نیکیوں کا موسمِ بہار
ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے ایمان و یقین کی استقامت اور حسن عمل کی توفیق کی دعاہے۔تعلق باللہ ،مطالعہ ، تربیت ، تنظیم اور دعوت کے کام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ماہ رمضان کی صورت میں ہمیں ہر سال ایک سنہری موقع میسرآتاہے۔ لہٰذا اس سے بھرپور استفادہ کی کوشش کرنی چاہئے۔رمضان المبارک انفرادی تزکیہ واصلاح کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا سے محبت، ہمدردی اور خیر خواہی کا مہینہ ہے۔ انسانوں کی سب سے بڑی خیر خواہی یہی ہے کہ ان کو اُن کے رب کے راستے پر لگایا جائے ۔ رحمت ،مغفرت اور آتش جہنم سے نجات کے اس بابرکت مہینہ میں اپنی ساری کاوشوں محنتوں، ایثار اور انفاق کو اُسی کی بارگاہ میں پیش کرتے ہوئے مزید استقامت کی طلب کی جائے۔ انفرادی و اجتماعی تربیت کے پروگراموں کو اس طرح منظم کیا جائے کہ اگلے پورے سال کے لئے ایمان و تقویٰ کا زادِ راہ ہاتھ آجائے اور اُن لاکھوں لوگوں کواسلام کے دامن میں سمیٹنے اور جذب کرنے کے لئے عملی سرگرمیاں وضع کی جائیں جو صراط مستقیم سے ہٹ کر ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ماہِ شعبان کے آخری عشرہ میں قرآن اور رمضان کے عنوان سے گھروں، مساجد اور اداروں میں خواتین و حضرات کے لئے الگ الگ استقبال رمضان کی محافل منعقد ہوں۔اس موقع پر قرآن اور رمضان کے موضوع پرکتابچے تقسیم کیے جائیں۔ ذیل کی سطور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں رمضان کے استقبال اور تیاری کے لئے قلمبند کی ہیں۔
سب سے پہلا کا م یہ ہے کہ اس ماہ مبارک سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ابھی سے خالص نیت اور پختہ ارادہ کر لیں۔ نیت پر ہی تمام اعمال کا دارو مدار ہوتاہے۔ رمضان کے پیغام، اور اس کی عظمت و برکت کے احساس کو تازہ کر لیں۔ ایسے کام کرنے کاعزم و ارادہ کریں کہ جن سے آپ اور آپ کے مخاطبین کے اندر تقویٰ پیدا ہو،ان کاموں کی تفصیل جاننے کے لئے بہت مفید ہو گاکہ رمضان المبارک میں مولانا مودودیؒ کی کتاب الصوم اور صلحائے امت کے مرتب کردہ کتابچوں سے مسلسل استفادہ کیا جائے۔رمضان اور قرآن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔اس مہینے کا حاصل ہی قرآن سننا اور پڑھنا، قرآن سیکھنااور اس پرعمل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔۔۔۔روزانہ قرآن کا کچھ حصہ ترجمے کے ساتھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔یکم رمضان سے ہی اس ارادے کے ساتھ قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیں کہ آئندہ رمضان تک پورا قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی استعداد پیدا ہو جائے۔۔۔رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے اور روزے کی وجہ سے لوگوں کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔اس قلبی کیفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پانچ یا دس روزہ فہم قرآن کلاس اورجہاں ممکن ہو ،دورۂ تفسیر کا اہتمام کرنے کی کوشش کریں۔۔۔۔ آپ جس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، ان میں خلاصہ تراویح کا اہتمام کریں۔یہ قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔۔۔۔ ختم قرآن کی تقاریب رمضان کا اہم حصہ ہیں جس میں عوام الناس کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ اپنے اردگرد مساجد میں ہونے والی ایسی تقاریب میں شرکت کریں اورعوام الناس تک دعوت دین پہنچانے کی کوشش کریں۔
مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی تفسیر تفہیم القرآن عام فہم ہے اسی طرح دیگر مفسرین کرام کی تفاسیر سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے اس ماہ مبارک میں آپ قرآن کریم سے جتنا زیادہ تعلق مضبوط بنا لیں گے اتنا ہی آپ کیلئے مفید ہوگا۔ اپنے حلقہ احباب اور اعزہ و اقارب کو بھی ان تفاسیر سے مستفید ہونے پر آمادہ کریں۔ ملک بھر میں کئی مقامات پرشعبان کے آخری اتوار سے رمضان المبارک کے دوسرے عشرے تک قرآن و حدیث و سیرت مبارکہ کے اہم ترتیب وار موضوعات پر مساجد ، گھروں ، شادی ہالوں میں اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ مرد وخواتین ،نوجوان ذوق شوق سے شریک ہوتے ہیں۔ ایسے پروگرام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں رواج دیں ۔ رمضان کریم ہر سال ایک ٹریننگ کی صورت میں ہمیں معاملات ،رویوں ، تعلقات کے جائزہ ،احتساب کا موقع فراہم کرتاہے۔ اس پورے معاشرے کے ٹھیک ہونے سے پہلے اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے کہ معاشرے کی اکائی یعنی فرد درست ہو۔ ذاتی احتساب و جائزہ کے ذیل میں رمضان کی اہمیت محتاج بیان نہیں ۔۔۔۔اپنی خامیوں کی ایک فہرست بنائیں اوراکٹھے نہیں تو ایک ایک کر کے ان سے بچنے کا اہتمام کریں۔۔۔۔غیبت ، چغلی ، لعن طعن ،بدگمانی ، تکبر ، ظلم ، غصہ ،جھوٹ ،وعدہ خلافی ،بد نگاہی، حسد ،بغض وغیرہ۔۔۔یہ سب اخلاقی برائیاں ہیں۔۔۔ اور ماہ رمضان ان برائیوں کا علاج کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔۔۔اس موقع کو ضائع مت کیجیے۔تحریکی ، سماجی ، خاندانی اور گھریلو دائرے میں اپنے سابقہ رویوں کا خالصتاً آخرت کے نقطۂ نظر سے جائزہ لیں ۔
ازروئے قرآن و سنت ہم اپنے اپنے دائرہ کار میں موجود افراد کی اصلاح ’تربیت ‘ ابلاغ دین کے لئے جواب وہ ہیں یہ ذمہ داری سیاسی ہو یا خدمتِ خلق ،تنظیم کی ہو یا تربیت کی ، یہ دیکھتے رہنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے قدم کتنے آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔۔ اذان کے بعد سب کام چھوڑ کر مسجد پہنچیں اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا فرمان ہے کہ’’ جس شخص کو یہ بات پسند ہوکہ وہ مطیع و فرمانبردار بندے کی حیثیت سے روزِ قیامت اللہ سے ملے،تو اس کو پانچوں نمازوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور انہیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔۔۔باقاعدگی کے ساتھ نمازِ تراویح کا اہتمام کریں۔حضوراکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ’’جوشخص یہ نماز[تراویح] پڑھتا ہے اس کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔‘‘۔۔۔رات کے آخری تہائی حصے میں پڑھی جانے والی نمازتہجد بھی تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے، اس کا بھی التزام کرنے کی کوشش کریں۔ سحر سے ذراقبل اُٹھ کر آپ بآسانی پورا ماہ صلوٰۃ اللیل کا اجر حاصل کرسکتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کو ہمدردی و غم خواری کا مہینہ قرار دیا ہے۔ہمدردی کا ایک پہلوکسی روزہ دار کا روزہ افطار کروانا بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افطار کروانے کی ترغیب دی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’جوشخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے تو اس کے لئے گناہوں سے مغفرت اور دوزخ کی آگ سے رہائی ہے۔اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا روزہ دار کو، اور اس سے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔‘‘۔۔۔ انفرادی و اجتماعی سطح پر افطاری کا اہتمام کریں۔افطاری سے کم از کم آدھاگھنٹہ پہلے لوگوں کی شرکت کو یقینی بنائیں اور ان کے لئے درس قرآن، درس حدیث، لیکچروغیرہ کا اہتمام کریں۔ افطاری سے پہلے خشوع وخضوع اور دل کی حضوری کے ساتھ دعا ضرورکریں۔ ۔۔۔افطار پارٹیوں کو کھانے پینے کی نمائش کے بجائے دعوتی عمل کومہمیز دینے کا ذریعہ بنائیں۔۔۔۔ غرباء و مساکین کو افطار پارٹیوں میں ضرور دعوت دیں۔۔۔۔پہلے افطار ،پھرنماز اورآخرمیں طعام کی ترتیب کو روا ج دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ افطار سے قبل اجتماعی دعا ہو ، نمازِ مغرب کے بعد درس /خطاب اور اس کے بعد کھانے کا اہتمام کیا جائے۔ یوں تو رمضان المبارک کا ایک ایک لمحہ تاریخی اور یاد گار ہے۔ اس کے باوجود تاریخ اسلام کے کئی اہم مراحل کو رمضان سے نسبت حاصل ہے۔ دعوت دین کے ابلاغ کے لئے ان ایام کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائیے۔
10رمضان یوم باب الاسلام
17 رمضان المبارک
یوم غزوۂ بدر
27 رمضان المبار ک،یوم نزول قرآن۔ یوم آزادی پاکستان۔۔۔ان ایام کی مناسبت سے پروگرامات ترتیب دینے چاہئیں تاکہ عوام اسلامی تاریخ سے وابستہ رہیں۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ جب رمضان کا آخری عشرہ آتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے،راتوں کو جاگتے،اپنے گھر والوں کو جگاتے،اور اتنی محنت کرتے جتنی کسی اور عشرے میں نہ کرتے۔‘‘رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ ایک سال بوجوہ ناغہ ہوا توآپؐ نے اگلے سال بیس دن اعتکاف کیا۔۔۔۔رمضان المبارک مومن کی تیاری کا مہینہ ہے تاکہ بقیہ گیارہ مہینے شیطانی قوتوں سے لڑنے کی قوت فراہم ہو جائے۔اعتکاف اس تیاری کا اہم جزو ہے۔۔۔۔اجتماعی اعتکاف اور شب بیداری کا پروگرام بنائیں ۔قرآن مجید کے فرمان کے مطابق شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔۔۔۔امام بخاریؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’جس شخص نے شب قدر میں ایمان اور خود احتسابی کی حالت میں قیام کیا تو اللہ رب العالمین اس کے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیں گے۔‘‘۔۔۔آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں27,25,23,21اور29کو اعتکاف اور شب بیداری کے لئے مختص کردیں۔۔۔ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو تلاش کرورمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر مجھے پتا چل جائے کہ فلاں رات شب قدر ہے تو اس میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرو: اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ۔’’اے اﷲ ! بلاشبہ تو معاف کرنے والا ہے، اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ،پس تو مجھے معاف فرمادے۔ ‘‘
نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔وقت ،جان،مال ،اولاد،صلاحیتیں اور جسم و جان کی جملہ قوتیں ،غرض جو کچھ بھی مالکِ دوجہاں نے دیا ہے اس کی راہ میں خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سارے انسانوں سے زیادہ فیاض اور سخی تھے۔لیکن رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارش لانے والی تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرمایا کرتے تھے۔ ۔۔۔اگر آپ اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہیں ، جنت میں اعلیٰ درجات کی خواہش رکھتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کے طلب گار ہیں تو اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کریں اور دیگر لوگوں کو بھی اس طرف متوجہ کریں۔۔۔۔ حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ہے [تاکہ]روزے فضول ،لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہوجائیں اور مسکینوں کو کھانے پینے کا سامان میسر آئے۔صدقہ فطرعید کی آمد سے پہلے ہی ادا کرنے کی کوشش کریں تاکہ غرباء ومساکین بھی عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔آخرت کی تیاری کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو مہلتِ عمل ہمیں دے رکھی ہے اس کا نام زندگی ہے۔یہ مہلتِ عمل کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔رمضان المبارک تیاری کا بہترین موقع ہے،نہ جانے اگلے برس ہمیں یہ سعادت اور موقع مل سکے یا نہ مل سکے !!!اس سے فائدہ اٹھائیے ،اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے ،اپنے گناہ معاف کروانے اور جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کے لئے اس کے ایک ایک لمحے کو قیمتی بنائیں اور ضائع ہونے سے بچائیں۔