مجبور سیاہ فام لوگوں کی جان لینے والی نفرت کو نہیں روکا گیا ،نشانہ سربراہ مملکت کی ذات بنی،صدر کی موت کی ذمہ دار امریکہ پر چھائی نفرت کی فضاء بنی

 مجبور سیاہ فام لوگوں کی جان لینے والی نفرت کو نہیں روکا گیا ،نشانہ سربراہ ...
 مجبور سیاہ فام لوگوں کی جان لینے والی نفرت کو نہیں روکا گیا ،نشانہ سربراہ مملکت کی ذات بنی،صدر کی موت کی ذمہ دار امریکہ پر چھائی نفرت کی فضاء بنی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان 
قسط:139
ان 3 دنوں میں جب مقتول صدر (کینیڈی)کے علاوہ کوئی موضوع سخن تھا ہی نہیں، ایلیا محمد نے نیویارک کے مین ھٹن سنٹر میں ایک خطاب کرنا تھا جو پہلے سے طے تھا انہوں نے اس خطاب سے انکار کر دیا چونکہ سنٹر کا کرایہ ہم ادا کر چکے تھے اس لیے ایلیا محمد نے مجھے اپنی جگہ خطاب کرنے کے لیے کہا چنانچہ میں نے لوگوں سے خطاب کیا۔ اس خطاب کے بعد میں آج بھی ان شذرات(Notes) کو کئی بار دیکھتا ہوں جو مذکورہ قتل سے ایک ہفتہ قبل تیار کیے گئے تھے۔ میری تقریر کا عنوان تھا۔”سفید امریکہ کے متعلق اللہ کا فیصلہ“ یہ میرا جانا پہچانا موضوع تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ”جیسا کرو گے ویسا بھروگے یا کس طرح امریکی سفید فام منافق وہی کاٹ رہا ہے جو اس نے بویا تھا۔“
 سوال وجواب کا آغاز لامحالہ ایک ہی سوال سے شروع ہونا تھا۔ کسی نے پوچھا”صدر کینیڈی کے قتل کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اور آپ کی رائے کیا ہے؟“ میں نے بلاتوقف جواب دیا کہ ”میری رائے میں اس کا جواب یہ ہے کہ چاہ کن راچاہ درپیش۔“
 جب مجبور سیاہ فام لوگوں کی جان لینے والی نفرت کو نہیں روکا گیا بلکہ اسے بے لگام پھیلنے کا موقع دیا گیا تو آخر اس کا نشانہ سربراہ مملکت کی ذات بنی۔ بالکل اسی طرح میڈگرایور، پیٹرس لاممبا اور محترمہ Nhu کے شوہر کے ساتھ ہوا۔“
 میرا بیان فوراً شہہ سرخیوں اور نمایاں خبروں کی زینت بنا:
”چاہ کن راچاہ درپیش۔ سیاہ مسلمانوں کے میلکم ایکس کا بیان۔“
 مجھے یہ سب سوچ کر وحشت ہوتی ہے کہ امریکہ بھر میں اور ساری دنیا میں بعض نمایاں ترین شخصیات سمیت سب لوگ یہ بات مجھ سے کہیں زیادہ سخت الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ صدر کی موت کی ذمہ دار امریکہ پر چھائی ہوئی نفرت کی فضاء ہے۔ لیکن جب میلکم ایکس نے یہ کہا تو طوفان برپا ہوگیا۔
 اگلے روز میری ایلیا محمد سے معمول کی ملاقات تھی اور میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ کچھ ہونے کو ہے۔
 ایلیا محمد مجھ سے بغل گیر ہوئے مگر مجھے گرم جوشی میں تھوڑی سی کمی محسوس ہوئی۔ میں نے بھی خود میں تناؤ محسوس کیا جو اپنی جگہ عجیب بات تھی۔ سالہا سال سے مجھے اس بات پر فخر رہا تھا کہ میں اور ایلیا محمد اتنے قریب ہیں کہ میں ان کے احساسات کو اسی طرح جان لیتا ہوں جس طرح اپنے احساسات کو۔ اگر میں پریشان ہوتا تو اس کا مطلب تھا کہ وہ پریشان ہیں۔ اگر وہ پرسکون ہوتے تو میں بھی پر سکون ہوتا اور اب میں تناؤ کا شکار تھا۔۔۔
ادھر ادھر کی باتوں کے بعد انہوں نے پوچھا ”تم نے آج کے اخبار دیکھے؟“ میں نے کہا ”جی، دیکھے ہیں۔“ ”یہ بہت برا بیان تھا۔“ انہوں نے کہا۔ ”سارا ملک اس سے پیار کرتا تھا۔ امریکہ اس وقت سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ ایک بے وقت بیان تھا۔ اس سے عام مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔“
مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ان کی آواز کہیں دور سے آ رہی ہو”مجھے آئندہ 90 روز کے لیے تمہاری زبان بندی کرنا پڑے گی تاکہ مسلمان اس حماقت سے لاتعلق ہو سکیں۔“
میں سن ہو کر رہ گیا تھا۔
 لیکن میں ان کا مقلد تھا کئی بار میں نے اپنے ماتحتوں سے کہا تھا کہ دوسرے سے نظم و ضبط کے آرزو مند کو پہلے خود نظم و ضبط کا پابند ہونا چاہیے۔
میں نے انہیں جواب دیا”جناب میں آپ سے متفق ہوں اور سزا تسلیم کرتا ہوں۔ سو فیصد“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -