معاشرے میں بڑھتا ہوا تشدد
معاشرے میں عدم تشدد کی فضا ختم ہو چکی ہے۔ عدم برداشت عدم تعاون کی فضا بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات معاشی ناہمواریاں اور حکومتوں کی بدانتظامی ہی قرار دی جاتی ہے۔ واضح رہے ہمارا اشارہ کسی ایک حکومت کی طرف نہیں ہے۔مختلف ادوار میں مختلف حکومتیں آتی ہیں، مگر وہ اچھی انتظام کاری دکھانے میں ناکام ہیں۔ اس کی وجہ صاف ہے یعنی وہی ریاستی مشینری جو زنگ آلود ہو چکی ہے۔ مختلف لوگ اسے اپنے اپنے انداز میں گھسیٹ رہے ہیں، مگر وہاں سے نتائج حاصل نہیں ہو رہے اس کی وجہ اس نظام کی خرابی ہی ہے۔ رشوت خور پولیس، بے حس سول بیوروکریسی اور عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار، سست عدالتی عمل، انصاف میں تاخیر، بلکہ انصاف کی عدم دستیابی ان سارے عوامل نے عوام کو ذہنی اذیت اور کوفت میں مبتلا کر دیا ہے۔
عوام کو پولیس بیورو کریسی پر اعتبار نہیں رہا۔ عدالتوں میں سائل ذلیل ہو جاتے ہیں اور عدالت دیتی ہے صرف تاریخ پر تاریخ اور کچھ بھی نہیں۔ واقعات کی ایک لڑی ہے، جو ہجوم کو اپنے انصاف خود کرنے پر مجبور کر رہی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے ہجوم انصاف نہیں کرتا صرف اپنی گھٹن کا اظہار کرتاہے۔ ہجوم کی اپنی کیفیت ہوتی ہے، وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے، وہ جذباتی پن کے سیلاب میں تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہے۔ لاتعداد واقعات ہیں۔ سیالکوٹ میں چند سال قبل دو بھائیوں کو تشدد کے بعد ہلاک کیا گیا۔ کتنے قاتلوں کو اب تک سزا ملی ہے۔ برسوں سے مقدمہ سیشن کورٹ میں چل رہا ہے۔ مدعی تنگ آ کر پیروی کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح اور دوسرے واقعات ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوئے۔ عوام نے ڈاکوؤں کو خود ہی پکڑا اور زندہ جلا دیا۔اس سے کیا ہوا کیا نظام ٹھیک ہو گیا۔ کیا ڈاکے اور چوری کی وارداتیں کم ہو گئیں، ہرگز نہیں۔ صرف ہجوم نے اپنی گھٹن نکالی۔ معاشرے میں جہاں تشدد کی فضا بڑھتی جا رہی ہے وہاں رواداری کا فقدان بھی بڑھ گیا ہے۔کوٹ رادھاکشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلا دیا گیا، یوحنا آباد میں بم دھماکے کے بعد شبے میں دو مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا۔ جوزف کالونی کو جلایا گیا۔ گوجرہ میں پوری عیسائی بستی کو جلایا گیا۔
یہ سارے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کھوچکا ہے اور زوال کی انتہا پر ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما اس بات کو اپنے انداز سے دیکھتے ہیں۔ مولانا طاہر اشرفی ہر واقعے پر جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ معاملات کو مثبت انداز سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں نے ہمیشہ کوشش کی دنگا و فساد برپا ہونے سے روکا جائے۔ بات چیت سے افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ اپنی بات منوانے کے لئے دلیل کا سہارا لیا جائے اور جذباتی انداز بنام مذہب قتل و غارت کو روکا جائے۔ سانحہ کوٹ رادھا کشن ہو، جوزف کالونی کا واقعہ یہ سب مذہبی مسئلے نہیں تھے۔ یہ ذاتی لڑائیاں تھیں جن کو بنام مذہب استعمال کیا گیا۔ مَیں نے ہر ممکن کوشش کی فساد کو روکا جائے۔ حدیث نبویؐ ہے فتنہ و فساد برپا کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں۔ پادری شاہد معراج ایک اور انسان دوست شخصیت جو ہر سانحے پرپُرامن احتجاج کے حامی ہیں۔ان کا موقف ہے ہمیں بحیثیت پاکستانی آپس میں مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے کبھی بھی تشدد کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ تشدد کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا، مسئلے کو بڑھاتا ہے۔
معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر نصرت حبیب نے اس مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا۔ ہمارے سماج میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کو ہماری زبان میں سماجی مایوسی کہا جاتا ہے۔ ہمارا پورا معاشرہ ہی سماجی مایوسی کا شکار ہے۔ عوام معاشی طور پر غیر محفوظ ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہیں دہشت گردی کا شکار نہ ہو جائیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے موقف کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے راقم کا خیال ہے کہ جب سماج مایوسی کا شکار ہو جائے اور اس کا ریاستی اداروں پر سے اعتماد ختم ہو جائے تو پھر وہ اپنے فیصلے خود کرنے لگ پڑتا ہے کسی وقوع کے بعد ہجوم کی کیفیت ایسی ہی بن جاتی ہے جو ہاتھ میں آئے لوٹ لو۔جس پر شک ہو اسے قتل کر دو۔ ایسے سماج کو سیاست دانوں یا حکمرانوں کی ضرورت نہیں اساتذہ کی ضرورت ہے، ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے، ذہنی سکون کی ضرورت ہوتی ہے، فنون لطیفہ سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے حکمران طبقے کا کردار کبھی بھی حوصلہ افزا نہیں رہا۔ عوام کے لئے کبھی بھی مثالی کردار کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکا۔ سیاست دان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو عوامی مزاج دیکھ کر فیصلے کریں دوسرے وہ جو عوام کو اپنے فیصلوں پر لے کر چلیں۔
پہلی نسل کے سیاست دان بونے ہوتے ہیں ۔ دوسرے حقیقی معنوں میں رہنما ہوتے ہیں جیسے قائداعظم ؒ ، مہاتما گاندھی، نیلسن منڈیلا۔ ڈاکٹر نصرت حبیب نے اس موضوع پر مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہا مشترکہ خاندانی نظام کا خاتمہ بھی سماجی تنہائی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پہلے دل کی باتیں کر لیا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر رو لیا کرتے تھے، مگر اب ایسا نہیں، رونے کے لئے کندھا بھی میسر نہیں ہے۔ معاشی معاملات بھی مشترکہ خاندانی نظام میں حل ہو جایا کرتے تھے۔ایک دوسرے کی مالی مدد ہو جایا کرتی تھی ۔ڈاکٹر طارق میاں نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا پیسے کی غلط تقسیم لوگوں میں فرسٹریشن کا باعث بن رہی ہے۔ راقم نے ڈاکٹر طارق میاں کے موقف پر جب ان سے پوچھا جب طبقاتی خلیج وسیع تر ہوتی جائے گی، ایک طبقہ امیر سے امیر دوسرا غریب سے غریب تر ہوتا جائے گا، معاشرے میں امن پیار محبت روا داری کیسے فروغ پائے گی۔ڈاکٹر طارق میاں نے اس پر کہا یہ سب بیڈ گورننس کا نتیجہ ہے۔ اس فیچر کو ختم کرتے ہوئے راقم کا خیال ہے فنون لطیفہ سے غیرہم آہنگی بھی معاشرے میں فرسٹریشن میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ آرٹ کلچر، افسانہ ،شاعری، موسیقی ،رقص جیسے اصناف سے دوری کے باعث عوام دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