انتخابی مرحلے کے بعد .... تجدید ِ عہد اور عزمِ نو(2)

انتخابی مرحلے کے بعد .... تجدید ِ عہد اور عزمِ نو(2)
انتخابی مرحلے کے بعد .... تجدید ِ عہد اور عزمِ نو(2)

  

جماعت اسلامی: ایک نظریاتی تحریک

بنیادی بات جس کی تذکیر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان محض ایک ’سیاسی‘،’مذہبی‘ یا ’اصلاحی‘ جماعت نہیں ہے بلکہ وسیع معنوں میں ایک نظریاتی تحریک ہے جو پوری انسانی زندگی کی اسلام کے جامع اور ہمہ جہتی کی روشنی میں تعمیر نو کرنا چاہتی ہے تاکہ انسانی زندگی، اللہ کی بندگی میں گزاری جا سکے اور انسانوں کے درمیان عدل و احسان کی بنیاد پر یہ تمام معاملات مرتب اور منظم ہو سکیں۔ اس کے لئے جماعت اسلامی تمام ممکن تدابیر سے کام لے رہی ہے، جیسے اسلام کے علم کو پھیلانا، قدیم اور جدید جاہلیتوں کی پیدا کردہ گمراہیوں کو دور کرنا، سوچنے سمجھنے والے طبقوں کو علمی حیثیت سے یہ بتانا کہ اسلام ہمارے تمام مسائل کو کس طرح حل کرتا ہے۔ جماعت کا کام صرف یہ دعوتی خدمت ہی نہیں بلکہ اس نے ان تمام امور کی اصلاح اور مسائل کے حل کے لئے زندگی کے ہر گوشے میں سر گرم جد و جہد برپا کی ہے۔ اقامت دین ہمارا اصل ہدف اور منزل ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اصلاح کے لئے ہمہ گیر کوشش اس کا ذریعہ ہے۔ سیاست کی اصلاح، اچھی ’قیادت‘ کے بروے کار لانے کی سعی اور نظام حکمرانی کو اسلام کے اخلاقی، سماجی،فلاحی اور اصلاحی مقاصد کے لئے مو¿ثر طور پر استعمال کرنے کے لئے حالات سازگار کرنا اس کا ہدف ہے۔ پھر جس حد تک اختیارات حاصل ہوں انھیں استعمال کر کے تبدیلی لانا اس جد و جہد کااہم حصہ ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی نگاہ میں یہ جد و جہد بھی عبادت کا ایک حصہ ہے اور اس سے حاصل ہونے والی قوت کو استعمال کرنے کی سعی بھی جوانتخابی عمل میں ہماری شرکت کا سبب ہے، اس ہمہ گیر جد و جہد کا ایک ضروری حصہ ہے۔

جماعت اسلامی کی جد جہد کے اس اہم ترین پہلو کو جماعت کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے چند الفاظ میں یوں ادا کیا تھا کہ:

جماعت جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے وہ ایک اور صرف ایک ہے، اور وہ ہے اللہ کے دین کو عملاً پوری طرح سے پوری زندگی میں نافذ کیا جائے، اس کے سوا اس جماعت کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ سیاسی کام بھی اگر ہم کرتے ہیں تو سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے ، محض اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو دین حق کے قیام میں مانع ہورہی ہیں۔

تبدیلی کے لیے حکمت عملی

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے تبدیلی کے جس راستے کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے وہ ہمہ جہتی ہے اور اس کی ہر جہت دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہے۔ یہ راستہ ایمان کے احیا، فکر و ذہن کی تبدیلی، اخلاق و کردار کی تعمیر، اصلاحِ معاشرہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، انسانوں کی خدمت ، اور ان کو منظم جدو جہد کے لیے اجتماعی تبدیلی کے لیے سر گرم کرنے کا راستہ ہے۔ راے عامہ کی تعمیر اور سیاسی اور دیر پا تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کا مستقل طریقہ کار اس کے دستور میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے:

۱۔وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ اللہ اور رسول کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہو گی۔

۲۔ اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔

۳۔ جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیش نظر ہیں۔

۴۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جد وجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔

یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ ہم اس وقت، جس مقام پرکھڑے ہیں، اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں ، اس کو واضح طور پر سامنے رکھنا ہو گا، تا کہ ہمارا ہر قدم اسی منزل کی طرف ا±ٹھے، خواہ ہم پسند کریں یا نہ کریں، نقطہ آغاز تو لا محالہ یہی انتخابات ہوں گے، چوں کہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظام حکومت تبدیل ہو سکتاہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے ، جس سے ہم پ±ر امن طریقے سے نظام حکومت بدل سکیں اورحکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔ اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس ، دھوکے، دھاندلی، علاقائی یا مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہو سکیں، انتخابات دیانت دارانہ ہوں۔

لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کر نے کا موقع دیا جائے۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول ، مقاصد اور پروگرام پیش کریں اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہو سکتاہے کہ پہلے انتخابات میں ہم عوام کے طرزِ فکر اور معیار انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکیں، لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظام حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظام انتخاب پر نظر ثانی کر سکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخاب کو از سر نو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہر حال آپ یک لخت جست لگاکر اپنے انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔

اس سلسلے میں مولانا محترم نے اپنے تمام کارکنوں کو صاف الفاظ میں یہ ہدایت بھی دی کہ ان کو نہ صرف صبر اور محنت سے جد وجہد جاری رکھنی ہے بلکہ اس کے جو آداب اسلام نے مقرر کیے ہیں ان کے پورے اہتمام کے ساتھ یہ جد و جہد کرنی ہے، اور وقتی نتائج سے بے پروا ہو کر اپنے اصل مقصد کے حصول کے لیے ایمان اور احتساب کے ساتھ سر گرم عمل رہنا ہے:

