قبرستان میں سکول

قبرستان میں سکول

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ پنجاب کی حکوت ایک جانب اربوں روپے کے لیپ ٹاپ تقسیم کر رہی ہے جبکہ گوجرانوالہ میں بچیاں ایک قبرستان میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ بچے سردیوں میں کھلے صحن میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس ایک زیر سماعت مقدمے کی سماعت کے دوران دئیے۔ اگرچہ ان میں صرف ایک سکول کا تذکرہ ہے جو قبرستان میں ”کام“ کر رہا ہے لیکن یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پنجاب سمیت ملک کے چاروں صوبوں میں ہزاروں ایسے سکول ہیں جن کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کسی کی چار دیواری نہیں تو کہیں بااثر لوگوں نے مویشی باندھ رکھے ہیں اور سکول مال خانے بن گئے ہیں۔ بعض سکولوں میں تو بچوں کے لئے ٹاٹ تک موجود نہیں۔ دیہاتی سکولوں کے صحن دھول سے اٹے رہتے ہیں اور بچے بیٹھنے کے لئے گھروں سے بوریاں ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ شدید سردی اور سخت گرمی میں بھی بچوں کو کھلے آسمان تلے بیٹھنا پڑتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان سکولوں کو بہتر بنانا شاید حکومتوں کی ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے ہے۔ پنجاب کی حکومت تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ ذہین طلباءکی بھی بلاشبہ حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ ان میں لیپ ٹاپ بھی تقسیم کئے جا رہے ہیں اور اگلے مالی سال کے بجٹ میں مزید ایک لاکھ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے لئے چار ارب روپے بھی رکھے جا رہے ہیں۔ دانش سکول بن رہے ہیں۔ لاہور میں ایک ٹیکنالوجی یونیورسٹی بھی بنا دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست، لیکن سوال یہ ہے کہ جن سکولوں میں کوئی بنیادی سہولت نہیں، جن کی عمارتیں مخدوش ہیں، جہاں بچوں کو پانی کی سہولت اور لیٹرین تک موجود نہیں ان کی حالت بہتر بنانا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ درست ہے کہ دانش سکولوں میں بھی غریب بچوں اور بچیوں کو داخلے دئیے جا رہے ہیں لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ ایک طرف تو چند سو یا چند ہزار بچے بچیوں کے لئے دانش سکول بن رہے ہیں لیکن دوسری جانب بچوں کے ہزاروں سکولوں سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں بنیادی تعلیم کے 26 ہزار سکول ہیں ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے کتنے سکول معیار کے مطابق ہیں اور کتنے خستہ حال، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سکولوں کو بہتر بنانے کے لئے ایک مرحلہ وار پروگرام بنایا جائے۔ اس طرح چند برس میں پورے پنجاب کے سکولوں کی حالت کسی نہ کسی طرح بہتر ہو جائے گی۔ دانش سکول بے شک بناتے رہیں لیکن یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ چند ہزار کے لئے تو اربوں روپے سالانہ خرچ کر دئیے جائیں لیکن لاکھوں کے لئے چند کروڑ بھی صرف نہ کئے جائیں۔

مزید :

اداریہ -