دروزجنگجو قبیلہ اپنے علاقے کو اطالوی اور جرمنی سپاہیوں سے پاک رکھنا چاہتا تھا!
جس مقام پر ہم کھڑے تھے وہاں سے تیرہ (13) میل شمال کی جانب ایک جگہ تھی جس کا نام جردس الجراری (Gerdes el Gerari) تھا۔ وہاں دشمن کی ایک چھوٹی سی چوکی تھی۔ اس چوکی کا رابطہ ایک موٹری راستے (Motorable) سے سلونتا (Slonta) تک جاتا تھا کہ جس پر سے جرمن رسد (سپلائی) اکثر گزرتی تھی۔ بارص ، بیدا لتوریا اور درنا جبل کے مشہور اطالوی قصبے تھے۔ شمالی اور جنوبی سڑکوں کے درمیان کا علاقہ سسلی کے ان آباد کاروں اور کاشتکاروں سے بسا ہوا تھا جو کہیں کہیں اس علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ نیز کئی آرمی کیمپ بھی موجود تھے۔ درختوں کو کاٹ کر زمین اس طرح صاف کر دی گئی تھی کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھنے میں خاصی احتیاط کی ضرورت تھی۔ لیکن جنوبی سڑک کے جنوب میں علاقہ اس قسم کا تھا کہ اس میں جنگل زیادہ تھے اور راستے محدود تعداد میں تھے لہٰذا وہاں دشمن کا گزر کم تر تھا۔ اُدھر شمال میں ساحل اور شمالی سڑک کے مابین کہ جہاں سکارپ منٹ سمندر میں جاملی تھی، دروز (Druz) قبیلہ آباد تھا۔ یہ ایک جنگجو قبیلہ تھا جو اپنے علاقے کو اطالوی یا جرمن سپاہیوں سے پاک رکھا کرتا تھا۔ پچانوے میل مغرب میں ہماری اپنی لائنیں تھیں جو غزالہ سے لے کر بیر حاکم تک پھیلی ہوئی تھیں۔ لیکن ان سے بڑھ کرہماری ایک مہربان اوربھی تھی!.... میری مراد وادی¿ شغران (Sheghran)سے ہے جو ایک عرصے سے ایل آر ڈی جی والے، دشمن کے علاقے کے لیے چور دروازے کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ گزشتہ نومبر میں بیدالتوریا (Beda Littoria)کے مقام پر جنرل رومیل پر ناکام حملے کے بعد جان ہیسل ڈن (Haselden) کو اس وادی سے نکال لیا گیا تھا اور میری آمد سے تین ہفتے قبل میجر چیپ مین (Chapman) کو اسی جگہ دو برطانوی وائرلیس آپریٹروں کے ہمراہ اتارا گیا تھا۔ ان کو اس مشن پر مامور کیا گیا تھا کہ شمالی سڑک پر جرمن ٹریفک پر چھاپہ مارنے کے امکانات کا جائزہ لیں۔ اس جگہ میجر چیپ مین نے وائرلیس کے ذریعے پیغام دے کر ایک عرب کو اس غرض سے متعین کیا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ اس وادی میں رابطہ قائم کرے۔ اس عرب کو کہ جو ہمیں بکریوں کے ریوڑ چراتا ملا تھا،ہم نے کہا تھا کہ میجر صاحب سے ملاقات کرائے۔ چیپ مین ایک طویل القامت اور دبلا پتلا شخص تھا اور فوج میں شمولیت سے پہلے قاہرہ میں ایک سکول ماسٹر تھا۔ وہ اپنی بیوی اور تین ننھے بچوں کو مصر ہی میں چھوڑ آیا تھا اور اب ہمیشہ ان کی یاد میں پریشان رہتا تھا۔ اس کا ذہن بڑا منطقی اور اس کے طور طریقے بڑے معقول قسم کے تھے اور اسی وجہ سے کوئی بھی اس سے کبھی ناراض نہ ہوتا ۔ وہ جو کام اپنے ذمے لیتا اس کی کامیابی کے سنہرے خواب دیکھا کرتا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود وہ اپنے اس عسکری شب و روز سے خوش نہ تھا اور ماضی میں ایک کے بعد دوسرا جاب بدلتا رہا تھا۔ مثلاً لیبین عرب فورس کو غیر تسلی بخش پا کر اسے ترک کیا اور شام میں جب دروز ملیشیا قائم کیا گیا تو یہ اس کی کیولری فورس میں شامل ہوگیا۔ بعد میں جب یہ فورس بھی ختم ہو گئی تو اس نے موجودہ جاب اختیار کر لیا۔ اس انتخاب میں کسی جوش و اضطرار کو دخل نہ تھا بلکہ اس نے خوب سوچ سمجھ کر،پوری سنجیدگی اور عزم صمیم کے ساتھ اسے اختیار کیا تھا۔ جو کام بھی کرتا فہم و ادراک اور سوجھ بوجھ کے ساتھ میں کیا کرتا۔
وہ رات کی تاریکی میں ہم سے ملا۔ کچھ پریشان سا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ شغران۔ سلونتا لائن پر ہماری سرگرمیاں کچھ ضرورت سے زیادہ بڑھ گئی تھیں۔ اطالویوں نے اس پر چھاپہ مارنے کی افواہیں سن لی تھیں اور خاصے مضطرب تھے۔ بالخصوص ایک عرب کہ جس کا نام سلیم تھا اور جس کا تعلق براسی قبیلے سے تھا اس پر اطالویوں نے بہت ہی شک کیا تھا۔ یہ شک دراصل درست بھی تھا ۔ سلیم اس علاقے میں ہمارا سب سے بڑا ایجنٹ تھا۔ کچھ ہی روز قبل اطالوی کمانڈر نے اسے سلونتا (Slonta) میں طلب کیا تھا اور کئی بار اس سے پوچھ گچھ کی تھی۔ اگلی رات سلیم خود ہمیں آ کر ملا اور اس بری خبر کی تصدیق کی۔ اسی روز اطالویوں نے اس سے برطانیہ والوں کی حمایت کے سلسلے میں پوچھ گچھ کی۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہم سے ملنے آیا۔ میں نے فوراً ہی محسوس کر لیا کہ اب اس کو مزید استعمال کرنا زیادتی ہوگی ۔ چنانچہ میں نے نئے افق تلاش کرنے شروع کر دیئے۔
سعد علی نے بھی میرے اس فیصلے کی توثیق کر دی۔ اسے ویسے بھی باراسیوں پر کوئی اعتبار نہ تھا۔ وہ شاید باراسیوں کے بارے میں زیادہ ہی متعصب تھا۔ اس کے الفاظ تھے : ”تمام کے تمام باراسی ایجنٹ ہوتے ہیں....ہمیں اب عبیدیوں کے ہاں جانا چاہیے۔“ یہ عبیدی (Obeidi) قبیلہ، جبل اخضر کا سب سے بڑا قبیلہ تھا اور اس کی عملداری لام لودا (Lamluda) سے لے کر مشرق میں طبروق تک پھیلی ہوئی تھی۔ علی الصبح سعد علی، تن تنہا ٹرانسپورٹ کی تلاش میں پیدل نکل کھڑا ہوا۔ اب وادی¿ شغران میں، میں، حامد اور ہمارا سازوسامان رہ گیا تھا اور ہمارے اوپر نیلا آسمان.... کیولر (Chavelier) کہ جو جرمن لائن پر کمانڈو چھاپے کے لیے امداد دینے کی غرض سے آیا تھا ، چیپ مین کی تیار کردہ پناہ گاہ میں جا چھپا اور شمالی سڑک پر حملہ کرنے کے موقعہ کی تاک میں بیٹھ گیا۔
شام ہوئی تو سعد علی تین سوکھے سہمے اور چیتھڑوں میں ملبوس عربوں کے ہمراہ آن پہنچا۔ ان کے ساتھ ایک گھوڑا، دو اونٹ اور ایک گدھا بھی تھا۔ یہ مریل سے جانور صرف حرص و لالچ کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے تھے۔ ان تینوں عربوں کو روپے کی لالچ نے یہ بھی نہ سمجھایا کہ وہ ایک برطانوی افسر کے سامنے کھڑے ہیں۔ سعد ایک لمحہ بھی اس جگہ کہ جہاں ہم لوگ اس وقت کھڑے تھے، نہیں ٹھہرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اس نے سارا سامان ان مریل جانوروں پر لادا اور رات کی تاریکی میں ہم اپنی اگلی منزل کی طرف چل پڑے۔ میرے نیچے جو گھوڑا تھا اس کی کاٹھی (زین) بہت کمر توڑ قسم کی تھی۔ گدھے پر کافی سامان لادا گیا۔ اس سامان کے اوپر سعد براجمان ہوگیا۔ باقی پارٹی پیدل تھی۔
اس کوہستانی سفر میں ہم لوگ سدی موسیٰ سے نکلے تو ایک پیر صاحب کے سرمئی رنگ کے مقبرے پر جانکلے، وہاں سے چلے تو راس جلیاز(Ras Juliaz) کی پہاڑیوں میں سے ہوتے ایک جنگل میں داخل ہوگئے۔ سورج نکلا تو ہم قصر رمتیت (Remteiat) میں تھے۔ یہ جگہ ایک پہاڑی پر اسی نام کے ایک قلعے کی وجہ سے مشہور تھی کہ جو کبھی رومیوں یا شاید یونانیوں نے تعمیر کیا تھا اور اب اس کے کھنڈرات باقی تھے۔ اس جگہ پہنچ کر جنگل میں ایک کھلے علاقے میں سعد نے پڑاﺅ ڈال دیا۔ آس پاس سبزہ زار اور جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں اور دریائی راستوں اور نالوں کی سوکھی گزر گاہوں کے نشانات اِدھر اُدھر پھیلے ہوئے تھے۔ میں نے سعد کے انتخاب کی داد دی۔ آبی گزر گاہیں خاصی گہری تھیں اور ہمارے چھپاﺅ کے لیے بہت موزوں تھیں دوسری طرف یہ بھی تھا کہ ہماری طرف آتا ہوا کوئی بھی شخص ہمیں صاف نظر آتا تھا۔ ہم نے اپنے گائیڈوں کو ان کی اجرت ادا کی۔ وہ لوگ صبح کی اولین ساعتوں میں نظروں سے غائب ہوگئے۔ البتہ وہ گھوڑا کہ جو دیکھنے میں مریل اور بدصورت سا تھا ہم نے خرید لیا۔ کچھ کلو چائے اور کچھ گز کپڑا.... یہ کل قیمت تھی جو ہم نے ادا کی۔ بندئہ مزدور کے اوقات کتنے تلخ تھے!.... لیکن یہ گھوڑا اطالوی فوج کے استعمال میں آنے والی نسل سے تھا اور ایک غریب عرب کے پاس اس کا ہونا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
ہم نے چائے تیار کی اور چسکیاں لے کر حلق سے نیچے اتارنا شروع کی۔ سعد علی نے جسم کھجلاتے ہوئے کہا: ”سیوا (Siwa) سے چلنے کے بعد آج تک میں نے غسل نہیں کیا۔ میرے سارے جسم میں خارش ہو رہی ہے۔ غسل کرنے کا یہی وقت ہے“.... اس نے اپنے جھولے سے صابن نکالا۔ ایک میلا سا تولیہ سنبھالا اور نالے کی طرف چل دیا۔ ایک گھنٹے کے بعد وہ جب واپس آیا تو داڑھی صاف تھی اور چہرہ دمک رہا تھا۔ اس کے بعد حامد نے بھی یہی عمل دہرایا اور نہا دھو کر واپس آگیا۔ میں نے سوچا اتنی زیادہ صفائی ستھرائی بھی اصولِ جنگ کے خلاف ہوتی ہے۔ ان آٹھ دنوں میں داڑھی بڑھ کر میرے چہرے کو ایک عمر رسیدہ شکل دے گئی تھی۔ تاہم سعد کو یہ ”پیرانہ سالی“ پسند نہ آئی۔ اس نے حامد کو بالا صرار یہ حکم دیا کہ واپسی پر مجھے نالے پر لے جائے اور غسل وغیرہ کروا لائے۔
ایک پہاڑی پر ایک چوڑی سی جگہ پر دو اونچی اونچی پتھریلی دیواریں تعمیر کی ہوئی تھیں جو ایک دوسرے کے متوازی تھیں اور ان کا درمیانی فاصلہ چند فٹ تھا۔ بالکل اسی طرح کی ایک اور لمبی اور گہری نالی بھی اس پہاڑی کی ایک اور جانب سے نیچے ڈھلوان کی طرف تعمیر کی گئی تھی۔ یہ دونوں نالیاں نیچے آکر مل جاتی تھیں اور جس مقام پر یہ دونوں ملتی تھیں وہاں پتھروں سے ایک حوض تعمیر کر دیا گیا تھا۔ جب پہاڑوں پر بارش ہوتی تو یہ نالیاں بارانی پانی کو اس حوض میں ڈال کر ذخیرہ کر دیتیں۔ جبل کی تمام وسعتوں میں اس قسم کے ہزاروں حوض اور چوبچے اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میں بعض خاصے کشادہ اور بڑے بڑے ہیں۔ ان تمام کو کبھی رومیوں نے تعمیر کیا ہوگا۔ تمام جبل میں صرف اور صرف یہی حوض، پانی کے ذخیرے اور ذریعے ہیں۔ ان کے علاوہ قدرتی چشموں اور کنوﺅں کا کہیں نام و نشان نہیں۔ وادی¿ ڈرنا کو چھوڑ کر کسی بھی جگہ کوئی دوامی نہر بھی نہیں۔ یہاں کی آبادی اور مویشیوں کے لیے پانی پینے اور دوسرے استعمال کے لیے جب کوئی اور وسیلہ ¿ آب نہ ہو تو ان کی دیکھ بھال اور مرمت کا لگاتار ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن ستم یہ ہے کہ ان سہل انگار عربوں نے ان رومی حوضوں کی مرمت کی طرف کچھ بھی دھیان نہیں دیا اور ماسوائے چند ایک کے، یہ تمام آبی وسائل معرضِ خطر میں ہیں۔
جب میں نے نہانے کے لیے کپڑے اتارنے شروع کیے تو حامد مجھ سے الگ ہوگیا۔ میں حوض پر بیٹھا تھا ۔ایک کنستر اور ایک رسا میرے پاس تھا جسے حوض میں ڈال کر میں نے پانی نکالنا اور اس سے غسل کرنا تھا.... حامد مجھ سے کچھ فاصلے پر جا کر پشت میری جانب کرکے بیٹھ گیا.... یہ عرب لوگ بڑے باحیا ہوتے ہیں اور کسی کو ننگا دیکھنا گوارا نہیں کرتے، خود کو بھی نہیں۔ کچھ دیر بعد میں نہانے سے فارغ ہوگیا۔ اگرچہ میرا یہ غسل عربوں کے معیاری غسل کے قریب قریب پہنچ گیا تھا لیکن جو لطف برطانوی غسل میں ہے وہ یہاں کہاں؟
