ابھی لوگ اس”صدمے“ سے پوری طرح سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ اعشاری نظام کے نئے باٹ مارکیٹ میں پھینک دیئے گئے اور کلو گرام وغیرہ کا نیا شوشا چھوڑ ا گیا

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:162
ابھی لوگ اس”صدمے“ سے پوری طرح سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ اعشاری نظام کے نئے باٹ بھی مارکیٹ میں پھینک دیئے گئے اور کلو گرام وغیرہ کا نیا شوشا چھوڑ ا گیا۔ایک کلو گرام وزن میں پرانے ایک سیر سے تھوڑا صحت مند ہوتا تھا۔ ظاہر ہے اسی حساب سے اجناس اور روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں بھی تھوڑا سا اضافہ ہوا، جو لوگوں کو اچھا نہیں لگا۔ لوگ ابھی تک ان کو سیر ہی کہنے اور سمجھنے پر مصر تھے۔ ایک روپے سیر ملنے والی بھنڈی جب ایک کلو بنی تو قیمت بھی سوا روپے ہوگئی، جو صارفین کو اتنی جلدی ہضم نہیں ہوتی تھی۔پھر جھگڑا تو بنتا تھا نا، سو وہ ہوتا رہتا تھا۔
اسی طرح تھوک کے بیوپاریوں کا 1 من بھی اب 40 سیر کے بجائے 40 کلوگرام کا بن گیا جس سے لامحا لہ آٹے، دال اور چاول وغیرہ کی قیمتیں بڑھیں، اور سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ اب 1 ٹن 25من کا ہو گیا یعنی 1 ہزار کلو گرام کا۔پہلے یہ 27 من کا ہوتا تھا۔لوگ چکرا کر رہ گئے۔اس ذراسے اضافی وزن کے ہیر پھیر میں کچھ نا ہنجار تاجروں نے خوب قیمتیں بڑھائیں اور عوام کو اچھی خاصی مہنگائی محسوس ہونے لگی۔
سنار بھی تو سونے چاندی کا وزن تولے، ماشے اور رتی میں ہی کیا کرتے تھے، وہ بھلا اس نظام سے کیسے بچ سکتے تھے۔ لہٰذا طے یہ پایا کہ ان کے پرانے باٹ ہٹا کر انہیں گرام اور ملی گرام کے ننھے منے سے نئے باٹ پکڑا دیئے جائیں۔اس میں ان کی کافی کمائی ہوئی تو وہ مصلحتاً خاموش رہے اور انہوں نے بڑی تیزی سے نئے پیمانے اپنا لیے۔
لوہا گرم دیکھ کر حکومت نے ایک بڑا ہتھوڑا اور مارا، اور میلوں کی جگہ کلومیٹر نے لے لی۔ یہ بڑا مشکل کام تھا۔ سڑکوں پر میل کے بجائے کلومیٹر کی برجیاں لگانا، ریلوے لائن کے ساتھ لگے ہوئے سارے کھمبوں اور سٹیشنوں پر میلوں کے بجائے کلومیٹر لکھنا کوئی ایسا آسان کام بھی نہ تھا۔ غرض نئے سرے سے سڑک اور ریل کے فاصلے ناپے گئے اور ان کو مناسب جگہ پر لکھوا دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی سے لاہور کا فاصلہ 800 میل سے ”بڑھ“ کر ساڑھے بارہ سو کلومیٹر ہو گیا۔ غرض برطانوی دور حکومت کے میلوں والے سارے سنگ میل بدلے گئے اور سنگ کلومیٹر نے آگے بڑھ کر ان کی جگہ لے لی۔اس تبدیلی کو بھی ہضم کرنے کے لیے ایک مدت تک کچے اور پکے میل کی اصطلاح چلتی رہی تھی۔کراچی سے حیدرآباد کا فاصلہ کچھ یوں بتایا جاتا کہ نوے پکے میل یا ڈیڑھ سو کچے میل ہیں۔ رکشے ٹیکسی والوں نے اس بوکھلاہٹ کا پورا فائدہ اٹھایا اور نئے کلومیٹر کو میل ظاہر کرکے کرایہ طے کرتے رہے۔
اب جب میل کلومیٹر میں بدلے تو گزوں، فٹوں اور انچوں نے کیا بگاڑا تھا، ان کو بھی تو بدلنا تھا۔نئے اعشاری نظام کے تحت یہ سلسلہ میٹر، سینٹی میٹر اورملی میٹر تک چلا گیا۔ اس نے کپڑے والوں کے کاروبار میں ہلچل پیدا کی جن کو اب ایک گز کے بجائے ایک میٹر کپڑا دینا پڑتاتھا، جوپرانے حساب سے تین فٹ تین انچ کے برابر تھا۔ انجینئر اور کاریگر حضرات بھی حکم سرکار کے مطابق فٹوں اور انچوں کی سیڑھیوں سے اتر کر سینٹی میٹر اور ملی میٹر کی طرف مائل تو ہو گئے، لیکن آپس کی بات ہے کہ یہ کئی برس بعد تک بھی عمارتوں کی بلندی اور فاصلوں کی پیمائش فٹوں اور انچوں میں ہی کرتے رہے، بلکہ ابھی بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔
اس سلسلے کی آخری کیل جو پرانی جانی پہچانی زندگی کے تابوت میں ٹھونکی گئی وہ مائع حجم کا اعشاری نظام تھا۔ تیل،پٹرول اور ڈیزل گیلن سے لٹر میں بدل گیا۔ اسی طرح کم مقدار کے لیے بھی ملی لٹر وغیرہ کے پیمانے رکھے گئے۔ ایک گیلن کے بجائے اب پونے چھ لٹر پٹرول لینا پڑتا تھا۔ دودھ بھی سیروں کے بجائے اب لٹروں میں بیچا جانے لگا۔
سُن ہو گیا نا آپ کا بھی دماغ صرف پڑھ کر ہی؟ ذرا ان کی اذیتوں کا اندازہ لگائیں جن کو قدم قدم پر ان الجھنوں کو سلجھانا ہوتا تھا۔ سلجھ جاتی تو ٹھیک ورنہ قسمت کو کوستے ہوئے وہاں سے رخصت ہو جاتے۔
شروع میں ہر مرحلے پر صارفین کو کافی دقت ہوئی۔ پھر لوگ عادی ہو گئے اور سن 60 کی د ہا ئی کے اختتام پر سب نے پوری ایمان داری اور اعتماد کے ساتھ اس نئے نظام کو اپنا لیا۔ حکومت نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ اعشاری نظام کے مکمل نفاذ کا ہدف حاصل کر لیا گیا تھا اور پاکستان بھی ان ملکوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا جو پچھلی کئی دہائیوں سے اعشاری نظام کے ساتھ منسلک تھے۔ اس نظام کی سب سے خوب صورت بات یہ تھی کہ ان کی ہر پیمائش10 پر تقسیم یا ضرب ہو جاتی تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)