لئے وقت درکار ہے جبکہ سابقہ حکومت پر اعتراض ہے کہ اس نے پہلے ہی سابقہ حکومت کے منصوبے روک دیئے اور خود بھی کچھ نہ کیا۔ بہر حال یہ حالات صرف سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ مرکزی میڈیا پر بھی زیر بحث آ جاتے ہیں اس لئے وقت کا انتظار کیجئے کہ حالات اور کروٹ لینے والے ہیں۔ہماری تو شروع سے گزارش ہے کہ اتفاق رائے کے لئے وسیع تر مذاکرات ہوں۔

مزید :

رائے -کالم -