حکومت لیب ٹاپ کے ساتھ طلبہ کو سائیکلیں بھی فراہم کرے !
علم و ہنر کے میدان میں ایسی بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی قابلیت کو منوایا ، آج وہ اہم عہدوں پر فائز ہیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و قوم کے نوجوانوں کے روشن اور تابناک مستقبل کے لئے شب و روز مصروف عمل ہیں،پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمن خان کا شمار بھی ایسی ہی تابندہ شخصیات میں ہوتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمن خان ایم اے او کالج میں بطور پرنسپل قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لئے خود کو وقف کئے ہوئے ہیں۔انہوں نے 1997ءمیں بطور لیکچرار گورنمنٹ گریجویٹ کالج لالہ موسیٰ میں ملازمت کا آغاز کیا، 2004ءسے گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہور سے وابستہ ہیں، گریڈ 20 کی سینئر ترین پروفیسر ہیں، 2004ءمیں ہی فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے سکالرشپ پر آسٹریا گئیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انہوں نے میٹرک تک کی تعلیم کسی تعلیمی ادارے سے نہیں بلکہ گوجرہ کے ایک پسماندہ گاﺅں 354 گ ب میں اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ یہ پانچ بہنیں ہیں جن میں سے تین پی ایچ ڈی ہیں۔ان کی بڑی بہن پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ رحمن بھی رابعہ بصری کالج والٹن میں بطور پرنسپل طویل عرصے سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ان کی بےشمار خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تمام وسائل دستیاب ہوتے ہوئے بھی روزانہ کیولری گراﺅنڈ سے سائیکل پر کالج آتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اساتذہ کرام قوم کے رہنما ہوتے ہیں، ہم سادگی اپنائےں گے تو طلبہ کو اس کا درس دے سکیں گے ،کیونکہ حقیقی معنوں میں سادگی اپنا کر ہی ہم ملک کو معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم کر سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمن خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سائیکل چلاتے ہوئے انہیں کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ کبھی تھکاوٹ کا احساس ہوا بلکہ سائیکل چلانے کے بعد خود کو زیادہ مستعد اور توانا محسوس کرتی ہوں اور اپنے جملہ امور بھی بخوبی انجام دیتی ہوں۔ ایم اے او کالج میں لگ بھگ 6000 طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، طالبات کی تعداد بھی 2ہزار سے زیادہ ہے۔ آسٹریا سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد 2014ءمیں واپس دوبارہ ایم اے او کالج جوائن کیا۔ میرے پاس دو عدد موبائل فون ہیں، ایک سرکاری فرائض کی انجام دہی، دوسرا طلبہ کی رہنمائی کے لئے ہے۔ طلبہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمن خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ میں طلبہ و طالبات کو تاکید کرتی ہوں کہ وہ سائیکل چلانے کو ترجیح دیں،ہمارے اکثر طلبہ سائیکل پر کالج آتے ہیں۔ میں خود بھی تقریباً روزانہ 50کلو میٹر تک سائیکل چلاتی ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں سادگی کو فروغ دینے کے لئے طلبہ و طالبات کو لیب ٹاپ کے ساتھ ساتھ سائیکلیں بھی فراہم کرے۔رانا مشہود احمد خان جن دنوں وزیر تعلیم تھے ، انہوں نے جنوبی پنجاب کے طلبہ کو سائیکلیں فراہم کی تھیں ، جس کے حوصلہ افزا نتائج بھی برآمد ہوئے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر عالیہ کا کہنا تھا کہ ایم اے او کالج سے منسلک فشریز ڈیپارٹمنٹ یہاں سے منتقل ہو چکا ہے،ہم چاہتے ہیںکہ فشریز ڈیپارٹمنٹ کی جگہ،ایم اے او کالج کو الاٹ کر دی جائے کیونکہ موجودہ جگہ کالج کے طلبہ کی ضروریات کے لئے فی الوقت ناکافی ہو چکی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو چاہیے کہ وہ پروفیسر عالیہ کی فشریز ڈیپارٹمنٹ کی جگہ ایم اے او کالج کو الاٹ کئے جانے کی درخواست پر ہمدردانہ غور کریںنیز یہ کہ پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمن خان جیسی شخصیات قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں،ان کی بھرپور صلاحیتوں سے مستفید ہونے کے لئے انہیں مستقل طور پر ایم اے او کالج کا پرنسپل تعینات کیا جائے تاکہ یہ پہلے سے زیادہ بہتر اور دلجمعی سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