دین اسلام یں فرقہ واریت کی گنجائش نہیں۱
پہلا اسلامی مہینہ ”محرم الحرام“ہے۔ اسلام ویسے تو سارا دین ہی عزت و احترام عطا کرنے والا اور اپنے ماننے والوں کو باہمی احترام کا حکم دینے والا ہے، مگر محرم الحرام کے تو نام ہی میں ”حرمت و احترام“کے معانی اور تقاضے رکھ دیئے گئے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں ہوتا کیا ہے؟ جونہی محرم قریب آنے والا ہوتا ہے ہر شہر اور قصبے میں، سرکاری ادارے اور امن کمیٹیاں چوکنا اور متحرک ہو جاتی ہیں،لگتا ہے کوئی آفت آنے والی ہے۔ ہر ایک امن و امان کا مسئلہ لے کر فکر مند رہتا ہے، حالانکہ یہ مسلمانوں کا ملک اور مسلمانوں کا معاشرہ ہے اور اسلام دین ہی سلامتی، امن، رواداری اور باہمی احترام کا ہے،مگر ہمارے لوگ اسلام کے تمام آداب و احکامات اور حرمت والے مہینوں کی حرمت و احترام کے تمام تقاضوں کو فراموش کر چکے اور برداشت و تحمل کا دامن چھوڑ چکے ہیں۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: ”تحقیق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے قرار دیئے گئے ہیں، ان میں تم اپنے نفسوں پر کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں کرنا“۔ (سورہ توبہ:36)
خطبہ¿ حجة الوداع کے موقع پر رسول اللہ نے صحابہ کرام ؓ کو مخاطب کیا اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ چار حرمت والے مہینے کون سے ہیں؟
صحابہ کرامؓ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی ہم سے زیادہ جانتے ہیں، کہ وہ چار حرمت والے مہینے کون سے ہیں؟
ایک دوسری روایت کے مطابق خود صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ اللہ کے رسول! وہ چار حرمت والے مہینے کون سے ہیں، تو رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ”تین مہینے پے در پے، یکے بعد دیگرے آنے والے اور ایک اُن سے الگ، ایک ذیقعدہ کا مہینہ، ایک ذوالحجہ کا مہینہ اور تیسرا محرم الحرام کا اور چوتھا جو ان سے الگ ہے، وہ ہے رجب کا مہینہ۔ یہ چار مہینے ایسے ہیں کہ جن کو اللہ رب العزت نے حرمت والے قرار دیا ہے۔ان کے بارے میں خصوصی طور پر احکامات ہیں، اور جیسا کہ آیہ مبارکہ میں بھی ہے کہ: ”خبردار! ان چار حرمت والے مہینوں میں اپنے نفسوں پر کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں کرنا“…… مطلب یہ ہے کہ اپنے لوگوں پر، اپنے معاشرے کے افراد پر تم سے کسی قسم کی کوئی زیادتی سرزد نہ ہوجائے۔
اسلام ایسا کامل دین ہے، جس میں عام طور پر بھی حکم ہے کہ کسی شخص سے کسی شخص کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے، فرمایا: ”مسلمان وہ ہوتا ہے، جس کے ہاتھ سے، جس کی زبان سے دوسرے مسلمان، دوسرے افراد محفوظ رہتے ہوں“۔
فرمایا: ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، کسی شخص پر بھی کسی دوسرے شخص کی عزت، حرمت، خون اور مال حرام کر دیا گیا ہے“۔ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے مال کی طرف، کسی دوسرے کی جان کی طرف، کسی دوسرے کے خون کی طرف، کسی دوسرے کے دامن اور عزت کی طرف اپنے ہاتھوں کو لمبا نہ کرے، ہر وہ شخص جو مسلمان کہلاتا ہے، اس سے دراز دستی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:”اپنے آپ کو مومن کہنے والے آپس میں بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں“…… فرمایا: ”ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہوا کرتا ہے“…… اور یہاں اللہ کے رسول نے آئینے کی تشبیہ کیوں دی ہے، اس لئے کہ آئینہ ایک ایسی چیز ہے، جو انسان کے چہرے پر لگے ہوئے داغوں کو اس کے سامنے نمایاں کر دیتا ہے، اور اس طور نمایاں کرتا ہے کہ دیکھنے والا آئینے کو دیکھ کر اپنے داغ دُور کر لیتا ہے، آئینے پہ ناراض نہیں ہوا کرتے کہ آئینہ اس کو تھپڑ مار کے اس کو گالی دے کر اس کو طعنے دے کر نہیں کہتا کہ تیرے چہرے پر داغ لگا ہوا ہے، بلکہ بڑی لطافت کے ساتھ اس کے چہرے کے داغ کو نمایاں کرتا ہے اور وہ داغ جو اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے، آئینہ اس کے سامنے نمایاں کر دیتا ہے۔
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے عیبوں کو لطافت کے ساتھ دُورکرنے کا سبب بنتا ہے، رسول اللہ نے جو معاشرہ قائم کیا، اس معاشرے میں ایسی اخوت و مو¿دت اور محبت کی مثالیں قائم کیں کہ کائنات کا کوئی دوسرا معاشرہ اس کی مثال نہیں دے سکتا۔وہ لوگ جو آپس میں صدیوں لڑا کرتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پہ جن کی تلواریں نیاموں سے باہر نکل آیا کرتی تھیں۔جب اللہ کے رسول کے دامن کے سائے میں آ گئے، تو ان کی صورت یہ ہو گئی کہ آپس میں اس طرح بھائی بھائی بن گئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ماں جائے بھائیوں سے زیادہ محبت و الفت کرنے لگے ہیں۔بھائیوں سے بڑھ کر ایک دوسرے کو پیار دیا، اپنے مال کا آدھا اپنے ان بھائیوں کو دے دیا، جو اخوت کے رشتے کی وجہ سے رسول اللہ نے بھائی قرار دیئے تھے۔ اپنے گھروں کو آدھا ان کے سپرد کر دیا جن کے چہروں کو، کبھی تصور و خیال کے اندر راہ بھی نہیں ملی، اور صرف یہیں تک نہیں بلکہ وہ لوگ جو لٹے پھٹے آئے تھے، وہ لوگ جن کے گھر والوں کو ان سے چھین لیا گیا تھا جن کی بیویوں کو ان سے چھین لیا گیا تھا، جب مدینہ منورہ میں آئے، تو اگر کسی کی ایک سے زائد بیویاں تھیں تو اپنے بھائیوں کے لئے (بعد عدت) حلال کر کے ان کے سپرد کر دیں۔ایسی اخوت، کسی اور دین کے اندر، کسی اور نظریے کے ماننے والوں میں نہیں دیکھی جا سکتی، نہ ایسی مثال قائم کی جا سکتی ہے۔
رسول اللہ نے حجة الوداع کے موقع پر خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا: خبردار ایک دوسرے کی حرمت تم پر اسی طرح ہے جس طرح آج کے دن کی حرمت،جس طرح اس شہر (مکہ) کی حرمت،جس طرح اس مہینے کی حرمت“ یہ عمومی حکم ہے، اسلام کا کہ مسلمان دوسروں کے لئے آرام اطمینان اور سکون کا باعث بنتا ہے۔تکلیف کا باعث نہیں ہوتا، تو گویاجو کسی کو عمداً تکلیف پہنچاتا ہے،جو کسی پر زیادتی کرتا ہے،کسی کے دامن کو داغدار کرتا ہے،کسی کی عزت کی دھجیاں بکھیرتا ہے، کسی کی چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتا ہے، وہ اسلام کے واضح احکامات کا انکار کرتا ہے…… جبکہ حرمت والے مہینوں کے لئے خصوصی طور پر حکم دیا گیا ہے کہ دیکھنا ان مہینوں میں اور زیادہ اپنے دامن کو سمیٹنے کی کوشش کرنا، اور اپنے آپ کو زیادہ محتاط رکھنا اور زیادہ اس بات کا خیال رکھنا کہ ان چار حرمت والے مہینوں میں کسی پر کسی قسم کا کوئی ظلم اور زیادتی نہ ہونے پائے۔
رسول اللہ پر آیہ مبارکہ نازل کی گئی، فرمایا: ”لوگو! اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں گروہ در گروہ نہ بنو،اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم آپس میں ایک دوسرے کے ازلی اور جانی دشمن اپنے آپ کو سمجھے ہوئے تھے، اللہ کی نعمت کی وجہ سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے،(اس لئے کہ جب آپس میں بٹے ہوئے تھے) اس وقت آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کے باعث تم کو اس گڑھے سے بچا لیا ہے“…… (آلِ عمران:103)
مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیہ مبارکہ اس وقت نازل ہوئی کہ اوس اور خزرج کے قبیلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے پرانے دشمن تھے مگر اسلام کی لڑی میں پروئے جانے کے بعد ایک ہو چکے تھے۔ وہ لوگ جو آپس میں ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، جب اسلام کے دائرے کے اندر آ گئے تو یہودیوں نے دیکھا کہ ان مسلمانوں کو آپس میں کس طرح لڑایا جائے، چنانچہ انہوں نے اوس اور خزرج کی پرانی باتیں، پرانی دشمنیاں جو تھیں ان کو دہرانا شروع کر دیا، ان کے اندر ایسی ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں، جس کی وجہ سے پرانی جہالت کی عصبیت عود کر آئی، وہ تعصب جو جہالت کی علامت تھا، ان کے اندر پیدا ہو گیا اور پھر ان کے اندر خون خرابے کا خدشہ پیدا ہوگیا، تلواریں نیاموں سے نکل آئیں کہ ایسے میں رسول اللہ کو خبر ہوئی، آپ بھاگے ہوئے آئے اور درمیان میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ اب تم نے پھر جہالت کو زندہ کر لیا ہے، جہالت کی عصبیت کیا پھر تمہارے دلوں کے اندر پیدا ہو گئی ہے؟ کہ تم اللہ کے دین کی وجہ سے، اسلام کی وجہ سے تعصبات کو، ساری دشمنیوں کو، ساری عصبیتوں کوختم کر کے ایک رسی کو پکڑ کر ایک ہو چکے تھے، کیا پھر جہالت کی راہ اپنانا چاہتے ہو، ایسے میں ان کو پتہ چلا کہ یہودیوں کی یہ سازش ہے، چنانچہ یہ ناکام ہو گئی اور وہ پھر بھائیوں کی طرح ایک ہو گئے۔
یہودیوں سمیت دوسرے مسلمان دشمنوں کی سازشیں ہمیشہ یہ رہی ہیں کہ کسی طور پہ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے، ایک دوسرے کا دشمن بنایا جائے اور اس کے طریق کیا ہیں، جس طرح ان دو واقعات کے اندر ہے یا پرانی باتیں دہرا کر ان کے اندر دشمنی کو پیدا کیا جاتا ہے، یا پھر جو محترم ہستیاں ہوتی ہیں، ان کے اوپر الزام لگا کر، ان کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کر کے پھر دو گروہ بنا دیئے جاتے ہیں تاکہ کسی طور مسلمان آپس میں لڑیں، لیکن ایسے میں پرانی باتوں کو یاد کرنے والوں کی سازشیں یا محترم ہستیوں کے دامن کو داغدار کرنے کی جسارت کے مقابلے میں دو گروہوں میں بٹنے کے بجائے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ایک ہو جاو¿، یعنی دینِ مبین کو تھام لیا جائے تو کسی قسم کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا، اور دینِ مبین یہ حکم دیتا ہے کہ مسلمان کی زبان اور مسلمان کے ہاتھ سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے۔