اگر واقعی آپ چاہتے ہیں کہ یہاں اسلامی نظام زندگی برپا ہو تو پہلے اس خیال کو ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ اصل کام بہر حال انتخاب جیتنا ہے خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے، بلکہ خوب سوچ سمجھ کر یہ طے کر لینا چاہیے کہ انتخاب صحیح طریقے سے جیتنا ہے خواہ اس کی کوشش کرتے ہوئے آپ ایک دو چار نہیں دس انتخاب ہارتے چلے جائیں۔ صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے انتخاب جیتنے کے لیے ہمیں عوام میں مسلسل کام کرکے اپنی قوم کی ذہنی سطح کو بلند کرنا پڑے گا۔ اس کے اخلاق کو بلند کرنا پڑے گا، تاکہ وہ اسلامی نظام کو سمجھنے کے قابل ہو سکے۔ اس کی راے کو تیار کرنا ہوگا کہ وہ بھلے اور برے میں تمیز کر کے غلط قسم کی اپیلوں کو رد کر دے۔

تبدیلی کے صحیح اور غلط طریقوں کی نشان دہی کرتے ہوئے مولانا محترم نے اس تحریک اور اس قوم کو یہاں تک متنبہ کر دیا تھا کہ:

خدا کی قسم، اور میں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں، کہ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے ، وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی دہشت پسنددانہ تحریک کے ذریعے سے یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کے ذریعے سے ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب پربا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ جمہور ی ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ [ہماری یہ راے]۔۔۔۔قطعاً کسی سے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ قطعاً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں اور ہمارے اوپر یہ الزام نہ لگنے پائے۔

اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ لوگوں کے خیالات نہ تبدیل کر دیے جائیں۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ ، یا کسی قسم کی سازش کے یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں کے ذریعے اور جھوٹ اور اس طرح کی کسی اور مہم کے ساتھ انتخابات جیت بھی لیے جائیں ، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے یہ اس طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔(جاری ہے)  ٭

حالیہ انتخابات اور جماعت اسلامی کی حکمت عملی

جماعت اسلامی کے مقصد ، اس کی پالیسی اور اس کے طریق کار کے ان بنیادی نکات کی روشنی میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تحریک اسلامی کے بے لوث کارکنوں کو ہدی? تبریک پیش کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی تمام بشری کمزوریوں کے با وجود جماعت اسلامی اور اس کے کار کنوں نے حالیہ انتخابا ت میں اپنے بنیادی اصولوں اور اہداف کی روشنی میں پورے اطمینانِ قلب، ذہنی یکسوئی اور عملی انہماک کے ساتھ شرکت کی۔ اس نے قوم کے سامنے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک واضح پروگرام پیش کیا۔ اس کا منشور ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے جس میں پاکستان کے موجودہ حالات کی روشنی میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصلاح کار کے واضح خطوط کار پیش کیے گئے ہیں اور تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مدینہ کے ماڈل کا جو نقشہ جماعت اسلامی کے منشور میں پیش کیا گیا ہے اس کی آوازِ بازگشت دوسری جماعتوں کی انتخابی مہم میں بھی سنی جا سکتی تھی۔

مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں تین امور بالکل واضح ہیں:

اولاً: جماعت اسلامی محض ایک انتخابی جماعت نہیں وہ اقامتِ دین کے مقصد کے لیے ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک ہے جس نے دین کا ایک واضح تصور ، امت اور انسانیت کے سامنے پیش کیا ہے اور الحمد للہ اس فکر اور اس نقط? نظر کے اثرات ملک اور خطے میں ہی نہیں دنیا کے طول و عرض میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہمار ا اصل ہدف اقامت دین ہے اور سیاسی جد و جہد اس کا ایک حصہ ہے نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔

دوم: جماعت اسلامی نے انسانی زندگی میں تبدیلی کے لیے جو طریق کار اختیار کیا ہے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی ، قلب کی کیفیات، ذہن کے ادراک، فکر کی تشکیل، کردار کی تعمیر، اداروں کی اصلاح اور معیشت ، معاشرت، ثقافت، قانون اور حکمرانی کے نظام اور آداب کار سب ہی کی نئی صورت گر ی پر محیط ہے۔ یہ طریق کار منہج نبوی ? پر مبنی ہے اور ہر دور میں مطلوبہ تبدیلی کے لیے یہی طریق کار مو¿ ثر اور کامیاب ہو سکتا ہے۔

سوم: مقصد اور طریق کار کی روشنی میں جو بھی نظام کار ترتیب دیا جائے اور وقتی مصالح، حالات اور چیلنجوں کی روشنی میں جو بھی پالیسیاں ترتیب دی جائیں،نیز مقصد کے حصول کے لیے جو بھی انتظامات اور اقدام کیے جائیں وہ اجتہادی نوعیت کے امور ہیں اور ان پر حالات اور تجربات کی روشنی میں سوچ بچار اور ترک و اختیار کا سلسلہ اصولوں سے وفاداری اور بدلتے ہوئے حالات کے اِدراک کے ساتھ دلیل اور مشاورت سے ہوتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک مستقل عمل ہے اور قرآن کے الفاظ میں اس حکمت کا حصہ ہے جس کی تعلیم نبوت کا ایک اہم وظیفہ تھی۔

مزید :

کالم -