بحرہ¿ ارال کے سبب  ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا!

بحرہ¿ ارال کے سبب  ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بحیرہ¿ ارال دراصل بحیرہ¿ کیسپیئن سے 600 کلو میٹر مشرق میں واقع ہے۔ ایک وقت تھا جب یہاں 1100 سے زیادہ جزیرے تھے جو الگ الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے چھوٹی بڑی جھیلوں اور آبناو¿ں کے ذریعے جڑے ہوئے تھے، جس کی وجہ سے اسے "ارال" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ارال کے معنیٰ جزیرے کے ہیں۔ دریائے آمو اور دریائے سیر اس جھیل کو صدیوں تک تازہ پانی فراہم کرتے رہے، یہاں تک کہ سوویت حکام نے وسطی ایشیا میں آبپاشی اور صنعتی مقاصد کےلئے ان دریاو¿ں کا رخ موڑ دیا، جس کے باعث بحیرہ¿ ارال سکڑنے لگا۔ 1991ءتک یہ اپنا آدھے سے زیادہ حصہ گنوا چکا تھا۔
 بحیرہ¿ ارال کے کٹاو¿ سے نہ صرف وسیع پیمانے پر ایک ماحولیاتی تباہی نے جنم لیا، بلکہ قازقستان اور ازبکستان کو تازہ پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی جو بحیرہ¿ ارال سے ہوتی تھی ، اس کے ساتھ ساتھ ماہی گیری، نباتات اور حیوانات میں کمی واقع ہونے لگی۔ 1999ءمیں ورلڈ بینک نے بحیرہ¿ ارال کو دریائے آمو اور دریائے سیر کے ذریعے دوبارہ تازہ پانی فراہم کرنے کا منصوبہ پیش کیا، مگر اس پر بعض وجوہات کی وجہ سے عمل نہ ہو سکا۔1960ءسے قبل بحیرہ¿ ارال نہ صرف وسطی ایشیاکے لئے تازہ پانی کا ذریعہ تھا، بلکہ اس سے ہزاروں ماہی گیروں کا روزگار بھی وابستہ تھا۔ اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کے ستمبر 2002ءکے شمارے میں رام سمپتھ کمار اپنے تحریر کردہ ایک دلچسپ مضمون ”بعنوان بحیرہ¿ ارال: وسطی ایشیا میں ماحولیاتی سانحہ“ میں لکھتے ہیں کہ:"دریائے آمو اور دریائے سیر کے پانی سے وجود پانے والی بحیرہ¿ِ ارال ایک منتہائی جھیل (وہ جھیلیں جو بہہ کر سمندر میں نہیں گرتیں) ہے جو قازقستان اور ازبکستان کے درمیان ایک قدرتی سرحد کا کام دیتی ہے۔ 1960ءمیں یہ دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھی جو آج ایک صحرا میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بحیرہ¿ ارال کی تباہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک ماحولیاتی اور انسانی سانحہ، کس طرح ایک پورے خطے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ بحیرہ¿ِ ارال کی تباہی ناپائیدار ترقی کی واضح مثال ہے“۔
 دریائے آمو اور دریائے سیر کا رخ تبدیل کرنے کی ناکارہ منصوبہ بندی پر جن دنوں عملدرآمد جاری تھا، تو ازبکستان اور ترکمانستان میں کپاس کی کاشت کے لیے کئی نہریں نکالی گئی تھیں۔بحیرہ¿ ارال نے جب سکڑنا شروع کر دیا تو خروشیف کے دور میں سوویت سائنسدانوں نے ایک عجیب نظریہ پیش کیا کہ سائبیریائی دریاو¿ں کا پانی بحیرہ¿ ارال کی جانب موڑ کر اس کو دوبارہ تازہ پانی فراہم کیا جائے،لیکن اس خیال کو ناقابلِ عمل ہونے کی وجہ سے رد کر دیا گیا۔فی الوقت کوک ارال (بحیرہ¿ ارال کا سب سے بڑا جزیرہ) شمال مشرقی ”چھوٹے ارال“ کو جنوب مغربی ”بڑے ارال“ سے الگ کرتا ہے۔ اس سے قازقستان اور ازبکستان کے درمیان ایک قدرتی سرحد بنتی ہے۔ بحیرہ¿ ارال کا تیزی سے کٹاو¿ "بالشویک انقلاب کے وسطی ایشیا کو سیراب کرنے میں بڑھتی دلچسپی کے بعد شروع ہوا۔ 1930ءکی دہائی کے اواخر میں سٹالن کی زیرِ کمان سوویت وزارتِ پانی نے ازبکستان، قازقستان اور ترکمانستان میں کپاس کی کاشت کے لیے ان کی جانب پانی کا رخ موڑنے کا ایک زبردست منصوبہ تیار کیا۔ 1939ءمیں ازبکستان کی وادی¿ فرغانہ کے گرد ایک نہر کی تعمیر کے ساتھ پہلے بڑے آبپاشی منصوبے نے اپنا کام شروع کیا۔"
قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان کی بنجر اور صحرائی زمینوں کو دریائے آمو اور دریائے سیر سے پانی فراہم کرنے کی پالیسی 1953ءمیں جوزف سٹالن کی موت کے بعد بھی جاری رہی۔ درحقیقت ان دو دریاو¿ں کے پانی کے بہاو¿ میں تبدیلی اس لیے بھی زیادہ ہوئی کیونکہ کپاس کی زبردست فصل کی تیاری کے لیے ان دریاو¿ں میں سے کئی نہریں نکالی گئی تھیں۔ اس حوالے سے ایلیسا شار ہارورڈ انٹرنیشنل ریویو (خزاں 2001ء) میں شائع ہونے والے اپنے مضمون "وسطی ایشیا کا بحرِ مردار: ارال کی سست رو موت" میں درست طور پر نشاندہی کی گئی ہیں“۔ بحیرہ¿ ارال میں آج مٹی کے جو ٹیلے دکھائی دیتے ہیں، ایک وہ وقت بھی تھا جب یہی ٹیلے دنیا کی چوتھی بڑی جھیل کا تلا ہوا کرتے تھے، لیکن بحیرہ¿ ارال میں ماحولیاتی تباہی کے باعث جب سے پانی کی سطح کم ہونا شروع ہوئی ہے، کشتیوں کے بکھرتے ڈھانچے اور نمک سے اٹی ہوئی سیپیاں ہی خطے میں جہازرانی کے اس عجوبے کی آخری نشانیاں رہ گئی ہیں۔ 
گزشتہ 10 سے 15 سال کے دوران بحیرہ¿ ارال کے خشک ہونے سے واضح موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ گرمیوں اور سردیوں میں اس سمندر کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں درجہ¿ حرارت معتدل رہتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ "سوویت یونین کی جانب سے اپنی صنعتوں کا پہیہ چلائے رکھنے کے لیے قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے بحیرہ¿ ارال کے خطے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ 1959ءمیں سیکرٹری جنرل نیکیتا خروشیف کے "خود انحصاری" کے منصوبے کے مطابق سوویت یونین نے بحیرہ¿ ارال کے دو مرکزی فیڈرز دریائے آمو اور دریائے سیر کا رخ ازبکستان میں بوئی گئی کپاس کی فصلوں کی آبیاری کے لیے موڑ دیا تھا۔ان دریاو¿ں کا رخ بدلے جانے اور بچ جانے والے پانی کی تبخیر کے باعث بحیرہ¿ ارال سکڑتا رہا لیکن اسے بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ازبکستان اور قازقستان میں بحیرہ¿ ارال کے سکڑنے سے ایک سماجی اقتصادی بحران پیدا ہوا جس کی وجہ سے یہاں کی بندرگاہیں ویران اور مچھلیوں کے کارخانے بند ہو گئے ہیں، جس سے 60,000 لوگ بیروزگار ہوئے ہیں۔" شاید دنیا میں کسی دوسرے خطے کو آبی وسائل میں بدانتظامی سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا کہ وسطی ایشیا کو پہنچا ہے۔ مرکزیت پسند اور مطلق العنان طرزِ حکمرانی نے ان منصوبوں کے خلاف آواز اٹھانے کو ناممکن بنا دیا تھا۔ بحیرہ¿ ارال سے لاکھوں لوگوں کا روزگار منسلک تھا، مگر ان کے مستقبل کو تاریک کر دیا گیا۔
 ربع صدی قبل سوویت یونین کے زوال اور پانچ وسطی ایشیائی ریاستوں کے آزاد ہونے کے بعد منظرنامہ تبدیل ہوا۔ سوویت دور میں جن مسائل کو قالین کے نیچے دبا دیا جاتا تھا، اب ان نئی ریاستوں کے لیے وہ چیلنج بن چکے تھے۔ بحیرہ¿ ارال کی 1960ءسے پہلے کی شکل کو بحال کرنا نہایت مشکل کام تھا، خاص طور پر کپاس اگانے والی پٹی اور ڈیموں سے بجلی پیدا کرنے والی ریاستوں کے مفادات کی وجہ سے وسطی ایشیا میں آبی وسائل کے اہم مسئلے پر اتفاق نہیں ہو سکا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا بحیرہ¿ ارال اپنی 1960ءکی شکل میں واپس آ سکتا ہے جب اسے دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تصور کیا جاتا تھا؟ اسے پانچ ، چھ دہائی قبل کی صورت میں بحال کرنے میں کیا مشکلات درپیش ہیں؟ ان کے جوابات بہت مشکل ہیں کیونکہ ارال کے کٹاو¿ کو روکنے کے لیے کوئی فوری منصوبہ موجود نہیں، مگر وسطی ایشیا میں آزاد ریاستوں کے ابھرنے کے ساتھ دو اقدامات اٹھائے گئے۔ پہلا، ورلڈ بینک اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے تفصیلی تحقیقات کی گئی کہ ارال میں پانی کیسے واپس لایا جائے۔ دوسرا، بہاو¿ کے اوپر اور نیچے واقع وسطی ایشیائی ریاستوں نے کوششیں کی ہیں کہ انسان کی پیدا کردہ اس تباہی کے اثرات ختم کیے جا سکیں۔ مگر دریائے آمو اور دریائے سیر سے بحیرہ¿ ارال کو پانی کی بلاتعطل فراہمی میں جو چیز مانع ہے، وہ کپاس کی بڑھتی ہوئی کاشت اور ان دو دریاو¿ں پر ڈیموں کی تعمیر ہے۔ ورلڈ بینک کے ماہرین نے چار دہائیوں تک بحیرہ¿ ارال کو دریائے آمو اور دریائے سیر کے ذریعے پانی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کا مشورہ دیا تھا لیکن یہ منصوبہ اس لئے قابلِ عمل نہیں کیونکہ تمام پانچ وسطی ایشیائی ریاستوں میں آبپاشی، صنعتکاری اور بجلی کی پیداوار کا انحصار انہیں دریاو¿ں پر منحصر ہے۔اس کے علاوہ ایک مختصر المدتی منصوبہ بھی بنایا گیا کہ دریائے آمو اور دریائے سیر کا کم از کم 50 فیصد پانی بحیرہ¿ ارال تک پہنچایا جائے تاکہ یہ جزوی طور پر ہی سہی مگر بحال ہو سکے۔ اس کے علاوہ بہتر حکمت ِعملی کے ذریعے پانی کے ضیاع اور تبخیر کو کم کیا جاسکتا ہے، جبکہ کیڑے مار ادویات کے استعمال کو کنٹرول کر کے بحیرہ¿ ارال کے مزید کٹاو¿ اور اس سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اب اسے ارالکوم یا نیا صحرا کہا جاتا ہے ، اس کا رقبہ 54,000 مربع میٹر ہے۔یہ سمندر خشک ہونے کے باعث یہاں درجنوں بحری جہاز ہمیشہ کے لیے غرق ہو گئے، آہستہ آہستہ علاقہ بحری جہازوں کے ایک زنگ آلود قبرستان میں تبدیل ہو رہا ہے۔اس سے نادانستہ طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر جہاز کی اپنی تاریخ ہوتی ہے، اس کا اپنا ایک کپتان ہوتا ہے اور اب یہ ایک جہاز کا قبرستان ہے، جو اینٹی یوٹوپیائی مناظر کی یاد دلاتا ہے۔
یہ بحیرہ¿ ارال کے جنوبی کنارے پر واقع شہر موئنک میں اسی جگہ دیکھا جا سکتا ہے جہاں نصف صدی پہلے ازبکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ ہوا کرتی تھی، جہاں ماہی گیری کے جہاز آتے تھے، جہاں مچھلی کا سب سے بڑا کارخانہ ہوا کرتا تھا، تفریحی سہولتوں کے ساتھ بہت سے ساحل بہت مشہور تھے۔ Moinac مکمل طور پر پانی سے گھرا ہوا تھا اور یہاں ہوائی جہاز یا جہاز کے ذریعے پہنچا جا سکتا تھا۔