یہ ہے عمومی حکم اور حرمت والے مہینوں میں بالخصوص اس چیز کا خیال رکھنا چاہئے کہ کسی کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ ایسے میں سوچنے کا مقام ہمارے لئے یہ ہے کہ محرم کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے اور الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒکہتے ہیں: ”محرم کا مہینہ ایسا حرمت والا مہینہ ہے کہ جو حرمت والے مہینوں میں بھی بہت زیادہ قابلِ احترام ہے“…… یعنی چار مہینوں میں سے کہیں زیادہ احترام والا یہ مہینہ، تو ہر مسلمان کہلانے والا، ہر ایمان کا دعویدار، ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مومن کہتا ہے، اس کو ان حرمت والے مہینوں میں محترم بننے کی کوشش کرنی چاہئے، مجرم بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ سوچنا چاہئے، جس سوہنے نبی اکرم کو ہم مانتے ہیں اُس نے تو عبادت کے لئے وضو کرنے میں بھی زیادہ پانی بہانے سے منع فرمایا ہے۔ پھر بھلا اُس کے دین میں ناحق خون بہانے کی اجازت کس طرح ہو سکتی ہے؟جبکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کو ختم کر دینے کے مترادف ہے۔ اسلام میں تو کسی کو طعن و تشنیع اور ناروا مذاق کے ذریعے دلی تکلیف اور ذہنی کوفت پہنچانے کی بھی اجازت نہیں۔
یہ مہینہ احترام والا، حرمت والا، عزت والا، شوکت والا ہے، اس مہینے میں ایک دوسرے کے لئے احترام بانٹنا چاہئے، ایک دوسرے کے لئے اکرام بانٹنا چاہئے، بندہ محرم میں محترم بنے، اللہ کے ہاں مجرم نہ بنے، مجرم کس طرح بنیں گے؟ مجرم تب بنیں گے: جب ہم اللہ کے احکامات کا انکار کریں گے۔اللہ کے دین کا مذاق اڑائیں گے۔جب اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کا انکار کریں گے۔جب کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ سے لاتعلقی اختیار کریں گے، تو ہم مجرم بنیں گے۔حرمت والے مہینوں میں بالخصوص کسی شخص سے کسی قسم کی زیادتی سرزد نہیں ہونی چاہئے، یہ ہے عام مسلمانوں کے لئے حکم۔
اب ذرا غور فرمایئے! عام مسلمانوں کے لئے یہ حکم ہے لیکن اگر کوئی شخص اس حرمت والے مہینے میں ایک عام مسلمان پر ظلم و زیادتی کرنے کے بجائے ان ہستیوں پر زبانِ طعن دراز کرنے کی کوشش کرے جو ہستیاں اس کی انتہائی متبرک، مقدس اور محترم ہستیاں ہیں اور وہ ہستیاں جن کے احترام کو اللہ نے بیان کیا، جن کے تقدس کو جن کی حرمت، جن کے اکرام کو رسول اللہ نے بیان کیا، جن کی عزت اور جن کی حرمت کا اگر کوئی انکار کرے گا تو گویا رسول اللہ کے احترام کا انکار کرتا ہے۔کوئی کسی کی محترم ہستی کو نہ مانے تو کوئی بات نہیں لیکن اگر اس محترم ہستی کو برا کہا جائے تو سنگین جرم بن جاتا ہے۔ عقیدت و محبت کے معاملات بڑے نازک اور حساس ہوتے ہیں،ان کی خاطر آدمی مرنے مارنے پر تل جاتا ہے،اس لئے معاشرے کا امن قائم رکھنے کے لئے دوسروں کی محترم ہستیوں کا بھی خاص خیال رکھنا ضروری ہے جبکہ گالی گلوچ،طعن و تشنیع ویسے بھی مسلمان کا شیوا نہیں۔ ٭٭٭
٭٭٭
final