میں نے چونکہ تمام کچھ سعد علی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ اس لیے جب ہم واپس کیمپ میں پہنچے تو اس نے جنگی عزائم کو آگے بڑھانے کی بجائے روٹی پکانا شروع کر دی۔ سعد علی اگرچہ مذہبی آدمی نہیں تھا اور میں نے اسے ماسوائے چند مواقع کے کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا تاہم وہ کٹڑ سنوسیوں کی طرح ڈبہ بند راشن سے ہمیشہ نفرت کیا کرتا تھا۔ وہ اسے کافروں کی خوراک کہا کرتا اور اشد ضرورت کے سوا کبھی اسے ہاتھ نہ لگاتا۔ اسی نظریے کے تحت وہ اپنی روٹی خود پکا رہا تھا۔ پہلے اس نے زمین میں ایک گڑھا کھودا۔ اس کی دیواریں پتھروں سے چن دیں اور درختوں کی سوکھی لکڑیاں لے کر اس گڑھے (تنور) پر رکھ کر آگ لگا دی۔ پھر اس نے ایک ہموار سی سِل پر آٹا گوندھا۔ اس میں نمک بھی ملایا، اس کے پیڑے بنائے اور ہاتھوں اور کہنیوں پر تھپک کر روٹی بنائی۔ اُدھر جب آگ جل کر ختم ہوگئی اور پتھر لال انگارہ بن گئے تو ان پر سے سیاہ راکھ جھاڑ کر الگ کر دی۔ تنور کے اندر اس آٹے کی روٹیاں چپکا کر اس کا منہ ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد وہ بے نیاز ہو کر اِدھر اُدھر کے کام کرتا رہا۔ پھر ایک درخت کے سائے میں لیٹ گیا اور کچھ نیند پوری کر لی۔ پھر دفعتہ اٹھا۔ حامد کو آواز دی :”حامد! روٹی تیار ہے۔“ بعد ازاں اس نے تنور سے ڈھکنا اٹھایا اور روٹیاں باہر نکالیں۔ یہ روٹیاں تقریباً ایک ایک فٹ لمبی اور دو دو انچ موٹی تھیں۔ جب ٹھنڈی ہوگئیں تو اوپر کا چھلکا جو سوکھ کر سیاہ ہوگیا تھا اتار ڈالا گیا۔ اندر سے لذیذ، خستہ اور بھورے رنگ کی اصلی روٹی نکل آئی۔ ہم سب نے مل کر اس کو پنیر اور چائے کے ساتھ نوش جاں کیا اور پھر سونے کے لیے اسی جگہ دراز ہوگئے۔
شام ہوئی تو سعد نے حامد کو اس مریل گھوڑے کو لانے کے لیے بھیجا جو کہیں اِدھر اُدھر چر رہا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ حامد کو اس گھوڑے پر ایک شخص، متوالا ابوجبرین (Jibrin) کی جانب روانہ کرے کہ وہ رمتیت سے آکر ہماری بات سن جائے۔ حامد کو بڑی تفصیل سے یہ ساری بات سمجھا دی گئی کہ اس نے کہاں جانا ہے، کس سے ملنا ہے اور کیا کہنا ہے۔ اس پر بالالتزام یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ 36گھنٹوں کے اندر اندر اس نے واپس آنا ہے۔ ان ہدایات کو ایک بار پھر اسے دہرا کر سنایا گیا۔ اس کے بعد حامد اسی گھوڑے پر سوار ہوکر صحرا کی وسعتوں میں کھو گیا۔
اگلا دن میں نے اور سعد نے سو کر یا پھر باتیں کرکے گزارا۔ دوسرے دن صبح ہوئی۔ حامد نہ لوٹا، پھر شام ہوگئی۔ لیکن حامد پھر بھی نظر نہ آیا۔ ہم پھر سو گئے اور باتیں کرتے رہے اور پھر سو گئے۔ اس ویرانے میں ہم نے صرف ایک جاندار دیکھا کہ جو ایک الّو تھا۔ یہ کبھی پھدک کر اس درخت پر جا بیٹھتا اور کبھی اڑ کر اگلے درخت کی شاخوں پر جا براجمان ہوتا۔ جبل اخضر میں اگرچہ سبزہ بھی کافی ہے اور جھاڑ جھنکار بھی باافراط ملتا ہے۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ اس سارے جنگل میں کوئی بھی جانور یا پرندہ نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں کھلا پانی نایاب ہے۔ نجانے اس الّو نے کس طرح بغیر پانی کے گزارا کیا اور زندہ رہا۔ ہم وقفے وقفے سے اس کی اداس چیخیں دن رات سنتے رہتے تھے۔ مقامی زبان میں الّو کو بوم کہتے تھے۔ جب سعد علی، حامد کا انتظار کر کر کے زیادہ مضطرب ہو گیا تو اس نے بوم کو مخاطب کرکے یہ تقریر شروع کر دی : ”او بوم! تو جانتا ہے کہ ہم اب تک اس وادی¿ بوم میں قصرِ بوم کے اندر بند ہیں اور بیربوم سے پانی پی کر پیاس بجھا رہے ہیں (عربی میں بیر کنویں کو کہتے ہیں).... او بوم! گئے دنوں میں جب میجر اور میں انسانوں کی طرح باتیں کرسکتے تھے اور ابھی الّوﺅں کی مانند چیخنا نہیں سیکھا تھا تو تب بھی کام چلتا تھا۔ ہم لوگ دشمن کی افواج سے لڑنے آئے ہیں لیکن ہمیں جو کچھ ملا وہ صرف ایک بوم تھا۔ اب ہم چائے پینے بیٹھ گئے ہیں اور گئے دنوں کے کارہائے نمایاں یاد کرکے خوش ہو رہے ہیںکہ جو ہم نے جنگ بوم میں سر انجام دیئے تھے۔“ .... یہ سن کر دور کہیں الّو نے ہماری اس پکار کا جواب دیا اور سعد پھر گویا ہوا: ”او بوم! تو مجھ غریب سعدکی ہنسی مت اڑا۔ اس نے تو اس احمق اور پاگل حامد پر اعتبار کر لیا جس نے چائے کے گلاس توڑ دیئے تھے۔ سعد نے تو اس پر اعتبار کیا تھا لیکن وہ ابھی تک واپس نہیں آیا اور گھوڑے کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے.... اگر کبھی ہم واپس مصر پہنچ سکے تو دوست احباب ہم سے پوچھیں گے کہ تم نے کتنے عیسائیوں (کافروں) کو قتل کیا اور ہم جواب میں کہیں گے کہ ہم نے تو کسی بھی عیسائی کو قتل نہیں کیا۔ ہم تو سارا وقت بیٹھ کر بوم کے نغمے ہی سنتے رہے۔“
میں نے اندازہ لگا یا کہ سعد خود جا کر متوالا ابوجبرین کا پتہ لگانا چاہتا ہے۔ لیکن اسے ڈر تھا کہ اگر وہ مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا تو میں شاید یہ خیال کروں کہ سعد بھی مجھے دھوکا دے گیا ہے۔ دوسری طرف صورت یہ تھی کہ ہم دونوں اکٹھے نہیں جاسکتے تھے۔ ہمارے پاس جو سازوسامان تھا وہ ہم کہاں چھوڑتے؟ پھر یہ بھی تھا کہ پہلی ملاقات اپنا ایک خاص تاثر چھوڑتی ہے اور میں ایک برطانوی ہونے کے ناطے کوئی ایسا بہتر نقش اپنے عرب دوست پر نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ میری عربی بھی بس واجبی سی تھی.... لہٰذا میں نے سعد کو کہا: ”بوم کو گالیاں نہ دو۔ وہی تو اس ویرانے میں ہمارا رفیق ہے۔ تم جاسکتے ہو۔ بوم اور میرا ساتھ اچھا گزرے گا۔“.... اس نے میری طرف دیکھ کر منہ بنایا۔ لیکن میں نے فوراً کہا: ”ہم ان شاءاللہ اگلی صبح دوبارہ ملیں گے۔“
اس وادی¿ بوم میں جب تیسرے روز بھی حامد نہ پلٹا تو سعد نے اپنا بیگ اٹھایا اور چل دیا۔ اس نے مجھے نصیحت کی کہ چپکا بیٹھا رہوں۔ اگر کسی عرب سے آنا سامنا ہو جائے تو اسے یہ تاثر دوں کہ میرا اونٹ گم ہوگیا ہے اور میرا خبیر (گائیڈ) اسے تلاش کرنے گیا ہے۔ اپنی منزلِ مقصود کے بارے میں، میں نے اسے کچھ نہیں بتانا تھا۔ ماسوائے اس کے کہ میں بس مشرق کی طرف محو سفر تھا۔ اگر دو دن تک سعد واپس نہ آیا تو جتنی جلدی ہوسکے مجھے واپس جنوب مغرب میں وادی شغران (Sheghran) پہنچنا تھا۔
اب میں اکیلا رہ گیا تھا۔ صرف بوم میرا راز دان تھا۔ میں ایک نالے کے کنارے بیٹھ گیا اور فلپ گوئے ڈالا (Guedalla) کی تصنیف لائف آف ولنگڈن (Life of Wellington) کے مطالعہ میں مصروف ہوگیا۔ اگلے روز میں اسی شام نالے کے کنارے بیٹھا افق کے پار آفاق کی وسعتوں میں گم تھا اور بہت خوش تھا۔ میں نے وہ تمام کام کر ڈالے جو میرے کرنے والے تھے۔ اب میں بالکل فارغ تھا۔ صرف انتظار کی گھڑیاں تھیں اور میں تھا۔ اس تنہائی اور اکیلے پن کی لذت ہی کچھ اور تھی۔ جنگ کے دوران اس قسم کے سکون کے وقفے ہی میرے لیے باعثِ مسرت رہے ورنہ تو کام کاج کا بوجھ جو ہوتا ہے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ان سکون و آرام کے وقفوں نے مجھے اس قدر فراغت عطا کر دی کہ کسی بھی مصروفیت کا بارگراں میں نے کبھی محسوس نہ کیا۔
شام کے وقت میں نے دور جنگل سے آتی ہوئی کچھ صدائیں سنیں اور پھر کچھ حرکات بھی مشاہدہ کیں۔ اگلے ہی لمحے سبزہ زاروں پر سے ایڑ لگاتا اور سرپٹ گھوڑا دوڑاتا سعد علی میرے سامنے آکر گھوڑے سے نیچے اترا اور آتے ہی سوال کیا: ”آپ کا کیا حال ہے اور آپ کا وہ بوم کس حال میں ہے؟“
”میں متوالا ابو جبرین کو لے آیا ہوں۔ اس کے دوست اس جنگل میں ہیں.... آﺅ جلدی زین پر سوار ہو جاﺅ۔ ہم نے اپنے دوستوں کا استقبال کرنا ہے۔“ سعد نے مجھے اس گھوڑے پر بٹھایا تو میری ہیئت کذائی عجیب منظر پیش کر رہی تھی جو میرا خیال ہے کہ کسی بھی برطانوی افسر کے لیے کوئی قابل تکریم بات نہ تھی۔ بہرحال جب میں نے اس زین پر سے متوالا کو ہاتھ ہلا کر خوش آمدید کہا تو وہ اور اس کے دونوں دوست بڑے اچھے طریقے سے ملے۔ انہوں نے ازراہ مہربانی مجھے اس رات شرفِ مہمانی بخشنے کی درخواست کی۔
دور پس منظر میں، متوالا کے گھوڑے اور تین اونٹ کھڑے تھے کہ جن پر وہ لوگ آئے تھے۔ ان جانوروں کے سائیس بھی ساتھ تھے۔ پھر سعد نے اپنا سامان باندھنا شروع کیا اور جب ہم بالآخر وہاں سے روانہ ہوئے تو اس نے کہا : ”رات کو ہم ان شاءاللہ کھل کر باتیں کریں گے۔ فی الوقت تو ہم اس بوم سے رخصت ہو رہے ہیں“.... پھر اس نے میری طرف منہ پھیر کر الو کی سی آواز نکالی اور سرگرم سفر ہوگیا۔(جاری ہے)