1970 ءسے سمندر خشک ہونا شروع ہو گیا تھا اور 1980 ءتک اس کی سطح اس حد تک کم ہو گئی تھی کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا: عظیم اور چھوٹے ارال۔ ناسا کے ایک سیٹلائٹ میں بحیرہ¿ ارال کے خشک ہونے کے عمل کو دکھایا گیا ہے۔ 2014ءتک سمندر کا صرف 10 فیصد بچا تھا،اور پانی کی نمکیات 14 سے 100گرام فی لیٹر تک بڑھ گئی تھی۔ اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ ارال سمندر کے علاقے کی آب و ہوا ایک معتدل آب و ہوا سے انتہائی براعظمی آب و ہوا میں بدل گئی ہے۔ ایک زمانے میں آمو دریا اور سیر دریا کے پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کرنے کے بارے میں ایک نظریہ پھیلایا گیا تھا،تاہم بعد میں نیچے کے سوکھے ہوئے علاقے پر تحقیق کی گئی جس سے معلوم ہوا کہ یہاں 12ویں سے 16ویں صدی تک قرونِ وسطیٰ کی بستیاں آباد تھیں۔یہاں سے ایسے مکانات، دستکاری کی ورکشاپس، تدفین اور گھریلو اشیاءملی ہیں۔ سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں بستیوں کے غائب ہونے سے بہت پہلے سمندر یہاں موجود تھا۔
بحیرہ¿ ارال کی تہہ واقعی پراسرار ہے، کچھ سائنسدان اس کا اٹلانٹس سے موازنہ کرتے ہیں۔ قدیم بستیوں کے علاوہ، ہندسی اعداد و شمار بھی سمندر کی تہہ پر پائے گئے، جنہیں بہت سے لوگ ماورائے زمین تہذیب یا قدیم تحریروں کا پیغام سمجھتے ہیں۔یہ ایک بہت بڑے علاقے پر واقع ہے - تقریبا 20 مربع میٹر. یہ متوازی لکیریں ہیں جو مخصوص ڈرائنگ اور علامتیں تخلیق کرتی ہیں۔آپ ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر پراسرار ڈرائنگ، زہریلے نمک کے فلیٹ اور ارال کی باقیات دیکھ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے ہمیں بحیرہ¿ ارال کی طرف مغرب کی طرف اڑنا پڑے گا۔
یہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی جھیل تھی لیکن آج یہ ایک ایسے المناک منظر میں معدومیت کے دہانے پر کھڑی ہے جس کے اثرات نے دنیا بھر کے انسانوں، جانوروں اور ماحول کو متاثر کیا ہے۔ سکندرِ اعظم نے چوتھی صدی قبل مسیح کے دوران وسطی ایشیا پر حملہ کیا، ان دنوں دریائے آمو اور دریائے سیر لائف لائن ہوا کرتے تھے جو پورے خطے کو روزی روٹی فراہم کرتے تھے۔ سینکڑوں سالوں سے بحیرہ¿ ارال کے تازہ پانیوں نے چین اور یورپ کو ملانے والی شاہراہِ ریشم کے ساتھ انسانی بستیوں کو کھلایا ہے۔ اس وقت، تاجک، ازبک، قازق اور دیگر قومیتوں کے قدیم معاشروں نے زراعت میں بڑی خوشحالی دیکھی تھی۔اس سمندر کا کوئی راستہ نہیں ہے، اس لیے یہ بہاﺅ اور بخارات کے درمیان قدرتی توازن کے ذریعے اپنے پانی کی سطح کو برقرار رکھے ہوئے تھا۔ البتہ،پچھلی صدی کے بیسویں عشرے کے آغاز کے ساتھ ہی حالات بدل گئے جو ملک آج ازبکستان کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ نوزائیدہ سوویت سلطنت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔اس وقت کے سوویت رہنما جوزف سٹالن نے دنیا کے اس حصے میں موجود خشک آب و ہوا کی حقیقت پر توجہ دیئے بغیر، وسطی ایشیائی جمہوریہ کو کپاس کے بڑے باغات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا،جو ایک غذائی فصل کو اگانے کے لیے موزوں نہیں تھا،کیونکہ اس کے لئے بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ درحقیقت، سوویت یونین نے دنیا کی تاریخ میں انجینئرنگ کے سب سے زیادہ پرجوش منصوبوں میں سے ایک کا آغاز کیا:انہوں نے آمو اور سیر دریاو¿ں کے پانی کو کھینچنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر طویل آبپاشی کی نہریں کھودیں۔ آبپاشی کا یہ نظام 1960ءکی دہائی کے اوائل تک نسبتاً مستحکم رہا، جب سوویت انجینئرز نے بہت سے اضافی آبپاشی کے راستے متعارف کرائے، یہ وہ تنکا تھا جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی۔ اگرچہ پانی کا نظام مزید پائیدار نہیں تھا۔ 1987ءمیں، بحیرہ¿ ارال کا پانی تیزی سے کم ہو کر دو آبی ذخائر میں تقسیم ہو گیا : قازقستان میں ایک شمالی سمندر، اور ازبکستان میں واقع "کاراکلے باغستان" کے خود مختار علاقے کے اندر ایک بڑا جنوبی سمندر اور جیسے ہی سال 2002ءآیا، جنوبی سمندر بہت زیادہ سکڑ گیا اور اس کے نتیجے میں یہ دو مشرقی اور مغربی سمندروں میں تقسیم ہو گیا۔ جولائی 2014ءمیں مشرقی سمندر کا پانی مکمل طور پر خشک ہو گیا۔مشرقی ماہرین کا کہنا ہے کہ بحیرہ¿ ارال کے سانحے کا سب سے زیادہ افسوسناک اور مایوس کن واقعہ اس حقیقت میں مضمر ہے کہ سوویت یونین کی وزارت آبی وسائل کے حکام جنہوں نے آبپاشی کی نہروں کا ڈیزائن بنایا تھا وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ بحیرہ¿ ارال کو جہنم میں دھکیل رہے تھے۔ 1920ءاور 1960ءکے درمیان، وہ اکثر مشہور روسی موسمیاتی ماہر الیگزینڈر وویکوف کا حوالہ دیتے تھے، جنہوں نے کبھی ارال سمندر کو "فطرت کی غلطی" قرار دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس تاریخ میں سوویت سٹریٹجک نقطہ نظر نے ماہی گیری پر زرعی فصلوں کی قدر کو ترجیح دی تھی۔
بحیرہ¿ ارال کے آس پاس کے علاقوں کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے بارش کے پانی میں نمکیات کا تناسب سات گنا بڑھ گیاجس کے باعث بحیرہ¿ ارال میں نمکیات کے آثار انٹارکٹک کے علاقوں، گرین لینڈ اور ناروے کے جنگلات میں بھی پائے گئے ہیں۔
ماہرین ِاقتصادیات کا خیال تھا کہ جیسے جیسے بحیرہ¿ ارال خشک ہو گا، سوڈیم کلورائیڈ کی ایک موٹی پرت بن جائے گی۔سوڈیم کلورائید کی زہریلی سطح کے علاوہ،ہوا سے اڑنے والی دھول میں کیڑے مار ادویات جیسےDDT Toxaphene ،اور Vozalon کی ٹریس مقدار ہوتی ہے، یہ سبھی کینسر کے لیے جانے جاتے ہیں۔ یہ کیمیکل آہستہ آہستہ خطے میں فوڈ چین کی تمام سطحوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، محققین اور ڈاکٹروں نے ارال کے قریب کے علاقوں میں آنتوں کے بخار کی بیماریوں میں تیس گنا اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔ وائرل ہیپاٹائٹس کے انفیکشن میں سات گنا اضافہ ہوا ہے، اور کینسر کے کیسز میں 25 گنا اضافہ ہوا ہے۔ سانس کی بیماریاں، کینسر، پیدائشی نقائص، مدافعتی عوارض، اور ملٹی ڈرگ مزاحم تپ دق بھی بڑے پیمانے پر پھیل رہے ہیں۔ اس طرح انسانوں کے فطری ماحول میں دخل دینے سے میٹھے پانی کا ایک پورا سمندر رفتہ رفتہ خشک ہو گیا جس کے خطرناک نتائج اس وقت ایک بڑے علاقے کو بھگتنے پڑ رہے ہیں، لیکن افسوس کہ انسانوں کو پھر بھی سمجھ نہیں آئی۔ بھارت بھی آج یہی کچھ کر رہا ہے ، وہ پاکستان کو اس کے حصے کے دریاو¿ں کے پانی سے محروم کرنے کے لئے، ان کے رخ تبدیل کر رہا ہے۔ بھارت کو بحیرہ¿ ارال سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو آنے والے وقت میں بھارت کو اس کے خطرناک نتائج بھگتنا ہوں گے۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -